سیدو ہسپتال: ریاست سوات کی امانت نیلام

Blogger Hilal Danish

اے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے خوابِ غفلت کے مزے لوٹنے والے باشندو! آج ایک تاریخی سچائی ہم سب کے ضمیر پر دستک دے رہی ہے۔ سیدو گروپ آف ہسپتال، جو ریاستِ سوات کی فلاحی سوچ اور عوامی خدمت کی علامت تھا، سرکاری اعلان کے مطابق نجی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
جی ہاں، وہی ہسپتال جس کی بنیادوں میں سابق والیِ سوات کی انسان دوست پالیسیوں کی مہک اور عوام کے دکھوں کا مداوا پوشیدہ تھا، آج حکومتی پالیسیوں کی نذر ہو چکا ہے۔
یہ خبر کسی اچانک بجلی کی کڑک نہیں، بل کہ اُس سازش کی تکمیل ہے، جو برسوں سے خاموشی کے ساتھ پروان چڑھتی رہی۔
جنھیں ہم نے عوامی نمایندے سمجھا، وہ درحقیقت کسی اور ہی تسبیح کے دانے نکلے۔ مختلف حکومتوں میں بیٹھے ایم پی ایز، ایم این ایز اور مقامی ’’لیڈران‘‘ برسوں سے سیدو گروپ کی انتظامی بے ضابطگیوں، ٹھیکوں کی بندربانٹ اور مراعات کی بندرگاہ سے فیض یاب ہوتے رہے۔ عوام کو تسلیاں ملتی رہیں، دعوے ہوتے رہے، مگر اصل فیصلہ بند کمروں میں پہلے ہی ہوچکا تھا۔
عجیب تماشا ہے، جنھوں نے چپ سادھ لی تھی، اب وہی مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ یہ وہی چہرے ہیں جو اندر سے اس سودے بازی کا حصہ تھے۔ آج اگر کوئی احتجاج کی کال دے، تو اس کے ماضی پر بھی نگاہ ضرور ڈالیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب اداروں کے تقدس کا سوال آیا، یہ ’’نمایندے‘‘ خاموش رہے، اور اب سیاسی فائدے کے لیے میدان میں اُتر آئے ہیں۔
یہ المیہ صرف ایک ہسپتال کی نج کاری کا نہیں، یہ ریاستِ سوات کی روح کے ساتھ بے وفائی ہے۔ سیدو گروپ آف ہاسپٹلز کوئی عام ادارہ نہیں تھا، یہ ایک روایت، ایک اعتبار اور ایک اُمید کا نام تھا۔ اس کی بنیادوں میں وہ فلاحی وِژن تھا، جو والیِ سوات کی عطا کردہ میراث تھا۔ آج جب یہ ادارہ نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے، تو درحقیقت اُس وژن کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ محترم ڈاکٹر عطاء الرحمان برکی صاحب اس ادارے کے انتظامی سربراہ ہوں گے، مگر سوال یہ ہے کہ وہ جو فیصلہ ساز تھے، وہاں کے رہایشی، وہاں کے منتخب نمایندے، اُنھوں نے کب اور کیوں اس فیصلے پر لب کشائی نہ کی؟ کیوں کوئی قرارداد، کوئی احتجاج، کوئی پریس کانفرنس، کوئی تحریری مو قف سامنے نہ آیا؟
سوال سیدو گروپ کا نہیں، سوال آنے والی نسلوں کا ہے۔ اگر کل کو تعلیم، پانی، سڑک اور فلاحی ادارے بھی اسی انداز میں بیچے جاتے رہے، تو پھر ہم کس ریاست، کس آئین اور کس جمہوریت کی بات کریں گے؟
ہم، اہلِ سوات، والیِ سوات کی روح سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم ان کی میراث کا تحفظ نہ کرسکے۔ یہ وقت بیداری کا ہے، ہوش کے ناخن لینے کا ہے۔ یہ وقت جعلی نعروں اور وقتی احتجاج سے آگے بڑھ کر اجتماعی شعور بیدار کرنے کا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے