قربانی کا اصل مقصد اور معاشرتی ذمے داری

Blogger Shafiq ul Islam

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے کی فرماں برداری اور قربانی کا جذبہ اللہ کو بہت پسند آیا اور اسی عمل کو مسلمانوں کے لیے سنتِ ابراہیمی بنا دیا۔
عید الاضحی نہ صرف ایک عظیم مذہبی عبادت ہے، بل کہ عالمی سطح پر ایک مضبوط معاشی و سماجی نظام کو متحرک کرنے والا عمل بھی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 50 کروڑ سے زائد جانور قربان کیے جاتے ہیں، جس سے لائیوسٹاک، زراعت، چمڑا سازی، ٹرانسپورٹ، پیکنگ اورکئی دیگر شعبوں میں اربوں ڈالر (کھربوں روپے) کی سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان سمیت باقی اسلامی ممالک میں لاکھوں کسان، مویشی پالنے والے، چارہ فروش، قصائی، گاڑیوں کے مالکان اور کاروباری افراد اس سیزن سے روزگار اور آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں 2024ء میں صرف عید الاضحی کے موقع پر قربانی سے جڑے مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 839 ارب روپے کی معاشی سرگرمی ریکارڈ کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی یہ قربانی کا گوشت لاکھوں غریبوں کے لیے سال کا واحد گوشت حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، جو مختلف فلاحی اداروں اور افراد کے ذریعے ضرورت مندوں تک پہنچتا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس سنت کی روح اور اس کے معاشی و فلاحی ثمرات آج بھی زندہ اور موثر ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ جہاں قربانی کی سنت ایک عظیم عبادت، ایثار اور معاشرتی بھلائی کا ذریعہ بنی، وہیں اس میں مختلف غیر ضروری روایات، دکھاوے اور عملی مسائل نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ قربانی کا جو جذبہ خالصتاً تقوا، اخلاص اور غریب پروری کے لیے تھا، وہ اب بعض حلقوں میں مہنگے جانوروں کی نمایش، سوشل میڈیا پر تصویری تشہیر اور برتری جتانے تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ جانوروں کی منڈیوں میں بدانتظامی، قیمتوں میں مصنوعی اضافہ اور شہری علاقوں میں صفائی کی ابتر صورتِ حال بھی اس عمل کی روح کو مجروح کرتی ہے۔
ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگ قربانی کے گوشت کو زیادہ سے زیادہ اپنے فریجوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مستحق اور نادار افراد کو بہت کم گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ بعض افراد تو یہ کہنے لگے ہیں کہ پورے جانور کا گوشت خود رکھ لینا شرعاً جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں،لیکن اگر ذخیرہ کرنے کے یہ ذرائع نہ ہوتے، تو شاید یہی لوگ مجبوری میں زیادہ گوشت بانٹتے۔ یوں قربانی کا اصل مقصد، یعنی محتاجوں کی خوشی اور ضرورت پوری کرنے کا عمل پسِ پشت چلا جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قربانی کو صرف ایک رسمی عمل یا نمایش کا ذریعہ نہ بنائیں، بل کہ اس کی اصل روح خلوص، تقوا اور انسانیت نوازی کو بیدار کریں اور اسے اپنی نیت، عمل اور رویوں میں ظاہر کریں اور قربانی کو حرص اور لالچ کے باعث خراب نہ کریں۔
مسائل جنم لیتے ہیں، تو گناہ بھی دو طرفہ ہوتا ہے۔ ماضی میں جہاں مانگنے والوں کی تعداد کم تھی، آج اُن کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون واقعی مستحق ہے اور کون پیشہ وارانہ طور پر مانگنے والا ہے۔ اسی وجہ سے جب قربانی کا گوشت تقسیم ہوتا ہے اور مستحقین آنا شروع ہوتے ہیں، تو بعض لوگ کم مقدار میں گوشت دیتے ہیں، یا بعض اوقات مانگنے والوں کو روکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کی جانب سے مضبوط انتظام اور بھکاریوں کی نگرانی انتہائی ضروری ہے، تاکہ اصل مستحقین کو ان کا حق بلا رکاوٹ مل سکے اور قربانی کا مقدس جذبہ صحیح معنوں میں پورا ہوسکے۔
مَیں نے ترکی کے ایک قصبے کے بارے میں سنا ہے، واقعہ سچا ہوگا یا نہیں لیکن اس میں ایک گہرا سبق پوشیدہ ہے۔ اس قصبے میں لوگ فریج اس لیے نہیں رکھتے کہ اُن کا ماننا ہے کہ فریج میں خوراک ذخیرہ کرنے کی بہ جائے اسے فوراً حق داروں اور مستحقین میں تقسیم کرنا چاہیے، تاکہ ان کے رزق میں برکت قائم رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ افراد نے فریج خرید کر باقی بچ جانے والی خوراک کو سٹور کرنا شروع کیا تھا، لیکن کچھ وقت کے بعد محسوس کیا گیا کہ اُن کے رزق میں برکت کم ہوگئی ہے۔ پھر اُنھوں نے وہ فریج واپس کر دیے اور خوراک کو ذخیرہ کرنے کے بہ جائے دوبارہ غریبوں اور مسکینوں میں بانٹنا شروع کر دیا۔
ہمارے علاقے کے مضافات میں عید کے پہلے دن شام سے لے کر اگلی صبح تک بجلی بند رہی، جس کی وجہ سے لوگ فکرمند ہوگئے کہ اُن کا ذخیرہ کردہ گوشت خراب ہو جائے گا۔ واقعی کچھ گوشت خراب بھی ہوگیا ہوگا۔ لوگ بازاروں میں احتجاج کے لیے نکل آئے۔ اس منظر نے مجھے اس کالم کو لکھنے پر مجبور کر دیا۔ کیوں کہ گرمی کی شدت کے باوجود لوگوں کی سب سے بڑی فکر اپنی ذخیرہ شدہ گوشت کا ضیاع تھی، نہ کہ گرمی کا سامنا۔ یہ بات قربانی کی اصل روح اور اس کے مقاصد پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔
آخری بات یہ ہے کہ قربانی کا اصل مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بل کہ اپنی نیتوں کو صاف کرنا، حرام کمائی اور دوسروں کے حقوق مار کر جانور نہ خریدنا، حرص و لالچ سے بچنا اور اپنے اردگرد موجود مستحقین کی مدد کرنا ہے۔ جیسے ترکی کے اُس قصبے نے ہمیں سکھایا کہ رزق میں برکت بانٹنے میں ہے۔
ویسے ہی ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے گوشت کو ذخیرہ کرنے کی بہ جائے کھلے دل سے ضرورت مندوں تک پہنچائیں۔ تبھی ہماری قربانی قبول ہوگی اور ہمارے معاشرے میں محبت، بھائی چارے اور تعاون کا جذبہ پروان چڑھے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے