ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کی تاریخ

Blogger Hamza Nigar

’’جان ریڈ‘‘ (John Reed) نے روسی انقلاب پر اپنی شعرہ آفاق کتاب کو ’’تاریخ کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن‘‘ (Ten Days That Shook the World) کا نام دیا تھا۔ دراصل اُس انقلاب نے صرف روس کو نہیں، بل کہ دنیا بھر کے محنت کشوں کو جھنجھوڑا تھا اور وہ اپنے طرزِ زندگی کے اثر کا نئے سرے سے جائزہ کرنے لگے۔
’’روسی انقلاب‘‘ (Russian Revolution) اپنی ساخت کا پہلا انقلاب تھا، جس کو مزدوروں کی ایک انقلابی پارٹی نے لیڈ کیا تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں جتنے بھی سوشلسٹ انقلاب آئے، وہ انقلابی پارٹی کی نگرانی میں سر انجام دیے گئے۔ انقلاب میں پارٹی کے رول اور انقلاب کی سیاسی ساخت پر کارل مارکس نے زیادہ بات نہیں کی۔ لینن نے اس اہم نقطے کو اُٹھایا اور انقلاب کے لیے ایک "Vanguard Party” کو لازمی قرار دیا۔ لینن کا یہ اُصول آگے چل کر کمیونسٹ تحریک کو بڑھانے میں کار آمد ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں کمیونسٹ پارٹیاں بنیں، کچھ انقلاب لانے میں کام یاب اور کچھ ناکام ٹھہریں۔
ایسے میں 1925ء میں ہندوستان میں ’’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘‘ (Communist Party of India) کا قیام عمل میں آیا۔ اس پارٹی کے بانی، کسان اور غریب خاندان میں پیدا ہونے والے ’’چارو ماجومدار‘‘ (Charu Majumdar) تھے۔ چارو، روسی انقلاب سے متاثر تھے اور ہندوستان سے فرنگی سام راج کا خاتمہ کرنے کے لیے وہ روسی طرز کا انقلاب لانے کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ 1783ء سے 1900ء تک ہندوستان میں تقریباً 110 بغاوتیں کسانوں نے لیڈ کی تھیں۔ یہ سارے ناکام ہوئے۔ گاندھی کی ’’عدمِ تعاون تحریک‘‘ اور ’’عدمِ تشدد‘‘ سے مایوس ہوکر ہندوستان کے نوجوانوں کا ایک حصہ اشتراکیت کی طرف مائل ہوا۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک وفد نے روس کا دورہ کیا۔ جوزف سٹالن سے ملاقات میں اُن کو پُرتشدد اور بندوق سے انقلاب لانے کے فلسفے سے دور رہنے کی تلقین کی گئی۔ اس کی ایک وجہ روس کا کوریا کی جنگ میں مداخلت اور دوسری طرف دوسری جنگِ عظیم کے بعد روس کی تعمیر تھی۔ یہی وجوہات تھیں، جس کی وجہ سے سٹالن امریکہ سے محاذ آرائی کے حق میں نہیں تھا۔ اسی دوران میں 1946ء سے 1951ء تک ہندوستانی ریاست تیلنگانا میں کسان تحریک عروج پر تھی۔
یہ تحریک بڑے زمین داروں کے خلاف تھی۔ تب ہندوستان میں ’’فیوڈل ازم‘‘ کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، لیکن 1954ء میں جب نہرو نے اجارہ داری کا خاتمہ کیا، تو پھر بھی کولونیل دور کے کچھ باقیات موجود رہے۔ جیسے کہ 1990ء تک قریباً 60 فی صد ہندوستانی "landless” تھے اور ہندوستان کے ٹاپ 4 فی صد امیروں کے پاس زمینوں کا کنٹرول تھا۔
1946ء میں تیلنگانا کی کسان تحریک کا خاتمہ، 1951ء میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ہوا۔ تحریک کے دوران میں کمیونسٹوں میں گوریلا جنگ کے نظریات پھیل گئے تھے۔ سٹالن کی موت کے بعد سوویت یونین کی بھاگ دوڑ ’’نیکیتا خروشچیو‘‘ (Nikita Khrushchev) کے ہاتھ میں آئی۔ خروشچیو نے 1956ء میں "Cult of Personality” سپیچ میں سٹالن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سٹالن کی سوچ کو سوویت یونین سے ختم کرنے کی ٹھان لی۔ اس وجہ سے چین اور سوویت یونین کے تعلقات خراب ہوگئے اور پوری دنیا کی کمیونسٹ تحریک دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک کا مرکز ماسکو اور دوسرے کا بیجنگ بن گیا۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے بھی اس بٹوارے میں اپنی مرکز چننے کا فیصلہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جس نے 1951ء میں پُرتشدد رہنے کی پالیسی ترک کی تھی، وہ ماسکو نواز بن گئی، جب کہ اسی جماعت سے ایک نئی پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے نام سے سامنے آئی۔ اس جماعت کی سوچ چائینہ اور چیئرمین ماؤ سے اس لیے ملتی تھی کہ یہ بھی "Armed Struggle” سے انقلاب لانے کی سوچ رکھتے تھے۔ ان کی توجہ زیادہ تر کسانوں پر تھی۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام 1964ء میں کلکتہ میں پارٹی کی 17ویں کانگریس میں عمل میں لایا گیا۔ اس سے پہلے 1960ء میں چارو مجومدار، جو اُس وقت پابندِ سلاسل تھے، نے جیل سے کمیونسٹ لٹریچر لکھنا شروع کیا۔ یہ مضامین بعد میں ’’نکسل واد تحریک‘‘ (Naxalism) کا نظریہ بن گئے۔ مجومدار نے اُس وقت سوویت یونین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور چائنیز سوشلز ازم کا حامی بن گیا۔ 1965ء کی بھارت جنگ کے اثرات ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک پر بھی پڑے۔ چوں کہ چین نے بہ راہِ راست پاکستان کا سائیڈ لینا شروع کیا۔ اس وجہ سے کمیونسٹ اب چائینہ سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ حب الوطنی اور چین میں اُن کو اب ایک چننا تھا۔ کمیونسٹوں نے حب الوطنی کو چُنا۔ یہی سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جو پہلے چین نواز تھی، نے جمہوری راستہ اپنانے کا سوچا۔ چارو مجومدار اس فیصلے پر خوش نہیں تھے۔ اُنھوں نے ایک نئی پارٹی (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا- مارکسسٹ لیننسٹ) بنائی۔ وہ کہتے تھے کہ چین کا چیئرمین (چیئرمین) ہمارا چیئرمین ہے اور چین کا راستہ ہمارا راستہ ہے۔اس نئی پارٹی کا مقصد وہی تھا، جو پاک بھارت جنگ سے پہلے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کا تھا، یعنی چینی طرز کا انقلاب، جس کا راستہ گوریلا جنگ ہوگی۔
1967ء میں بنگال کے علاقے نکسل باری سے نکسل واد تحریک کا آغاز ہوا، جو آج تک جاری ہے اور جس پر اگلی تحریر میں بات کریں گے۔ نکسل واد تحریک نے گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ یہ اُن علاقوں میں تھا، جہاں ادیواسی (قبائل) آباد ہیں۔ نکسل واد تحریک کو چارو مجومدار کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ کچھ تو مجومدار کو نکسل تحریک کا بانی مانتے ہیں۔
2004ء میں نکسل وادی اور ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر نے اکھٹے ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس انضمام کے نتیجے میں بننے والی پارٹی کا نام کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) رکھا گیا، جس کو 2009ء میں ایک دہشت گرد تنظیم ڈی کلیئر کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) کی مسلح تنظیم بھی ہے، جس کا نام "PLGA” ہے۔ ان کی زیادہ تر کارروائی ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں ہوتی ہے، لیکن ہندوستان کی سیاسی حلقوں میں اس تحریک کا مرکز نکسل وادیوں کو سمجھا جاتا ہے، جو کہ صحیح بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی جو کہ یورپ اور لاطینی امریکہ کے بیش تر ممالک سے پہلے بنی تھی، لیکن کوئی خاطر خواہ کام یابی حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ اس کی وجہ ایک تو چارو مجومدار کی نظریاتی کنفیوژن تھی۔ چارو ہندوستان کی کمیونزم کا بانی اور ایک بڑے کمیونسٹ لیڈر تھے، لیکن اُن کی سوچ کا نقصان کمیونسٹ تحریک کو اُٹھانا پڑا۔ چارو مجومدار کا "CPI” سے "CPI M” اور پھر "CPI ML” تک کے سفر نے ہندوستان میں ایک طرف تو کمیونسٹوں کو تقسیم کیا اور اسی وجہ سے کمیونسٹ عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایک بڑے عرصے تک ہندوستان کے کمیونسٹ لیڈر جمہوری یا مسلح راستے میں کسی ایک کو چننے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے اور راستے کا انتخاب تب کیا گیا جب ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ دوسری وجہ بنگال کے وزیرِ اعلا جیوتی باسو کا ایک غلط فیصلہ تھا جب 90ء کی دہائی میں ان کو مخلوط حکومت نے پرائم منسٹر بنانے کی آفر کی اور اُنھوں نے ٹھکرا دی۔ اگر جیوتی وزیرِ اعظم بنتے، تو حالات شاید بہتر ہوجاتے۔ اس غلطی کے چند سال بعد جیوتی جو مسلسل 23 سال تک بنگال کے وزیرِاعلا تھے، اُن کے اقتدار کو گرہن لگ گیا۔ اب صرف کیرلہ میں کمیونسٹ حکومت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے