عید کا دن اسلامی تہذیب میں ایک روحانی، معاشرتی اور ثقافتی حوالہ رکھتا ہے۔ یہ دن محض نماز، نئے کپڑے اور پکوان کا نام نہیں، بل کہ اس کے ساتھ وابستہ جذبات، خاندانی رشتے، اجتماعی خوشی اور تہذیبی ورثے کا اظہار بھی ہے…… مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ویسے ویسے عید کی روح میں ایک خاموش تبدیلی در آئی ہے۔
جب عید آتی ہے، تو ایک اندرونی سوال ابھرتا ہے: کیا یہ وہی عید ہے، جو کبھی ہمارے بزرگوں نے منائی تھی یا ہم صرف اس کا سایہ باقی رکھے ہوئے ہیں؟
ماضی کی عیدیں محض ذاتی خوشی کا موقع نہیں ہوتی تھیں، بل کہ پورے محلے، گاؤں یا برادری کی اجتماعی خوشی کا منظر پیش کرتی تھیں۔ لوگ مہینوں پہلے تیاری شروع کرتے، محلے کے خستہ حال گھروں کی دیواروں پر چونا لگایا جاتا، دسترخوان سب کے لیے کھلا ہوتا اور ہر دروازہ عید مبارک کے لیے کھلا ہوا محسوس ہوتا۔ بچے محلے کے ہر فرد کو جانتے اور بزرگ سب بچوں کو پہچانتے تھے۔ یہ ایک جیتی جاگتی تہذیب تھی، جس میں رشتوں کی اہمیت، میل جول اور قربانی کا جذبہ نمایاں تھا۔
آج عید کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ نہ محلے ویسے رہے، نہ ہی تعلقات۔ شہروں میں بلند عمارتوں کے بیچ بسنے والے افراد ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ رشتے اب واٹس ایپ کے پیغامات تک محدود ہوگئے ہیں۔ جہاں پہلے عید کا چاند دیکھ کر لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں خوش خبری دینے جاتے تھے، اب وہی اطلاع ایک سوشل میڈیا پوسٹ بن گئی ہے۔ نہ وہ گرم جوشی باقی رہی، نہ وہ ذاتی رابطہ۔
یہ تبدیلی محض تہوار کے طریقۂ کار میں نہیں آئی، بل کہ یہ ہماری مجموعی تہذیب کی تبدیلی کا عکس ہے۔ ہم مغرب کی تقلید میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اپنی روایات کو ’’پرانی باتیں‘‘ سمجھ کر ترک کرتے جا رہے ہیں۔ عید کا روایتی لباس اب ’’فیشن‘‘ کی مرضی سے طے ہوتا ہے، کھانے اب ماں کے ہاتھوں سے زیادہ ’’فوڈ ایپس‘‘ پر منحصر ہیں اور ملاقاتیں ’’زوم کال‘‘ یا ’’انسٹا سٹوری‘‘ پر ختم ہوجاتی ہیں۔
اس تہذیبی تبدیلی کا سب سے گہرا اثر ہماری جذباتی وابستگی پر پڑا ہے۔ ہم اب جذبات کو بھی وقت، مصروفیت اور سہولت کے مطابق ناپتے ہیں۔ عیدی اب خلوص کا اظہار نہیں، بل کہ ایک مالی لین دین بن چکی ہے۔ گلے ملنا اب ’’کورونا‘‘ کے بعد مزید اجتناب کا شکار ہوا ہے اور رشتوں میں وہ قربت، وہ بے ساختگی، جیسے ماضی کی بات ہو گئی ہو۔
جب ہم عید کے دن خوشی کا اظہار کرتے ہیں، تو اکثر یہ محض ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے۔ دل میں کئی بار ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے، جیسے ہم کچھ کھو بیٹھے ہوں، جسے ہم پہچان تو سکتے ہیں، مگر چھو نہیں سکتے۔ یہ وہ تہذیبی اور جذباتی ورثہ ہے، جو آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے…… اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب عید آتی ہے، تو دل خوشی سے زیادہ سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ یہ سوچ ایک سوال کی صورت جنم لیتی ہے: کیا ہم واقعی ترقی کر چکے ہیں یا ہم نے سہولت کی قیمت پر جذبات، رشتے اور تہذیب کا سودا کر لیا ہے؟
عید کا دن اب بھی آتا ہے، مگر اب وہ صدا سنائی نہیں دیتی جو نانی ماں کے ہنستے چہرے سے آتی تھی، وہ جوش نہیں ہوتا، جو بچپن کے دوستوں کے ساتھ صبح سویرے مسجد جانے میں تھا اور وہ پیار بھرے ہاتھ نہیں ملتے، جو کسی بزرگ کی دعاؤں سے بھرے ہوتے تھے۔
تہذیبیں جب بدلتی ہیں، تو سب کچھ ایک جیسا نظر آتا ہے، مگر اندر سے مختلف ہو جاتا ہے۔ شاید ہماری عید بھی اب ایک ایسی ہی شے بن چکی ہے……باہر سے روشن، اندر سے خاموش اور تاریک۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
