اگیگا اور حکومت، مفاہمت یا محاذ؟

Blogger Engineer Miraj Ahmad

سرکاری ملازمین کسی بھی ریاست کی انتظامی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کے کاندھوں پر عوامی خدمات کی انجام دہی، پالیسیوں کے نفاذ اور ریاستی نظم و نسق کی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ ایک مضبوط، پُرعزم اور معاشی لحاظ سے محفوظ سرکاری ملازمین کی فوج ہی دراصل مستحکم ریاستی ڈھانچے کی ضامن ہوتی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں معاشی مسائل، افراطِ زر اور سماجی ناہم واری جیسے چیلنج روز افزوں بڑھ رہے ہیں، وہاں سرکاری ملازمین کا معاشی تحفظ نہایت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ ایسے حالات میں ’’آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس‘‘ (اگیگا) کا وجود اور کردار وقت کی ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔
’’اگیگا‘‘ (AGEGA) ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جو مختلف سرکاری محکموں، اداروں اور درجات کے ملازمین کو ایک چھتری تلے اکٹھا کرتا ہے، تاکہ اُن کی مشترکہ آواز حکومت تک موثر انداز میں پہنچائی جاسکے۔ اس اتحاد نے اپنی ابتدائی سرگرمیوں ہی میں یہ ثابت کر دیا کہ جب ملازمین متحد ہوجائیں، تو وہ اپنی جائز بات منوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مختلف ادوار میں جب حکومتوں نے کفایت شعاری یا مالی بحران کا جواز بنا کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی یا منجمدی کی پالیسیاں اپنائیں، تو اگیگا نے اس کا بھرپور اور موثر ردِ عمل دیا۔
پاکستان میں بجٹ کا موسم محض ایک اقتصادی دستاویز کے اجرا کا وقت نہیں، بل کہ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ملک کے تمام طبقات (بالخصوص تنخواہ دار طبقہ) اپنی آنکھیں حکومت کی جانب مرکوز کرلیتے ہیں۔ ہر سرکاری ملازم یہ دیکھتا ہے کہ کیا اُس کی تنخواہ میں اضافے کی توقع پوری ہوگی، کیا مہنگائی کے اس طوفان میں اُس کے لیے کچھ ریلیف رکھا گیا ہے، کیا اُس کے الاؤنس اور سہولیات میں بہتری لائی جائے گی؟
بدقسمتی سے ان سوالات کا جواب اکثر مایوسی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مہنگائی کی شرح جہاں روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کر رہی ہے، وہیں تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے سے سرکاری ملازمین کی قوتِ خرید میں شدید کمی واقع ہو رہی ہے۔
ایسے میں اگیگا کا مطالبہ کہ تنخواہوں میں کم از کم 50 فی صد اضافہ کیا جائے، بالکل جائز اور معقول دکھائی دیتا ہے۔ یہ اضافہ صرف ان کے روزمرہ اخراجات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہی نہیں، بل کہ ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی، خود اعتمادی اور وفاداری کو بھی مضبوط کرتا ہے ۔
جب ایک ملازم کو یہ اعتماد حاصل ہو کہ ریاست اُس کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے، تو وہ بھی ریاست کے لیے زیادہ موثر انداز میں خدمات انجام دیتا ہے۔ اسی طرح ہاؤس رینٹ، میڈیکل اور کنونس الاؤنسز کی جو موجودہ سطح ہے، وہ زمینی حقائق سے یک سر مطابقت نہیں رکھتی۔ آج کے دور میں یہ الاؤنسز مہنگائی کے مقابلے میں بالکل ناکافی ہیں اور اگیگا کی یہ کوشش کہ انھیں مارکیٹ ریٹ کے مطابق ریگولر بنیادوں پر ایڈجسٹ کیا جائے، ایک حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔
پنشن اصلاحات بھی حالیہ برسوں میں ایک متنازع موضوع بن چکی ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ پرانے پنشن سسٹم کو تبدیل کرکے ایک کنٹریبوٹری سسٹم نافذ کیا جائے۔ اس فیصلے کو اگیگا اور دیگر ملازمین نے سختی سے مسترد کیا ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف ریٹائرڈ ملازمین کے لیے غیر یقینی صورتِ حال پیدا کرتا ہے، بل کہ یہ آنے والے ملازمین کی بنیادی فلاحی سیکورٹی کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں سوشل سیکورٹی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں، وہاں پنشن ہی واحد سہارا ہے، جو عمر رسیدہ ملازمین کو میسر آتا ہے۔ اس کو ختم کرنا گویا انھیں بڑھاپے میں معاشی بے یقینی کی بھٹی میں جھونکنے کے مترادف ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کا ہے، جو برسوں سے سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر انھیں مستقل نہیں کیا جاتا۔ ان ملازمین کی خدمات سے فائدہ تو اٹھایا جاتا ہے، مگر انھین کسی مستقل حیثیت یا مراعات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اگیگا کا مطالبہ ہے کہ ان ملازمین کو فوری طور پر مستقل کیا جائے، تاکہ وہ عزت اور وقار سے اپنی زندگی بسر کرسکیں۔
اگیگا کی تحریکوں کو اکثر سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، یا پھر انھیں غیر قانونی قرار دے کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر جمہوری ہے، بل کہ آئینِ پاکستان کے اس روح کے بھی خلاف ہے، جو ہر شہری کو احتجاج، اظہارِ رائے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی آزادی دیتا ہے۔ اگیگا کی تمام سرگرمیاں آئینی حدود کے اندر رہ کر ہوتی ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف ایک بہتر، منصفانہ اور پائیدار سرکاری نظام کا قیام ہے۔
موجودہ حالات میں جب ریاست کو درپیش معاشی بحران شدید ہے، اس وقت ایک مثبت، نتیجہ خیز اور بامقصد ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے، جس سے حکومت اور ملازمین کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ کی تیاری کے دوران ملازمین کے نمایندہ اداروں کو مشاورت میں شامل کرے اور ان کے مسائل کو بجٹ کا حصہ بنایا جائے۔ اس سے نہ صرف پالیسیاں حقیقت پر مبنی ہوں گی، بل کہ ملازمین بھی انھیں اپنا سمجھ کر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے ۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرکاری ملازم صرف ایک فرد نہیں، بل کہ وہ ایک خاندان کا کفیل، ایک معاشرتی اکائی کا ستون اور ریاست کا نمایندہ ہوتا ہے۔ اس کی فلاح دراصل پورے نظام کی فلاح ہے۔ بجٹ، محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں، بل کہ یہ ایک پالیسی ڈاکومنٹ ہوتا ہے، جو بتاتا ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات کس سمت میں لے جا رہی ہے۔ اگر ان ترجیحات میں انسان، محنت کش اور سرکاری ملازم شامل نہیں، تو ایسی ترقی محض دکھاوا ہوگی، جس کا فائدہ ریاست کو ہوگا نہ عوام کو۔
لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اگیگا کے درمیان مکالمہ ہو، مسائل کو جذبات سے نہیں، بل کہ حقائق اور افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ ایک پُرامن، مطمئن اور خوش حال سرکاری ملازم ہی ایک ترقی یافتہ ریاست کی علامت ہو سکتا ہے اور یہی وہ منزل ہے جس کی طرف ہم سب کو مل کر بڑھنا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے