کبھی باقاعدہ کرکٹ نہیں کھیلی۔ اچھے ’’بیٹر‘‘ ہونے کا خواب ادھورا ہی رہا۔ لڑکپن میں اچھا بیٹر بننے کی خواہش تھی، سو خوابوں میں متواتر ایک اُوور میں 8 چھکے لگاتا، کہ میرسے سامنے باؤلر دو ’’نو بالز‘‘ بھی کرتا۔
اسی طرح اچھی انگریزی کبھی نہیں بول سکا۔ لہٰذا والدہ صاحبہ کہتی تھی کہ لڑکپن میں اکثر خواب میں انگریزی میں کوئی تقریر کرتا رہتا تھا۔ یہ خوابوں میں میرا حال تھا۔
ویسے ہم مسلسل جاگتے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ ایسے تصورات اور تخیلات میں رہتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان تخیلات میں ہیرو پرستی اور ہیرو تراشی بھی شامل ہے۔ اپنی ذاتی و اجتماعی زخمی انا کو سہلانے کے لیے جب خود کچھ نہیں کرسکتے، تو اس کا مداوا کسی اور میں دیکھتے ہیں۔ یہی سے ہمارے سیاسی تخیلات بھی جنم لیتے ہیں، جو نرگسیت اور خود ترسی دونوں کی آمیزش ہوتے ہیں۔ اس میں کبھی کبھار خود سے نفرت بھی شامل ہوجاتی ہے۔
مثلاً: نرگسیت ایسی کہ اپنے عقیدے اور اپنے خیالات کو پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ اور سب سے اعلا سمجھتے ہیں، جب کہ خود سے نفرت دیکھیں کہ دیانت داری، ایمان داری اور صفائی کی مثالیں گوروں کی دیتے ہیں۔ خود ترسی ایسی کہ بس ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ جملہ کہ ’’پاکستان ہے، سب چلتا ہے، کیا کریں!‘‘ یا یہ کہ ’’ہم بڑی قوم اس وجہ سے نہیں بنے کہ اغیار نے ہمیشہ سازشیں کیں‘‘ اسی خود ترسی کی مثالیں ہیں۔ ’’مسلم امہ کو کوئی یک جا ہونے نہیں دیتا‘‘ وغیرہ۔ جاگتے خوابوں اور اسی نرگسیت اور کس مہ پرسی والے سینڈروم کی وجہ سے ہم نے شیطانوں، کٹھ پتلیوں اور پراکسیز کو بھی ہیرو سمجھا۔ بہت سے خواب بُنے، بہت سے بت تراش لیے پر کوئی چارہ گر نہیں ملا۔
1990ء کی دہائی کے ابتدائی سال تھے۔ اگست 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا۔ 1991ء میں کراچی گیا، تو وہاں اپنے نانا اور اُن کے ساتھیوں کو شام کو گلی کے کونے میں بیٹھے ریڈیو سنتے دیکھتا رہا۔ اتنا کچھ معلوم نہیں تھا، پر اُن بزرگوں کی باتوں سے لگتا تھا کہ صدام حسین کوئی ہرکولیس یا دیوتا ہے، جو امریکہ کو نیست و نابود کردے گا۔ ٹرکوں پر جنرل ایوب خان کی تصاویر کی جگہ صدام حسین نے لی۔ اس دوران میں جو بچے پیدا ہوئے، اُن میں زیادہ تر کا نام صدام حسین پڑگیا۔
ہمیں معلوم نہیں تھا کہ سال 1979ء ہی کو عراق نے ایران پر اس وجہ سے حملہ کیا تھا کہ کہیں ایران میں انقلاب کی وجہ سے عراق میں فسادات شروع نہ ہوجائیں۔ جواب میں ایران، عراق کے اندر گھس گیا اور یہ جنگ 1988ء تک جاری رہی۔ امریکہ کی مدد عراق کے ساتھ رہی اور 1988ء میں عراق نے ایران سے چھینے ہوئے علاقے واپس لیے اور یوں جنگ میں توقف آگیا۔
1990ء میں جب عراق نے کویت پر حملہ کردیا، تو امریکہ اس کا مخالف رہا اور عراق پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے پاکستان کے مسلمان صدام حسین کو ہیرو ماننے لگے۔ کئی پاکستانیوں کے لیے صدام حسین اس لیے بھی ہیرو تھا کہ وہ ’’شیعہ ایران‘‘ کے خلاف لڑا تھا۔ کیوں کہ ’’شیعہ ایران‘‘ کے خلاف امریکہ بھی تھا، لہٰذا پاکستان سمیت سنی دنیا کے کئی لوگ بھی مخالف ہوگئے۔
واضح رہے کہ اُن دونوں جنگوں میں دو مسلمان ممالک پہلے عراق اور ایران اور پھربعد میں عراق اور کویت آپس میں لڑ رہے تھے۔ ایرانی انقلاب کے بعد اب تک وہابی سعودی عرب اور خومینی ایران آپس میں سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ صرف یہ نہیں، بل کہ یہ دونوں ممالک صدیوں سے ایسی جنگی حالت میں ہیں اور اس کی سیاسی وجہ یعنی اس خطے (مشرق وسطیٰ) میں سیاسی برتری کے علاوہ تہذیبی وجوہات بھی ہیں۔ مسلمانوں کے بیچ ’’شیعہ سنی اختلاف‘‘ کئی سیاسی و تاریخی علما کے نزدیک سیاسی ہی ہیں، تاہم جیسے کہ عام طور پر کیا جاتا ہے، اس کو عقیدے کی بنیادیں بھی فراہم کی گئیں اور شروع دن سے فراہم کی گئیں۔ کئی علما کے نزدیک مسلم دنیا کے اندر اہلِ تشیع کا اُبھرنا پہلا سیاسی حزبِ اختلاف ہی تھا، جس کو عقیدے کے ساتھ نتھی کردیا گیا اور یوں کئی بیانیے تراشے گئے۔
