تیری کرپشن ’کرپشن‘، میری کرپشن……!

Blogger Shafiq ul Islam

ہمارے ہاں سیاسی وفاداری عقل کے نہیں، اندھے یقین کے در پر سر رکھے سجدہ ریز ہے۔ یہاں ’’اپنا لیڈر‘‘ دودھ کا دھلا اور دوسرا لیڈر کوئلے کی کان سے بھی سیاہ ہوتا ہے۔ انصاف کی ترازو میں اگر کوئی وزن ہے، تو صرف پارٹی لیڈر کا ہے۔
ہمارے ملک میں سیاست نظریات کی بنیاد پر نہیں، شخصیات اور تعصبات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی دوسرا لیڈر کرپشن کرے، تو ہمیں اُس کی گردن پھانسی کے پھندے پر نظر آتی ہے، لیکن جب ’’ہمارا لیڈر‘‘ وہی کچھ کرے، تو ہم فوراً تاویلات کا پُل باندھ دیتے ہیں: ’’سازش تھی‘‘، ’’مدت پوری نہ ہونے دی گئی‘‘، ’’یہ سب پراپیگنڈا ہے۔‘‘
مجھے نہیں لگتا کہ اس میں اسلام کا نام لینے والی پارٹیاں، اسلام نافذ کرنے اور اسلام پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر آنے والوں کو کرپشن ختم کرنے کے بہ جائے حد سے زیادہ کرپشن کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ جو قوم پرستی اور ترقی کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ بھی ملک وقوم کو فائدے کے بہ جائے اُلٹا نقصان پہنچاتے ہیں۔
سیاسی مزاج ایسا بن چکا ہے کہ اگر ’’اپنا لیڈر‘‘ جھوٹ بولے، تو اسے ’’حکمت عملی‘‘ کہا جاتا ہے، اور اگر ’’دوسرا لیڈر‘‘ سچ بھی بولے، تو اسے ’’دھوکا بازی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں، تو ’’کرپشن کے خلاف جہاد‘‘ اور جب اقتدار میں آتے ہیں، تو ’’احتساب کا خاتمہ جمہوریت کے خلاف سازش‘‘ بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب مذاق بن چکا ہے۔ نیب کی کارروائی ہو، تو اسے ’’انتقامی سیاست‘‘ کہا جاتا ہے۔ عدالت فیصلہ دے، تو اسے ’’دباو میں آیا جج‘‘ قرار دیا جاتا ہے، اور کوئی مقدمہ بنے، تو اسے ’’جھوٹا‘‘ اور ’’من گھڑت‘‘ کَہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ بہ شرطہ یہ کہ ملزم ہماری جماعت سے ہو۔
پاکستانی عوام کی اکثریت نے کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے کا نعرہ تو ضرور سیکھ لیا ہے، مگر اس نعرے میں انصاف کی بہ جائے تعصب چھپا ہوتا ہے۔ اگر ہماری اپنی جماعت کا لیڈر ’’پانامہ لیکس‘‘ میں آئے، تو ہم کہیں گے کہ سب سیاست دانوں کے نام آئے تھے۔ اگر مخالف پارٹی کے آئے، تو ہم اسے ’’غدار‘‘، ’’چور‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ گویا کرپشن کی تعریف بھی پارٹی لائن کے مطابق طے کی جاتی ہے۔
افسوس تو تب ہوتا ہے، جب عوام بھی اس دوغلے پن کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جب تک سیاسی لیڈر عوام کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے اور عوام اپنی عقل سیاست دانوں کی دہلیز پر گروی رکھتے رہیں گے، تب تک نہ یہ نظام بدلے گا، نہ حالات۔
جب کوئی لیڈر کرپشن میں دھر لیا جائے، تو مخالفین اسے پھانسی پر چڑھانے کے خواب دیکھتے ہیں، مگر اگر وہی الزام ’’اپنے لیڈر‘‘ پر ہو، تو فوراً سازشوں، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا ٹرائل کی گرد اُڑا دی جاتی ہے۔ گویا کرپشن کی حقیقت نہیں، وابستگی کا رنگ اہم ہوتا ہے۔
جب حکومت اشیائے خور و نوش، بجلی، پیٹرول یا دوا مہنگی کرتی ہے، تو کوئی بل یہ نہیں لکھتا کہ ’’حکومتی پارٹی کے ووٹرز کو آدھی قیمت پر آٹا، دودھ، بجلی اور پٹرول دیا جائے گا!‘‘ بل کہ سب کے دروازے پر ایک ہی طرح سے دستک دیتا ہے، چاہے ووٹر ہو یا تنقید نگار۔
مگر حیرت تب ہوتی ہے، جب حکومتی جماعت کے کارکن، جنھیں وہی مہنگائی بھگتنی پڑ رہی ہوتی ہے، تاویلات کی توپیں لے کر دفاع میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی مثال ہے جیسے کوئی اپنے ہی پاؤں پر کلھاڑی مارے اور پھر کلھاڑی کو چومنے لگے۔
مَیں نے بھائیوں کو ایک دوسرے سے سیاسی شخصیات کے لیے ایسی باتوں پر لڑتے دیکھا ہے کہ جن باتوں کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ سوشل میڈیا پر ایسی واہیات اور ایسی ایسی پوسٹس اور کمنٹس دیکھی ہیں کہ جب سامنے سے ان لوگوں کو دیکھتا ہوں اور سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹس دیکھتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے ان کی سوچ پر۔
تعلیم یافتہ اور قابل لوگوں کی عجیب عجیب باتیں سن کر حیران ہوا ہوں کہ اُن کا دماغ اتنا اندھا کیسے ہوگیا؟ مَیں نے اس ملک میں مخالف کو سیاسی بحث میں اُلجھ کر قتل ہوتے سنا ہے، عملی کام کے بہ جائے سوشل میڈیا کو فالو کرتے اور اس پر اندھا یقین کرتے دیکھا ہے۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ وہ لوگ جو کل تک کرپشن کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، آج جب اُن کی اپنی جماعت پر انگلی اٹھتی ہے، تو اُن کا بیانیہ مکمل بدل جاتا ہے۔ وہی شخص جو کل تک کَہ رہا تھا کہ ’’چور کو جیل میں ہونا چاہیے!‘‘، آج فرماتا ہے کہ ’’چور کو تو عوام نے ووٹ دیا ہے، اب عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے!‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کرپشن کو جرم نہیں سمجھا گیا، بل کہ سیاسی محبت کا کسوٹی بنا دیا گیا ہے۔ اگر آپ کے لیڈر پر الزام ہے، تو آپ کا امتحان شروع ہو جاتا ہے کہ آپ کتنی تاویلیں دے سکتے ہیں، کتنے الزام واپس اچھال سکتے ہیں اور کتنے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرسکتے ہیں؟ گویا نعرہ اب یہ ہو چکا ہے: ’’چور ہے، مگر اپنا ہے تو صاف ہے، اور اگر پرایا ہے، تو گندا ہے۔‘‘
شکر ہے کہ میں اندھا سیاسی فالوور نہیں ہوں۔ مجھے بھی اس بات کی سمجھ نہ ہوتی، اگر مَیں بھی اندھا سیاسی فالوور ہوتا۔ چوں کہ مَیں سیاسی شخصیات کو فالو نہیں کرتا، اس لیے مجھے یہ سارا تماشا عجیب اور غیر فطری لگتا ہے۔ سمجھ تو تب آئے گی جب بِل میں لکھا ہو کہ حکم ران پارٹی کو ووٹ دینے والوں کے بِل آدھے ہوں گے ۔
آخری بات بس اتنی ہے کہ کاش ایسا ہوتا، تو کم از کم یہ اندھا دفاع کسی فائدے کا ہوتا……! مگر ایسا کچھ نہیں۔ سب کو ایک جیسا مہنگا آٹا، بجلی، دوا اور تکلیف ملتی ہے۔ صرف کرپشن کے انداز الگ ہوتے ہیں اور کرپٹ کے ساتھ محبت کی سطح مختلف۔
سو، وقت آ گیا ہے کہ ہم سب یہ سوال خود سے پوچھیں: ’’کیا ہم واقعی کرپشن کے خلاف ہیں یا صرف کرپٹ چہروں کی تبدیلی چاہتے ہیں؟‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے