اس تحریر میں شامل تصویر میں آپ کو رحیم آباد اور قمبر کے سنگم پر بنی ہوئی خوب صورت جھیل، بارہ دری اور ایک بڑی کشتی نظر آرہی ہوگی۔
مذکورہ جھیل کیسے وجود میں آئی؟ آج اس حوالے سے مَیں آپ کو مختصر لفظوں میں بیان کروں گا۔ اس تصویر کے لیے پروفیسر خواجہ عثمان علی کا شکریہ۔
دوستو! یہاں کبھی سید رحیم شاہ لالہ کا اینٹوں کا بھٹا (Kiln) ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نہر (جسے ہم پشتو میں ولہ کہتے ہیں) بہتی رہتی تھی، جس کا پانی نہ صرف اینٹیں تیار کرنے والے استعمال کرتے تھے، بل کہ قمبر کی زمینیں بھی اسی پانی سے سیراب ہوتی تھیں۔ آج کل جہاں یہ سٹی سنٹر اور شاپنگ مالز قائم ہیں، یہ بالکل خالی زمین تھی۔ مذکورہ نہر سڑک کے کنارے بہتی بلوگرام سکول کے عقب والی کھائی میں جا گرتی تھی۔
رحیم شاہ لالا کے بارے میں عرض کروں کہ وہ والئی سوات کے ماموں سید رسان لالا آف قمبر کے بڑے بیٹے تھے۔کئی بار مغربی پاکستان اسمبلی میں سوات کی نمایندگی کرچکے تھے۔ اُنھوں نے یہ بھٹا ترک کردیا اور سلک ملز انڈسٹری میں دل چسپی لینی شروع کی، تو نہر کا پانی آہستہ آہستہ اس متروکہ بھٹے کے نشیب میں جمع ہونا شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جھیل کی شکل اختیار کرگیا۔ رحیم شاہ لالا نے اسے اپنے چھوٹے بھائی سید محمد علی شاہ عرف باچا لالا کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ تب اُنھوں نے جھیل میں بارہ دریاں بنوائیں۔ ان کے ایک ماہر مستری ’’جمعہ گل‘‘ نے جھیل کے اندر بارہ دریاں اپنے ماہرانہ ہاتھوں سے تعمیر کیں۔ سڑک کے کنارے ایک کینٹین بھی بنایا۔ جھیل کی بڑی کشتی کا ڈیزائن ہمارے سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کے ایک ڈرافٹس مین فضل معبود نے تیار کیا، جو میرے بھائی ہیں۔ اس کا اگلا حصہ ایک لمبی گردن اور چونچ والے بطخ کا مجسمہ تھا۔
کئی سال تک لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے رہے۔ پھر میونسپل کمیٹی مینگورہ نے اپنی حدود یہاں تک بڑھائیں، تو اس کینٹین کی عمارت کو محصول چونگی میں تبدیل کردیا۔ اُس کے بعد ندی (وَلہ) آبادیوں کے بھیڑ میں کہیں گم ہوگئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