سیاسی طور پر ترکی اور سعودی عرب اور اس کے ہم نوا بادشاہتوں میں اختلاف بھی مسلم دنیا کی راہ بری اور مسلمانوں کے مقدس شہر (مکہ اور مدینہ) پرایک ملک کی اجارہ داری سے منسلک ہے۔ اس کی جڑیں خلافتِ عثمانیہ تک پھیل جاتی ہیں، جس کو کم زور کرنے کے لیے، کئی سیاسی مبصرین کے نزدیک، مغرب (یورپ اور امریکہ) نے سعودی عرب کی بنیاد رکھی اور اس کی مسلسل پشت پناہی کی۔ مشرقِ وسطیٰ میں اب بھی قطر واضح طور پر ترکیہ کے ساتھ ہے، جب کہ متحدہ عرب امارات ترکیہ سے حالیہ (2010ء) نام نہاد ’’عرب سپرنگ‘‘ (الربیع العربی) یا بہارِ عرب کے بعد دور ہوتا چلا گیا۔
مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے علاوہ امریکہ کے ہر ایک ملک سے تعلقات اچھے ہیں اور اسرائیل اور سعودی عرب تو امریکہ کے مضبوط اتحادی ہیں، بل کہ سعودی عرب کے ذریعے کئی ممالک (جیسے پاکستان) امریکہ کو رام کرتا آیا ہے۔ یوں سعودی عرب بھی تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ کے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔ اسرائیل کو اس خطے میں ایران، عراق، مصر اور شام کو قابو کرنے کے لیے امریکہ اُس کی مدد کر رہا ہوتا ہے، جس کا بہ راہِ راست فائدہ سعودی بھی اٹھاتا ہے کہ کئی عرب بادشاہتیں، ایران یا عرب سپرنگ کی وجہ سے ڈری ہوئی ہوتی ہیں۔
اسرائیل کی ایران پر حملے کی تیاری کئی مہینوں پہلے کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کو بھی اعتماد میں لیا جاچکا ہے۔
ایران کو انقلاب کے بعد سے مختلف قسم کی پابندیوں اور جنگوں کی وجہ سے پابندِ سلاسل کیا گیا ہے اور معاشی طور پر بہت کم زور کردیا گیا ہے، تاکہ وہ کبھی اس خطے میں اسرائیل اور سعودی عرب کو آنکھیں نہ دِکھا سکے۔ ایران میں غربت بہت ہے۔ وہاں کے لوگ اندرونی طور پر ایک سخت گیر حکومت سے تنگ بھی ہیں۔ وہاں کوئی متبادل سیاسی نظام اس لیے سر نہیں اُٹھا سکتا کہ ایک جانب انقلابی حکومت کی طرف سے سختی ہے، تو دوسری جانب ایران ثقافتی، لسانی اور کلتوری لحاظ سے ایک جیسا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ایران ہار جائے گا کہ دنیا کا کوئی نام ور ملک اُس کا ساتھ نہیں دے گا۔ روس یوکرین کی وجہ سے خاموش رہے گا۔ چین کے لیے ایران، پاکستان کی طرح اہم نہیں۔ لہٰذا صرف زبانی جمع خرچ ہوگا۔ ترکیہ بھی کوئی خاص داو نہیں کھیل سکتا کہ اس کو بھی اسرائیل اور امریکہ کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے۔ ایسے میں کئی لوگ شاید نئے خواب بُنیں، تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس جنگ کو یا کسی بھی جنگ کو معاشی اور سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے، تو آسانی ہوسکتی ہے۔ مسلم امہ کا تصور عقیدے سے زیادہ کچھ نہیں اور وہ بھی تقسیم در تقسیم…… مسلم دنیا کو امریکہ یا یورپ نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس اہلِ تشیع اور اہلِ سنت والے سیاسی اور عقیدے کی تفریق نے پہنچایا ہے۔
ایک حل تو یہ ہے کہ دنیا میں دوسری جنگِ عظیم کو پون صدی ہوگئی، لہٰذا ایک تیسری جنگِ عظیم ہوجائے کہ نئی صف بندیاں بن جائیں۔ دنیا کو سیاسی و دفاعی طور پر چار پولز میں یعنی روس، چین، امریکہ اور کوئی مسلم بلاک (جس کے امکانات کم ہیں) تقسیم کیا جائے، تو شاید ایسی جنگوں کا کوئی خاتمہ ہو۔
طاقت وروں کے لیے کم زور پر چڑھنے اور اس کے وسائل ہڑپنے کے لیے ہمیشہ بہانے ہوتے ہیں۔ پہلے یہ بہانے تہذیب اور وحشت تھے، اب دہشت گردی ہیں۔ مسلمانوں کے بیچ جتنی بھی مذہبی جنگ جو تحریکیں ہیں، وہ گروہوں میں تقسیم ہیں اور طاقت ور ممالک ان کو استعمال کرکے اپنا کام نکالتے ہیں۔
ایک نیا استعمار جنم لے چکا ہے، جس کی نوعیت نوآبادیت کی طرح ہی ہے اور دُنیا میں اجارہ داری کے لیے کچھ بھی نظریے گھڑے جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
