ٹریفک نظام، انتظامیہ کے لیے دردِ سر

Blogger Engineer Miraj Ahmad

عیدالضحیٰ کے موقع پر سوات کی حسین وادی ہمیشہ کی طرح امسال بھی سیاحوں کا مرکز بنی رہی۔ موسم خوش گوار، پہاڑوں کی سرسبزی، بہتے جھرنے اور قدرتی حسن کی کشش نے نہ صرف مقامی افراد کو گھروں سے باہر نکلنے پر آمادہ کیا، بل کہ ملک کے دیگر شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں نے بھی وادی کا رُخ کیا۔ سوات کی وادیاں، بالخصوص کالام، بحرین، مدین اور ملم جبہ جیسے مقامات پر لوگوں کا غیر معمولی ہجوم دیکھنے میں آیا۔ ہوٹلوں میں جگہ کم پڑگئی۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں اور مقامی بازاروں میں خریداروں کی بھیڑ نے گزرنا دشوار کر دیا۔ یہ رش نہ صرف سیاحتی مقامات تک محدود رہا، بل کہ مینگورہ، سیدو شریف اور دیگر شہری علاقوں میں بھی غیر معمولی ہجوم دیکھا گیا۔
سیاحوں کی اس یلغار نے جہاں مقامی معیشت کو عارضی طور پر تقویت دی، وہیں انتظامیہ کے لیے بھی ایک بڑا امتحان کھڑا کر دیا۔ پولیس، ٹریفک وارڈن، ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو دن رات متحرک رہنا پڑا، تاکہ صورتِ حال قابو میں رکھی جاسکے۔ ضلعی حکومت کی جانب سے پیشگی منصوبہ بندی کے تحت ٹریفک پلان جاری کیا گیا، سیاحوں کی راہ نمائی کے لیے معلوماتی مراکز قائم کیے گئے اور مختلف شاہ راہوں پر اضافی نفری تعینات کی گئی۔ اس کے باوجود، بعض مقامات پر شدید بدنظمی اور ٹریفک جام کی صورتِ حال نے نہ صرف سیاحوں، بل کہ مقامی شہریوں کو بھی شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ کئی سیاح کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر پھنسے رہے۔ بعض مقامات پر ایمبولینس گاڑیاں بھی ٹریفک میں رکی رہیں، جو ایک تشویش ناک صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے۔
انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج محدود وسائل میں بڑھتی ہوئی عوامی تعداد کو سنبھالنا تھا۔ اگرچہ ضلعی حکومت کی کوششیں قابلِ ستایش تھیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سوات جیسے پہاڑی اور نسبتاً محدود انفراسٹرکچر والے علاقے کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر رش کو موثر انداز میں سنبھالنا فی الحال ایک مشکل امر ہے۔ سیاحوں کی سہولت کے لیے ٹریفک اہل کاروں کی موجودگی صرف مرکزی علاقوں تک محدود رہی، جب کہ دور دراز علاقوں میں سہولیات اور راہ نمائی کا شدید فقدان محسوس کیا گیا۔
اُدھر، مقامی کاروباری افراد اور دکان داروں کے لیے یہ ایام کسی عید سے کم نہ تھے۔ ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز، ریسٹورنٹس، ٹیکسی سروسز اور ہینڈی کرافٹس کی دکانوں پر رش نے مقامی معیشت کو وقتی طور پر فائدہ ضرور پہنچایا۔ تاہم، منافع خوری اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ بھی ایک مسئلہ بن کر سامنے آیا، جس پر انتظامیہ کی گرفت کم زور دکھائی دی۔ بعض شکایات میں یہ بھی سامنے آیا کہ غیر معیاری اشیا مہنگے داموں فروخت کی گئیں اور کئی ہوٹلوں نے کم سہولیات کے باوجود دو گنا نرخ وصول کیے۔
صفائی ستھرائی، پارکنگ کے مسائل اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے معاملات نے عید کے خوش گوار موقع پر عوامی تجربے کو متاثر کیا۔ کچرے کے ڈھیر، بہتے نالوں میں گندگی اور پبلک ٹوائلٹس کی قلت نے نہ صرف ماحول کو آلودہ کیا، بل کہ سوات جیسے خوب صورت مقام کی مجموعی شبیہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ مقامی افراد کی شکایات تھیں کہ سیاحوں کا غیر منظم رش ان کے روزمرہ معمولات کو متاثر کرتا ہے، جب کہ کئی مقامات پر شہری اور سیاح آپس میں اُلجھتے بھی نظر آئے۔
سوات میں سیاحت کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششیں خوش آیند ضرور ہیں، مگر صرف تشہیری مہم سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سڑکوں، ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ اور صفائی جیسے بنیادی شعبوں میں حقیقی معنوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ مستقل نوعیت کے اقدامات کیے جائیں، جن میں سمارٹ ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، سیاحتی تربیت یافتہ عملہ اور ایک موثر شکایتی نظام شامل ہو۔ صرف عید کے مواقع پر نہیں، بل کہ سال بھر کے لیے ایسا انفراسٹرکچر ہونا چاہیے، جو کسی بھی وقت آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد کو سنبھال سکے۔
آخر میں یہ کہنا بہ جا ہو گا کہ سوات میں عید کے موقع پر جو رش دیکھنے میں آیا، وہ اس بات کا مظہر ہے کہ عوام قدرتی حسن کی تلاش میں اب بھی سوات جیسے پُرامن اور خوب صورت علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں، مگر یہ حسن، امن اور نظام ایک ساتھ نہ چل سکے، تو سیاحت ایک نعمت کے بہ جائے ایک بوجھ بن جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی حکومت، عوام، کاروباری طبقہ اور سیاح سب مل کر اس خطے کو محفوظ، صاف اور خوش گوار تجربے کا مرکز بنائیں، تاکہ آنے والی نسلیں بھی اُسی سوات کا خواب دیکھ سکیں، جو کبھی پاکستان کا ’’سوئٹزرلینڈ‘‘ کہلاتا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے