سوات کا سیاحتی بحران

Blogger Fazal Khaliq

سوات، جسے ایک وقت میں ’’پاکستان کا سوئٹزرلینڈ‘‘ کہا جاتا تھا، حالیہ برسوں میں سیاحت کے لحاظ سے ایک بڑی تبدیلی سے گزر چکا ہے۔ تاہم، یہ بڑھتی ہوئی سیاحتی تعداد ماحولیاتی نقصان کا بھی باعث بن چکی ہے، جس پر مقامی باشندوں اور ماحولیاتی کارکنوں کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاحوں کے غیر ذمے دارانہ رویے اور ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہی کے سبب علاقے کی قدرتی خوب صورتی دن بہ دن تباہ ہوتی جارہی ہے۔
امسال ملک بھر سے ریکارڈ تعداد میں سیاح سوات کے مختلف قدرتی مقامات کا رُخ کر چکے ہیں، جن میں ملم جبہ، کالام، مانکیال، اُتروڑ، مٹلتان، گبین جبہ، مدین، بحرین، ٹیپ بانڈہ، کنڈول جھیل اور دیگر سیاحتی مقامات شامل ہیں۔
اگرچہ سیاحت کو علاقے کے مالی فائدے کا باعث قراردیا جاتا ہے، لیکن بہت سے افراد نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس نے افراتفری، کچرے کے ڈھیر اور مجموعی طور پر ماحولیاتی بگاڑ کو بڑھا دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مشہور سیاحتی مقامات جیسے کہ مہوڈنڈ جھیل، اُوشو فارسٹ، کنڈول جھیل اور حال ہی میں مقبول ہونے والے مانکیال میں ٹیپ بانڈہ کے مقامات جہاں سیاحوں کا رش بڑھا ہے…… وہاں کچرا، پلاسٹک کی بوتلیں رات کو ہوائی فائرنگ اور دیگر گندگی بھی بڑھ گئی ہے۔
ایسی حالت پرماحولیاتی کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور سیاحوں سے درخواست کی ہے کہ وہ علاقے کا دورہ کرتے وقت ذمے دارانہ رویہ اختیار کریں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا، جب یہ خوب صورت علاقے بالکل صاف ستھرے تھے، لیکن اب وہاں پلاسٹک، ریپرز اور دیگر کچرے کے ڈھیر نظر آ رہے ہیں۔ ’’صورتِ حال بہت سنگین ہو چکی ۔‘‘ نذیر خان، ایک مقامی فعال نے کہا، ’’اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو یہ خوب صورت مقامات جلد ہی کچرے کا ڈھیر بن جائیں گے۔‘‘
مقامی باشندوں اور ماحولیاتی کارکنوں نے ضلعی انتظامیہ پر بھی تنقید کی ہے کہ وہ سیر و تفریح کے مقامات میں صفائی ستھرائی اور دیگرانتظامات مہیا کرنے اور سیاحتی مقامات پر ماحولیاتی اُصولوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انتظامیہ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھالنے میں بھی ناکام رہی ہے اور سوات کی قدرتی جگہوں کی حفاظت میں کوئی سنجیدہ دل چسپی نہیں دکھا رہی، بل کہ اپنے دفاتر کے ائیرکنڈیشنڈ اور پُرتعیش کمروں میں مشروبات اور بے نتیجہ میٹنگز میں مصروف نظر آتی ہے۔
کچرے کے انتظام کی کمی اور ماحول دوست سیاحت کے اقدامات کی غیر موجودگی نے اس صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس حوالے سے حضرت علی، ایک مقامی ماحولیاتی کارکن کہتا ہے: ’’ضلعی انتظامیہ کی غفلت واضح ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو ہم اپنی قدرتی وراثت بہت جلد کھو دیں گے۔‘‘
یہ ماحولیاتی زوال صرف سوات تک محدود نہیں۔ دنیا بھر کے دیگر بڑے سیاحتی مقامات پر بھی اسی طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں۔ نیپال میں ایورسٹ بیس کیمپ، ایکواڈور کے گالاپاگوس جزائر اور چین کی گریٹ وال جیسے مقامات پر بھی یہی مسائل سامنے آئے ہیں۔ ان علاقوں کے حکام نے سیاحوں کی تعداد کو محدود کرنے، یک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی ممانعت اور دیگر اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں، لیکن سوات کے سیاحتی مقامات پر اس طرح کے اقدامات کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔
ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ان خوب صورت مقامات تک جیپ ٹریکس کی اجازت دی ہے، جس پر ماحولیاتی فعالوں نے خفگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح قدرتی طور پر محفوظ مقامات تباہی کی طرف جائیں گے۔
ماحولیاتی فعالوں نے جیپ ایبل ٹریکس بنانے پر پابندی لگانے کی تجویز دی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیدل ٹریکس بنانے کو ترجیح دے۔
ایک فعال اقبال احمد نے کہتا ہے کہ ’’اگر حکومت واقعی ان مقامات کی حفاظت کرنے کی خواہش رکھتی ہے، تو اسے ماحول دوست سیاحت کو فروغ دینا چاہیے۔ قدرتی ماحول کو متاثر کیے بغیر پیدل راستے زیادہ چیلنجنگ ہوسکتے ہیں، لیکن یہ سیاحوں کو قدرتی ماحول کا بھرپور تجربہ کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی قدرتی خوب صورتی کو سہولت کے لیے قربان نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
یہ خدشات ماحولیاتی سیاحت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں دنیا بھر کے ممالک پائیدار طریقوں کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھوٹان اور نیوزی لینڈ جیسے مقامات نے کام یابی کے ساتھ سیاحت کو محدود کرنے، کچرے کے انتظام کے پروٹوکولز نافذ کرنے اور مقامی ماحولیاتی نظاموں کے تحفظ کو ترجیح دینے کی پالیسیوں پر عمل کیا ہے۔
سوات، پچھلے کئی سالوں سے ماحولیاتی آلودگی کی زد میں ہے، جہاں تیزی سے گلیشیر کے پھٹنے اور سیلابوں نے خوب صورت مقامات کا نقشہ یک سر تبدیل کردیا ہے۔ ساتھ ہی بے ہنگم اور بے فائدہ سیاحت نے رہی سہی کسرپوری کردی ہے اور ان خوب صورت، جنت نما مقامات کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ اگر ضلعی انتظامیہ فوری طور پر موثر ماحولیاتی ضوابط نافذ نہیں کرتی اور سیاحوں کو ذمے دارانہ طرزِ عمل کے بارے میں آگاہی فراہم نہیں کرتی، تو اس علاقے کے سب سے قیمتی قدرتی خزانے جلد ہی غفلت اور زیادہ استعمال کے باعث ضائع ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی حکام اور وفاقی حکومت اس صورتِ حال کی سنگینی کو تسلیم کریں اور اس سے پہلے کہ سوات کا ماحول ناقابلِ تلافی نقصان اٹھالے، اقدامات کریں۔ سیاحت اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنا نہ صرف ضروری ہے، بل کہ سوات کی قدرتی وراثت کے مستقبل کے لیے لازمی ہے۔
ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں پائیدار سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اگر سوات کی ضلعی انتظامیہ اور حکومت دیگر ممالک میں موثر ثابت ہونے والے اقدامات کو اپناتی ہے، تو وقت آ گیا ہے کہ سوات بھی ایسی پالیسیاں اپنائے، تاکہ سیاحوں کی آمد کے ساتھ ساتھ علاقے کی قدرتی خوب صورتی کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے