سیاحت نہیں، فطری حسن کا قتل

قدرتی مناظر صدیوں سے انسانی روح کے لیے سکون، چشموں کی خنکی، سبزہ زاروں کی تازگی اور بلند و بالا پہاڑوں کی خاموشی میں موجود معنویت کا ذریعہ رہے ہیں۔ انسانی جبلت میں فطرت سے محبت ایک فطری عنصر ہے۔
یہی کشش انسان کو پہاڑوں، وادیوں، آبشاروں اور جنگلات کی جانب کھینچ لاتی ہے۔
یہی کشش سیاحت کو جنم دیتی ہے، جو نہ صرف روحانی سکون، بل کہ معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی کا موثر ذریعہ بھی بن سکتی ہے…… لیکن جب یہ کشش لالچ، منافع خوری اور غیر منظم اقدامات کے تابع ہوجائے، تو یہ نعمت ایک طرح سے ’’زحمت‘‘ میں اور خوب صورتی آلودگی میں بدل جاتی ہے۔
پاکستان، جو قدرتی حسن کے اعتبار سے دنیا کے چند خوش نصیب ممالک میں شامل ہے، آج اپنی بے ہنگم، غیر دانش مندانہ اور غیر سائنسی سیاحتی پالیسیوں کی بہ دولت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ ملک اپنے سب سے قیمتی اثاثے یعنی قدرتی ورثے سے محروم ہو جائے گا۔
٭ پاکستان کی سیاحتی وراثت:۔ سوات، کالام، مہوڈنڈ، گبین جبہ، ہنزہ، خنجراب، دیوسائی، نیلم ویلی، شنگریلا، شگر اور اب نئے دریافت شدہ مقامات جیسے ٹیپ بانڈہ، مانکیال، جبہ اور چکیل میڈوز وہ وادیاں ہیں، جہاں فطرت اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ ان علاقوں کی خصوصیت ان کی فطری خاموشی، قدرتی صفائی، آبی ذخائر، جنگلات، نایاب حیوانات اور مقامی ثقافتوں کی ہم آہنگی ہے…… مگر حالیہ برسوں میں ان جگہوں پر اچانک سیاحتی دباو نے ان تمام عناصر کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
سوشل میڈیا کا اثر ہمیں کہاں تک لے آیا…… ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے جہاں ان مقامات کی خوب صورتی کو عوام تک پہنچایا، وہیں FOMO (Fear of Missing Out) جیسے نفسیاتی مظاہر نے ایک ایسا اضطراب پیدا کیا کہ ہر فرد ان مقامات کو محض تصویری پس منظر سمجھ کر ان پر ٹوٹ پڑا۔
چند برس قبل جو مقامات مقامی چرواہوں اور کوہ پیماؤں کے لیے مخصوص تھے، آج وہاں ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر جا رہے ہیں۔
٭ اس بے ہنگم سیاحت کے نقصانات کیا ہیں:
1) ماحولیاتی تباہی:۔ درختوں کی کٹائی، ندی نالوں کی آلودگی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلی حیات کی بے دخلی اور کچرے کے ڈھیر اب معمول بن چکے ہیں۔
2) معاشی استحصال:۔ مقامی آبادی کو ان کے وسائل سے محروم کرکے باہر کے سرمایہ داروں کو ہوٹل، دکانیں اور کاروباری مراکز کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
3) ثقافتی زوال:۔ مقامی زبانیں، لباس، رسومات اور طرزِ زندگی اب تفریح کا سامان بن چکے ہیں۔
4) انفراسٹرکچر پر بوجھ:۔ سڑکیں، پُل، پانی، بجلی اور بیت الخلا جیسے بنیادی ڈھانچے دباو برداشت نہیں کر پا رہے۔
5) بد امنی اور بد نظمی:۔ غیر تربیت یافتہ سیاحوں کے ہجوم نے ان مقامات کو شور و غل، غیر اخلاقی حرکات اور بدنظمی کا مرکز بنا دیا ہے۔
