ہسپتال جو پورے کا پورا چوری ہوا

Blogger Sajid Aman

’’سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہاسپٹلز‘‘ کا نام سب نے سنا ہے۔ سنٹرل ہسپتال اور سیدو ہسپتال کے نام بہت عام ہیں۔ پچھلی نسل کے لوگ ان کو ’’روشن ہلال ہسپتال‘‘ اور ’’ڈاکٹر نجیب ہسپتال‘‘ کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ دونوں ہسپتال والی صاحب مرحوم کے اَن مول تحفے ہیں، جن کو بعد میں ’’ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہاسپٹل‘‘ (سیدو اینڈ سنٹرل ونگ) کے نام پر یک جا کیا گیا…… مگر ان دو ہسپتالوں کے بیچ میں ایک مکمل ہسپتال بھی موجود ہے، جو سوات نہیں، خیبر پختونخوا بھی نہیں، بل کہ پورے پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ہسپتال ہے۔ ’’شیخ خلیفہ بن زید النہیان ہاسپٹل‘‘ یہ سوات اور ملاکنڈ کے عوام کے لیے متحدہ عرب امارات کے عوام نے تحفے کے طور پر تعمیر کیا تھا۔
یہ علاحدہ اور جداگانہ ہسپتال، متحدہ عرب امارات کے عوام اور فرماں روا کی طرف سے پورے پاکستان میں ایک مکمل ٹراما سنٹر کے طور پر سیدو شریف میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر ’’این ایل سی‘‘ نے کی تھی۔
اس ہسپتال کی تعمیر عالمی معیار اور ’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کی گائیڈ لائنز کے مطابق کی گئی تھی۔ یہ 110 بستروں کا ایک مکمل ہسپتال ہے، جس میں ابتدائی طبعی امداد، حادثات اور فوری توجہ کے لیے خصوصی ضروریات مہیا کی گئی تھیں۔ یہ ایک طرح سے پاکستان کا پہلا ٹراما سینٹر ہے، جس میں ائیر ایمبولینس سروس کی سہولیات دی گئی تھیں۔ ہسپتال کی چھت پر ہیلی پیڈ بھی موجود ہے، جس پر ہیلی کاپٹر کے اُترنے اور اس سے وارڈ تک مریضوں کے پہنچانے کا خصوصی نظام موجود تھا۔
اس کے علاوہ ہسپتال کے اندر جدید سہولیات سے آراستہ نیورو سرجری کا یونٹ موجود ہے، جس میں ہیڈ اور سپائنل انجری سے فوری نمٹنے کا پورا نظام موجود ہے۔ کسی بھی سیریس مریض کو زمینی یا فضائی راستے سے پہنچانے کے بعد فوری آکسیجن، سرجری، آلات اور وارڈ کی سہولیات موجود ہیں۔
وارڈ کے لیے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ماہر ڈاکٹروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ یہاں ابتدائی طبعی امداد سے لے کر مریض کے سٹیبل ہونے تک کی تمام سہولیات دست یاب تھیں۔ نیز نیورو سرجری کا پورا وارڈ موجود ہے، جس کے ہر بیڈ کے ساتھ مطلوبہ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔
اس طرح دل کے امراض یا کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ پوری سہولیات کے ساتھ مہیا کیا گیا ہے، جس میں آئی سی یو اور سی سی یو کی خصوصی اور جدید مشنری کے ساتھ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ ایک مکمل وارڈ دل کے امراض اور متعلقہ بیماریوں کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ اس یونٹ کے لیے بھی پبلک سروس کمیشن ہی کے ذریعے دل کے امراض کے ماہر ڈاکٹر لیے گئے تھے، جنھیں ہر یونٹ کی طرح کُل وقتی طور پر مختلف شفٹوں میں صرف یہی فرائض انجام دینا تھے۔
اس کے علاوہ گائنی (امراضِ نسواں) کے لیے بھی خصوصی یونٹ اور خصوصی وارڈ بنایا گیا ہے اور کُل وقتی سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی گئی تھی۔
