مانسہرہ اجتماع کے بعد مولانا طارق جمیل اور ان کے چاہنے والوں کی جانب سے دینِ ِاسلام کی ترویج کے لیے سرگرم عالم گیر تبلیغی جماعت کے اُصول و ضوابط، منتظمین اور عمائدین کے خلاف سرِعام بیان بازی نے یہ واضح کردیا ہے کہ غیر سیاسی اور شخصیت پرستی سے پاک سمجھی جانے والی جماعت خدا نہ خواستہ دھڑے بندی اور شخصیت پسندی کا شکار ہونے جارہی ہے، جس کی بہ دولت تبلیغی جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ساری زندگی ’’اللہ سے ہوتا ہے، مخلوق سے کچھ نہیں ہوتا‘‘ اور صبر واستقامت کا درس دینے والے مولانا نے روایتی سیاست دانوں کی طرز پر تبلیغی جماعت کے عمائدین اور منتظمین پر توپوں کے منھ کھول دیے۔ ’’مَیں، مَیں‘‘، ’’میرے بغیر‘‘ ایسے تکبراور رعونت بھرے الفاظ کا استعمال، مولانا کی خودپرستی کو آشکار کررہی ہے۔
مولانا کے چاہنے والوں کے نزدیک مولانا کو ریاستی اداروں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرپٹ حکم رانوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دی جارہی ہے، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بات اگر کرپٹ حکم رانوں کے خلاف کلمۂ حق اُٹھانے کی کی جائے، تو مولانا طارق جمیل ہمیشہ ہر حکم ران اور طاقت ور شخصیت کے در پر نظر آئے۔ چاہے وہ پرویز مشرف ہوں، محمد نواز شریف، شہباز شریف ہوں، قمر جاوید باجوہ ہوں یا پھر عمران خان۔ ’’توڑ نہیں، جوڑ‘‘ کے علم بردار طارق جمیل ’’فتنۂ عمرانیہ‘‘ میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اپنے دیرینہ ساتھی نعیم بٹ، جو خود مولانا موصوف کی باتوں سے متاثر ہوکر توبہ تائب ہوکر تبلیغ کے کام میں لگے، اُن سے 25 سالہ رفاقت صرف اس بنا پر توڑ دی کہ اُنھوں نے حمزہ شہباز جیسے کرپٹ بندے سے ملاقات کرلی تھی۔
مولانا صاحب بغیر کسی سرکاری عہدہ براجمان ہوئے۔ عمران خان دور میں رینجراور ایلیٹ فورس کی سیکورٹی کس قانون و قاعدے کے تحت لے رہے تھے…… کیا یہ کرپشن نہ تھی؟
انسانی حقوق کی بات کی جائے، تو عمران خان دور میں بی بی سی کا صحافی بار بار سوال کرتا رہا کہ ’’مولانا صاحب، پاکستان میں جبری گم شدگیوں، انتخابات میں دھاندلی ایسی انسانی حقوق کی پامالیوں پر مذمت کریں گے؟‘‘ تو مولانا کا یہی جواب تھا کہ ’’دیکھیں جی، ہم تبلیغی جماعت والے سیاست سے دُور رہتے ہیں، ہم کسی کی مذمت نہیں کرتے، ہم ہمیشہ مثبت بات کرتے ہیں، منفی بات نہیں کرتے، اچھائی کو اتنا بیان کریں کہ بُرائی چھپ جائے اورموجودہ حالات، سب اللہ سے دُوری کا نتیجہ ہے۔‘‘
مولانا صاحب! مگر آج آپ عمران مخالف سیاسی قیادت حتیٰ کہ تبلیغی جماعت کے منتظمین کے خلاف کُھل کر سیاسی بیان بازی کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان کرپشن مقدمات کی بنا پر جیل یاترا پر ہیں، تو مولانا صاحب، آج آپ کو حکم ران بھی کرپٹ نظر آتے ہیں اور مینڈیٹ چوری بھی نظر آرہی ہے۔
مولانا صاحب، اس وقت آپ تمام تر سیاسی ومخالفانہ بیانات تبلیغی جماعت کے کن اُصول و ضوابط کے تحت دے رہے ہیں؟
مولانا صاحب، آپ کو عمران خان کا ’’ریاستِ مدینہ ثانی‘‘ کا نعرہ دل کو ایسا بھایا…… لیکن کبھی آپ نے سوچا ایک ’’پلے بوائے‘‘ جس کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی داستانیں کیلیفورنیا سے لے کر لندن اور دہلی تا سڈنی تک ثابت شدہ ہیں۔ جس پلے بوائے کی جائز و ناجائز اولادیں یہودیوں کے گھر میں پل رہی ہوں، کیا ایسا شخص ’’ریاستِ مدینہ ثانی‘‘ بناسکتا ہے؟
ایک ایسا شخص جو عقیدت کے نام پر قبر پر سجدہ ریز ہوجائے، ایک ایسا توہم پرست شخص جو ایک عورت کا مریدبن جائے، پھر اپنی پیر صاحبہ کا تقریباً تین دہائیوں پر محیط ازدواجی رشتہ تڑوا کر اُس کے ساتھ دورانِ عدت شادی کرلے، کیا ایسا شخص نیک سیرت ہوسکتا ہے؟ وہ پاکستان کو ’’ریاستِ مدینہ ثانی‘‘ بناسکتا ہے؟
یاد رہے، ریاستِ مدینہ وہ تھی جو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی، جس میں ہرقسم کے شرک، توہم پرستی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی کسی صورت گنجایش موجود نہ تھی۔
مولانا صاحب، آپ کو پردے اور نقاب کے پیچھے چھپی بشریٰ بی بی المعروف ’’پنکی پیرنی‘‘ پاکستان کی سب سے نیک سیرت خاتون نظرآتی تھیں، مگر کبھی آپ نے سوچا کہ ایک ایسی توہم پرست، قبر پرست عورت جو اپناتین دہائیوں کا ازدواجی تعلق، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں والا گھرانا صرف اپنے مرید یعنی عمران خان کی محبت پر قربان کردے، وہ خاتون کس صورت نیک سیرت ہوسکتی ہے؟
تبلیغی جماعت کے بنیادی اُصولوں ’’اطاعتِ امیر اور مشورہ پر عمل‘‘ انتہائی اہم ہیں، اور مشورہ پر تبصرہ کام میں بے برکتی کا باعث ہوتا ہے۔ تبلیغی دوست ان اصولوں کو سنتِ نبویؐ کہتے ہیں۔ مولانا موصوف اپنی تبلیغی زندگی میں ہزاروں بار یہ اُصول بیان کرتے رہے ہوں گے، لیکن مانسہرہ اور اُس سے قبل راولپنڈی میں ان اُصولوں کی دھجیاں اُڑاتے دِکھائی دیے۔ درحقیقت مولانا تبلیغی جماعت کی منج کو عرصۂ دراز سے چھوڑ چکے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور لائبہ حُورکے متعلق کئی من گھڑت قصے کہانیوں کی بنا پر متعدد مواقع پر مولانا کو ہزیمت اور معافی مانگنے جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ارشاد بھٹی کے ساتھ انٹرویو میں لائبہ حور کے متعلق سوال پر بخاری شریف کی بے حُرمتی نے آپ کی رعونت، تکبر اور خودپسندی کو بے نقاب کردیا تھا۔
آج مولانا موصوف کا دفاع کرتے ہوئے آپ کو کوئی عالمِ دین نظر نہیں آئے گا۔ ہاں، صرف ایک طبقہ ان کا بھرپور دفاع کر رہا ہے، جس کو صحافی رضی دادا مودیے کہتے ہیں۔
مولانا صاحب، آپ کھل کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلیں یا پھر تبلیغی جماعت کے لبادے میں چھپنا چھوڑ دیں۔ اب بھی وقت ہے، عمر کے آخری حصے میں مزید ذلت سمیٹنے سے بہتر ہے کہ آپ رنگ بازی، منافقت اور ڈرامے بازی کی بہ جائے اللہ کے سامنے توبہ کریں۔ تکبر، رعونت پر صدقِ دل سے عوام الناس کے سامنے معافی مانگیں، تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی سرخ رُو ہوسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
