ہماری نسل اور اس سے پہلے کے مینگروال حضرات سے ’’کاکا اُستاد صاحب‘‘ کا پوچھیں، تو ایک تعظیم، احترام اور محبت کا جذبہ ان کے چہرے میں سرخی پیدا کردیتا ہے۔
کاکا اُستاد صاحب مینگورہ نیو روڈ محلہ عیسیٰ خیل کے رہنے والے تھے۔ اُن کو اُستادوں اور افسروں کا اُستاد بھی کہتے ہیں۔
کاکا اُستاد صاحب کا مختصر سا شجرۂ نسب اور خاندان کے متعلق معلومات درجِ ذیل ہیں:
امان اللہ خان کاکا اُستاد صاحب عیسیٰ خیل (مرحوم)، ولدِ خان شیرین لالا، ولدِ خان ملا، ولدِ علی اکبر، ولدِ محمد اکبر (ملابابا، مینگورہ)، ولدِ حیدر خان، ولدِ پیر صالح ولد شیخ طاؤس خان مردان۔
امان اللہ خان کاکا استاد صاحب سیدھے سادھے، کم گو، خوش اخلاق، دھیمے لہجے اور نحیف جسم کے مالک تھے، لیکن انتہائی محنتی اور لائق اُستاد تھے، جن کے سیکڑوں نہیں ہزاروں شاگرد ہیں۔
کاکا اُستاد صاحب کے والدِ گرامی ’’خان شیرین لالا‘‘ اچھے طبیب تھے۔ جیسے خاندان کی برسوں کی روایت تھی، ایک بیٹا طب کی طرف جائے گا اور دوسرا عصری علوم کی طرف۔اس خاندان نے مذکورہ روایت پہلے ہی محمد اکبر (ملا بابا) کے دور سے اپنایا تھا۔ خود محمد اکبر (ملا بابا) شاعر اور نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ عالمِ دین اور طبیب بھی تھے۔ اُن کی شاعری میں اس کی جھلک ملتی ہے:
یو لاس کی ئے اولیا بل کے اکبر دے
چہ نیکہ ئے پیر صالح، پلار ئے حیدر دے
ایسے منظوم شجرۂ نسب کی نظیر یوسف زوؤں کے اندر کم ہی ملتی ہے۔
خان شیرین لالا نے اپنے بڑے بیٹے امان اللہ خان کو حکمت اور دنیاوی تعلیم دونوں سے آراستہ کیا، جب کہ دوسرے بیٹے کو حکمت اور دینی علوم کی طرف راغب کیا۔
امان اللہ خان (مرحوم) کو ریاستِ سوات نے تعلیم کے محکمے میں اُستاد رکھ لیا، جب کہ شاہ باچا حکمت میں اپنا لوہا منوانے لگے۔
محلہ عیسیٰ خیل مینگورہ کی داخلی گلی میں کئی کنال پر پہلا گھر خان شیرین لالا کا تھا، جو ایک کشادہ مکان تھا۔ باہر حجرے اور شفا خانے کے ساتھ میدان مختلف قسم کی ادویہ میں استعمال ہونے والے درخت اور پودوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ یہ مکان بعد میں تین چار حصوں میں تقسیم ہوا۔ چار بھائیوں نے اپنا حصہ شاہ باچا کے ہاتھ بیچا اور امان اللہ خان، شاہ باچا اور اکرام اللہ کے مکان وہیں پر قائم رہے۔
گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ایک مینگورہ میں پرائمری سیکشن میں امان اللہ خان اُستاد صاحب صبح سے دوپہر تک پڑھاتے اور گھر آکر وسیع بیٹھک میں درجنوں بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتے۔ عشا تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا۔اس کے بعد کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتے یا سکول سے بچوں کی لائی ہوئی نوٹ بکس یا ٹیوشن میں بچوں سے لیے ہوئے ٹیسٹ چیک کرتے۔
اُستاد صاحب کی محدود زندگی تھی جو شاگرد، سکول، پڑھائی اور کتاب کے گرد گھومتی تھی، مگر تھی بہت نفیس۔ ایسی نفیس زندگی گزارتے گزارتے اللہ تعالیٰ نے اُستاد صاحب کو ایک امتحان میں ڈال دیا۔ اُن کے ایک ناخلف بیٹے امجد (مرحوم) نے جوانی میں قدم رکھا۔ یہ قدم اُستاد صاحب کے لیے بہت بھاری پڑا۔ بیٹا نافرمان تھا اور اسی نافرمانی میں بہت آگے نکل گیا۔ ایک دور ایسا آیا کہ بے ضرر اُستاد صاحب کو روز بیٹے کی شکایتیں ملنا شروع ہوئیں۔ اسی دوران میں تنگ آکر اُستاد صاحب نے ریٹائرمنٹ لی اور محدود ہوکر رہ گئے۔ بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں ایک دن اس جہاں سے منھ موڑگئے۔
بیٹے نے باپ کے چالیسویں پر اُن کی جائیداد فروخت کرنا شروع کی۔ کئی سال اُسے فروخت در فروخت کے عمل سے اُسے اچھی خاصی رقم ملتی رہی۔ زندگی خوب عیش و عشرت میں گزاری۔ بالآخر وہ دن بھی آیا کہ جس مکان میں وہ رہتا تھا، اُسے بھی بیچ دیا اور جب کچھ باقی نہیں بچا، تو ایک دن اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔
اللہ تعالیٰ، امان اللہ خان کاکا اُستاد صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور امجد کی بھی مغفرت فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