6) نئے مقامات کی تباہی:۔ ٹیپ بانڈہ، مانکیال اور جبہ جیسے علاقے جو چند سال قبل تک انتہائی محفوظ اور غیر معروف تھے، اَب بے ہنگم سیاحت کا شکار ہوچکے ہیں۔ وہاں سڑکوں کی تعمیر کے نام پر پہاڑوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ درختوں کو جڑ سے اکھاڑا جا رہا ہے اور سیاحتی ہجوم نے جنگلات میں شور شرابے، گندگی اور غیر اخلاقی حرکات کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔ انٹری فیس کے نام پر بھتا وصول کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔ اکثر مقامات پر پارکنگ اور انٹری فیس کے نام پر بھتا خوری کی جاتی ہے۔ کوئی رسید، کوئی قانونی اجازت، کوئی شفاف نظام موجود نہیں۔ چند لوگ یا مقامی بااثر افراد زمینوں پر قبضہ کرکے سیاحوں سے رقم وصول کرتے ہیں اور حکومت تماشائی بنی بیٹھی ہوتی ہے۔
7) حکومتی نااہلی:۔ حکومت کا سیاحت کے حوالے سے کردار محض تقریبات، فوٹو سیشن یا سوشل میڈیا بیانات تک محدود ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ
٭ کوئی ماحولیاتی جائزہ نہیں لیا جاتا۔
٭ کوئی زوننگ پلان موجود نہیں۔
٭ کوئی سیاحتی تربیت یا ضابطۂ اخلاق نافذ نہیں۔
٭ مقامی کمیونٹی کو مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتاہے۔
اگر ہم عالمی ماڈلز کا ذرا جائزہ لیں، تو دنیا میں سیاحت کو کیسے پروموٹ کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سیاحت کی منصوبہ بندی سائنسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر:
٭ سوئٹزرلینڈ:۔ ہر مقام پر محدود سیاحوں کو اجازت دی جاتی ہے۔
٭ جاپان:۔ ہر سیاح کو ماحول دوست طرزِ عمل کی تربیت دی جاتی ہے۔
٭ نیوزی لینڈ:۔ جنگلات اور پہاڑوں کو محفوظ رکھنے کے لیے قوانین سخت اور نافذ ہیں۔
٭ ناروے:۔ سیاحوں کو قدرتی مقامات پر مخصوص رستوں پر ہی چلنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اب آتے ہیں ان مسائل کے حل کی طرف کہ حل کیا ہوسکتا ہے؟
٭ ماحولیاتی تشخیص کو لازمی قرار دیا جائے:۔ ہر نئے سیاحتی مقام کی ماحولیاتی، سماجی اور ثقافتی تشخیص کی جائے۔
٭ یومیہ سیاحوں کی حد مقرر کی جائے:۔ رش کم کر کے فطری توازن بہ حال رکھا جائے۔
٭ مقامی لوگوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے:۔ ان کو منیجرز، گائیڈز اور نگران بنایا جائے۔
٭ شفاف مالیاتی نظام قائم ہو:۔ انٹری اور پارکنگ فیس حکومت کے اکاؤنٹ میں جائے اور شفافیت سے خرچ ہو۔
٭ سیاحوں کے لیے تربیتی مہمات:۔ اخلاقی، ماحولیاتی اور ثقافتی تربیت لازمی ہو۔
٭ غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ:۔ قبضہ گروپوں، غیر قانونی ہوٹلوں اور غیر مجاز فیس لینے والوں کے خلاف کارروائی ہو۔
٭ سوشل میڈیا پر ذمے دار سیاحت کی مہم:۔ سیاحت کو شعور کے ساتھ منسلک کیا جائے۔
سیاحت ایک صنعت ضرور ہے، مگر اس کی بنیاد فطرت، سکون اور ماحولیات پر ہے۔ اگر ہم نے ان بنیادوں کو کھو دیا، تو نہ صرف یہ صنعت تباہ ہوگی، بل کہ ہمارے قدرتی ورثے کا بھی جنازہ نکلے گا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فطرت کو منافع کی آنکھ سے دیکھنے کے بہ جائے امانت کی نظر سے دیکھیں۔ اگر ہم نے آج ان مقامات کو محفوظ نہ کیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف بد دعائیں ہی دیں گی۔
لہٰذا، ہمیں اجتماعی شعور، حکومتی سنجیدگی، مقامی شراکت داری اور عالمی اُصولوں کی روشنی میں سیاحت کی نئی سمت متعین کرنی ہو گی، تاکہ یہ عمل فطرت سے ہم آہنگ ہوکر ہماری نسلوں کی زندگی میں سکون، خوش حالی اور ثقافتی بقا کا ذریعہ بن سکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے