تحصیلِ چارباغ کی مردم خیز مٹی کا ذکر کریں، تو تعلیم، کاروبار، قابلیت، صنعت و حرفت، صحافت اور تدریس میں ایک سے ایک نادر شخصیت نے اس سے جنم لیا۔ یقینا اس تحصیل نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے۔
تحصیلِ چارباغ و ملحقہ علاقہ جات کے پہلے ماسٹر ڈگری ہولڈر خورشید جہان ابھی کم عمر ہی تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہوا۔ ایک روپیا چھے پیسے جائیداد اگر کسی کی ہو، تو وہ نوابی کرے گا، عیش و عشرت سے کام لے گا، مگر خورشید جہان ودودیہ سکول پہنچے اور داخلہ لیا۔ ابھی آٹھویں جماعت ہی میں تھے کہ والی صاحب نے سکول کا دورہ کیا۔ والی صاحب کلاسوں کا دورہ کرتے اور طلبہ سے بات چیت بھی کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت کے طلبہ سے بات کرتے ہوئے طلبہ سے پوچھا، ’’کیا بنو گے؟‘‘ کسی نے جواباً کہا: ڈاکٹر، تو کسی نے کہا، انجینئر اور کسی نے کچھ اور کہا۔ ایسے میں ایک بچے (خورشید جہان) سے جب پوچھا گیا، تم کیا بنوگے؟ تو اُس نے جواب دیا: ’’اُستاد۔‘‘
یہ جواب والی صاحب کے لیے شاید خلافِ توقع اور حیرت انگیز تھا۔ اُنھوں نے فوراً درسی کتابیں اُٹھائیں اور صفحات بدل بدل کر سوال پر سوال پوچھتے گئے۔ دوسری طرف خورشید جہان ہر سوال کا درست جواب دیتے گئے۔ والی صاحب نے مڑ کر اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب کو کہا، ’’اس بچے کی اَب ریاست کو ضرورت ہے۔‘‘
یوں خورشید جہان بہ طورِ اُستاد تعینات کر دیے گئے۔
خورشید جہان نے تعلیم کا سلسلہ نہیں روکا۔ والی صاحب کے دل میں اُن کے لیے مستقل جگہ بن گئی۔ شانگلہ میں جب نظامِ تعلیم کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، تو خورشید جہان کو اہم ذمے داری سونپی گئی۔ اُنھوں نے چکیسر جاکر وہاں پہلے سکول کی بنیاد رکھی، جو اَب ’’ڈگری کالج چکیسر‘‘ بن گیا ہے۔
شانگلہ میں رہتے ہوئے خورشید جہان کی شادی ہوئی۔ بارات سوات آئی اور دُلھن کو شانگلہ لے جایا گیا۔ یہ والی صاحب کے حکم کی پاس داری اور فرائض سے محبت کا بین ثبوت تھا۔ شادی کے بعد بھی اُنھوں نے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ نہیں روکا۔ اُس وقت فارسی، انگریزی زبان کی طرح اعلا سرکاری، ادبی اور بین الاقوامی حیثیت رکھتی تھی۔ اُنھوں نے اپنا پہلا ماسٹر فارسی اَدب اور دوسرا ’’لائبریری سائنس‘‘ میں کیا۔ تب شانگلہ میں ہر ضروری جگہ پر سکول کھل چکے تھے، یعنی نہ صرف والی صاحب کا خواب پورا ہوا، بل کہ خورشید جہان کی محنت بھی متوازی سمت میں رنگ لے آئی۔
خورشید جہان نے سروس کے آخری حصے میں جہانزیب کالج میں لائبریرین کے طور پر خدمات انجام دیں اور وہی سے سبک دوش ہوئے۔ بچے بڑے ہورہے تھے اور تعلیم حاصل کر رہے تھے، مگر تعلیم میں انفرادیت اُن کا خاصا تھا۔ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں فارمیسی کا خیبرپختونخوا کا پہلا ڈیپارٹمنٹ بنا، تو فدا خان (خورشید جہان کے بڑے بیٹے) اُس کے اولین سٹوڈنٹ بنے۔ بیچلر آف فارمیسی کی ڈگری مکمل کی۔ یہ صوبے کا پہلا بیچ تھا۔ فدا خان نے 1989ء میں ڈرگ کنٹرول افسر کے طور پر کرسی سنبھالی۔
دریں اثنا ملاکنڈ ڈویژن نوابی ریاستوں کے اختتام کے ساتھ قوانین کا تجریہ گاہ بن گیا۔ ایف سی آر آیا، ’’مارشل لا ایکٹ‘‘ کے تحت 1971ء میں مقامی قبائلی نظام یا نوابی ریاستوں کے فیصلوں اور رواج کو تحفظ دیا گیا۔ پھر خاموشی چھاگئی۔ بھٹو صاحب نے آکر ’’ایف سی آر‘‘ کا خاتمہ کرکے ’’پاٹا‘‘ بنا دیا۔ پاٹا ریگولیشن طویل عرصہ نافذ رہا۔ پھر ’’سول لا‘‘ آیا اور آہستہ آہستہ دوسرے قوانین بھی مسلط کیے جاتے رہے، جس ڈرگ ایکٹ 1976ء کی پاٹا میں نافذ عمل ہونا بھی ہے۔
لیکن ’’ڈرگ ایکٹ‘‘ سے پہلے یہ اختیارات والی صاحب کے پاس تھے۔ کچھ عرصہ ڈاکٹر نجیب صاحب (مرحوم) کے ساتھ بہ حیثیت میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے۔ انضمام کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب کو منتقل ہوئے۔ اُس کے بعد ڈی ایچ اُو صاحب ضلعی اختیارات کے مالک بنے اور آخر میں ڈرگ کنٹرول افسر سیاہ و سفید کے مالک ہوئے۔
فدا صاحب کو کئی چیلنجوں کا سامنا تھا۔ 100 فی صد لوگوں کے پاس جو ’’لائسنس یافتہ‘‘ تھے، اس شاہی فرمان کی دین تھی کہ’’ فُلاں ابنِ فُلاں نے میٹرک کیا ہے اور اُس کو فُلاں جگہ پر میڈیکل سٹور کھولنے کی اجازت ہے۔‘‘ اِس کو آج کے دور میں ’’رواجی لائسنس‘‘ کہتے ہیں۔ باقی جس کا دل کیا، میڈیکل سٹور کھول لیا، لائسنس کا رکھا اور نہ سوچا۔ان حالات میں فدا صاحب کو کام کرنا تھا۔
دوا فروشی جیسا نازک کام، ادویہ کے بارے میں معلومات ’’صفر‘‘ کے برابر رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں تھا اور اوپر سے فخر کہ شاہی فرمان سے اجازت لی ہے۔ جن کے پاس لائسنس نہیں تھا، اُن کا سمجھنا تھا کہ وقت بڑا اُستاد ہوتا ہے اور کاروبار کرتے کرتے سیکھ گئے ہیں۔
فدا صاحب کو صرف نوکری نہیں کرنا تھی، وہ سب سے بڑا آسان کام تھا، اُن کو تو اپنے والد صاحب کی طرح مضبوط بنیادوں سے ایک عمارت تعمیر کرنا تھی۔ سو خود چل کر ایک ایک میڈیکل سٹور والے کو راضی کیا۔ میڈیکل سٹور والے بیٹھے رہتے اور فدا صاحب فارمیسی پڑھاتے جاتے۔ کبھی منت، کبھی غصہ اور کبھی سفارش کرکے میڈیکل سٹور والوں کو راضی کرتے گئے۔ جہانزیب کالج سے کلاس مانگی۔ دُھن کے پکے تھے، میڈیکل سٹور والوں کو اس قابل بنایا کہ ’’کیٹیگری سی‘‘ کا امتحان دے سکیں۔ یہ امتحان فارمیسی کونسل نے منعقد کیا۔ بہت سے لوگوں نے پاس کیا اور پھر اُنھوں نے اس سلسلے کو دوام بخشا۔ بونیر، موجودہ شانگلہ، سوات، دیر ہر جگہ یہ محنت کی اور آج ملاکنڈ ڈویژن میں جتنے ’’کیٹیگری سی لائسنس‘‘ ہیں، یہ سب فدا صاحب کی ذاتی دل چسپی، قانون سے پیار اور اپنے لوگوں سے محبت کا نتیجہ ہیں۔
وقت کے ساتھ فدا صاحب نے محسوس کیا کہ کیٹیگری سی ہوگیا، مگر اب کیٹیگری بی کا بیڑا اُٹھانا ہے۔ اُنھوں نے وہی طریقہ اپنایا، وہی محنت کی۔ جن کے پاس لائسنس تھا، یا جن کے پاس رواجی لائسنس تھا، وہ تقریباً کیٹیگری سی میں تبدیل ہوچکے تھے۔ اب کیٹیگری بی کے لیے پڑھانے اور تیار کرنے کی باری تھی۔ وہ شروع کی اور بہت سے لوگ سند کے طور پر لائسنس لیے نکل آئے۔ اس دوران میں حکومت نے بہ راہِ راست امتحانات پر پابندی عائد کی۔ 2017ء میں کیٹیگری سی کے عوض لائسنس دینا بند کیا گیا، مگر فدا صاحب تو اس سے ایک سال قبل یعنی 2016ء میں ریٹائر ہوگئے تھے۔
سبک دوشی سے پہلے فدا صاحب کے اعزاز میں ایک تقریب تھی، درجنوں میڈیکل سٹور والے بیٹھے تھے۔ اسی تقریب میں کھڑے ہوئے اور بلند آواز میں کہنا شروع کیا: ’’اے لوگو! جو یہاں موجود ہیں اور اے لوگو، جو یہاں نہیں پہنچ سکے، اور جن تک میری آواز پہنچتی ہو، مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ کبھی کسی سے رشوت نہیں لی، حرام نہیں لیا، کبھی کوئی تقاضا نہیں کیا۔ پھر بھی اگر کوئی شخص گمان رکھتا ہے کہ مَیں نے کچھ لیا ہے، یا میرے نام پر کسی نے کچھ لیا ہے، وہ اسی محفل میں ابھی سامنے یا علاحدگی میں مجھ سے کہے۔ بہ خدا! مَیں بحث نہیں کروں گا اور وہ تلاقی کے لیے جو مطالبہ کرے گا، بلاجھجھک پورا کروں گا۔ گواہ رہیں، حکومت یا کسی شخص کی ایک بھی ناجائز پائی مجھ پر یا میرے خاندان پر حرام ہے۔ مجھے یوں معاف نہ کریں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مَیں نے حد پار کی ہے۔ مَیں اُس شخص کو بالکل نہیں بخشوں گا، جس کے دل میں کوئی بات ہو اور وہ میرے سامنے نہ کہے!‘‘
یہ فدا صاحب نہیں بول رہے تھے، بل کہ وہ تربیت بول رہی تھی، جو اُن کے لائق والدین نے دی تھی۔
سرکاری ذمے داری میں حتی الوسع کوتاہی نہیں کی۔ جب فدا صاحب نے چارج سنبھالا، تو قانون نام کی کوئی چیز تھی، نہ اُصول ہی تھے۔
دیر میں فدا صاحب کو سب سے زیادہ چیلنجوں کا سامنا تھا، جب حکومت کی کوئی دل چسپی تھی اور نہ میڈیکل سٹور والوں کو کوئی پروا ہی تھی۔ تیمرگرہ گئے، تو پتا چلا کہ کسی کے پاس لائسنس نہیں۔ لوگوں کو جمع کیا اور لائسنس کی اہمیت بتائی۔ نیز حکومت کو قائل کیا کہ تربیت حکومت کا کام ہے اور یوں ایک کورس بناکر کیمسٹوں کو پڑھاتے رہے۔جب امتحان ہوا تو حیرت تھی کہ کیمسٹوں کی قابلیت میں کتنا اضافہ ہوا تھا۔ یہی کام سوات، بونیر، شانگلہ میں کر چکے تھے اور جاری رکھا ہوا تھا۔ اُصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر سارے معاشرے کا معیار بلند کیا۔ ایسے عظیم لوگوں ہی کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔ عزت وہ ہوتی ہے، جو اختیارات جانے کے بعد ہو۔ فدا صاحب جہاں سے گزرتے ہیں دعا اور سلام کی آوازیں ہی آتی ہیں۔
نیاز احمد اور بیرسٹر عدنان، فدا صاحب کے بھائی ہیں۔ چار بیٹے ڈاکٹر شاہ فہد (نفرالوجسٹ)، ڈاکٹر شاہ عباس (سرجن)، ڈاکٹر شاہ بابر (کارڈیالوجسٹ)، سعد (بزنس مین) اور ایک بیٹی لیڈی ڈاکٹر ہے۔ ہر بچہ اپنی فیلڈ میں یکتا ہے۔ ہر ایک کی شہرت خاندانی تربیت کی حدود سے نہیں نکلی۔
یہ تحریر ایک طرح سے خراجِ تحسین ہے اُس خاندان کو جس نے محنت، خدمت اور دیانت داری سے نام کمایا۔ اس میں ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی لمبی فہرست ملے گی۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ فدا صاحب کو اچھی صحت اور لمبی زندگی عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