بچوں (اطفال) کے لیے جدید خطوط پر استوار وارڈ اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سپیشلسٹ ڈاکٹر تعینات کیے گئے تھے۔
اسی طرح آرتھوپیڈک وارڈ اور آپریشن کے ساتھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ماہر ڈاکٹروں کو متعین کیا گیا تھا۔
5 مکمل شعبے اُو پی ڈی سے لے کر وارڈز تک، جدید الگ الگ آپریشن تھیٹرز کی سہولیات کے ساتھ قائم کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کُل وقتی میڈیکل، سرجیکل، نیرو، آرتھوپیڈک، یورولوجی، نفرالوجی، گائنی، چیسٹ ، کارڈیک، ای این ٹی، سکن اینڈ ڈرما، پیڈز وغیرہ کے کُل وقتی اُو پی ڈی کا اہتمام بھی شامل تھا۔
ہسپتال کے مینجمنٹ کے لیے 19 یا 20 گریڈ کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور معاونت کے لیے پانچ ڈپٹی سپرٹنڈنٹس لازم قرار دیے گئے۔ سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال جو بالکل جداگانہ، خود مختار ہسپتال ہوتا، کو سیاسی مداخلت نے محض ایک ایمرجنسی یونٹ بنا ڈالا۔
قارئین! کہنے کا مقصد ہے کہ ’’کرپشن‘‘ (بدعنوانی) ایک پورے خود مختار ہسپتال کو عملی طور پر غائب کرگئی۔ اس کی خود مختاری پر حملہ کرتے ہوئے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ متعین ہی نہیں ہونے دیا گیا۔
پھر اسی ہسپتال کے لیے پبلک سروس کمیشن سے آئے ہوئے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو سیدو گروپ میں گھسانے کی سازش کی گئی اور مکمل طور پر خود مختار ہسپتال کو عملی طور پر سیدوگروپ کا طفیلی حصہ بنایا گیا۔ جہاں مکمل ایمرجنسی علاج کی مفت اور بروقت فراہمی کا عزم تھا، وہاں سرنج اور تھرمامیٹر کے لیے عام عوام کو محتاج کیا گیا۔ یوں متحدہ عرب امارات کے عوام اور فرماں روا کی طرف سے پاکستان میں اپنی نوعیت کے پہلے ہسپتال کو خود ایک لاغر اور کم زور حصہ بنایا گیا۔
جب 2010ء کے سیلاب کے بعد اس کا افتتاح ہوا اور عالمی میڈیا پر زلزلہ زدہ، جنگ زدہ اور سیلاب زدہ سوات کے عوام کے لیے متحدہ عرب امارات کے عوام اور فرماں روا کی طرف سے اَن مول تحفے کا ذکر ہو رہا تھا، وہاں اس کی ناکامی، خود مختاری اور سہولیات پہنچانے کے خلاف سول بیورو کریسی اور سیاسی گماشتے سرگرم ہوئے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ سوات کے سیاسی اور سماجی حلقوں کے منھ سے اس ظلم کے خلاف مذمتی بیان تک سامنے نہ آسکا۔
گرچہ متحدہ عرب امارات کے عوام یا شاہی خاندان نے سوات کے عوام کو ریاستِ سوات کے انضمام کے بعد ایک مکمل اور خود مختار ہسپتال عطا کیا، مگر اہلِ سوات ستو پی کر تاحال سو رہے ہیں۔ ’’ایمرجنسی‘‘میں ادویہ کے نہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں، مگر یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ 110 بستروں والا عالمی تحفہ، جدید ہسپتال کیسے قدیم نظام میں ضم کیا گیا؟
صرف اس ہسپتال کے لیے متعین کیے گئے ڈاکٹروں کا کیا ہوا؟ نیز وہ سپیشلسٹ ڈاکٹر کہاں گئے، جو اس ہسپتال کے نام پر لیے گئے تھے؟ اُن سہولتوں کو کیسے لوٹا گیا، جو تحفے یا مدد میں عطا ہوئے تھے؟
اے اہلِ سوات! ایک پورا ہسپتال غائب ہے اور کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ کمال ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے