سی پیک کے حوالے سے ایک کانفرس میں جناب احسن اقبال صاحب کو بہ راہِ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ عین اسی کانفرس کے دوران میں مرحوم عارف نظامی صاحب نے سٹیج پر اپنے خطاب سے پہلے یہ خبر بریک کی کہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی جنرل آصف غفور نے ڈان لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کی انکوائری رپورٹ کو مسترد کیے جانے والی ٹویٹ ڈلیٹ کردی ہے، جس سے یہ تاثر ملا کہ سیاسی اور ملٹری قیادت کے درمیان کش مہ کش ختم ہونے جارہی ہے، مگر چند ماہ بعد یہ تاثر بھی زائل ہوگیا، جب تین مرتبہ کے منتخب وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو بابا رحمتے کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔
بات کہیں اور چل نکلی، ذکر چل رہا تھا احسن اقبال صاحب کا کہ جنھوں نے اس کانفرس میں مدلل انداز سے سی پیک کے حوالے سے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے اقدامات کو اُجاگر کیا۔ یقین مانیں جس انداز سے موصوف نے مدلل، تحمل مزاجی برقرار رکھتے ہوئے حقائق اوراعدادو شمار کے ساتھ کانفرنس میں مخالفت برائے مخالفت کرتے اپوزیشن راہ نماؤں کی بولتی بند کی، یقین مانیں میں اسی دن سے موصوف کا پرستار بن گیا، مگر کبھی کبھی اتنا قابل انسان بھی سطحی باتیں کرے، تو بہت عجیب لگتا ہے۔
گذشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ہمارا شمار دنیا کے کم ترین ٹیکس ادا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ترقی کے خواب بڑے ہیں، لیکن ٹیکسوں کی ادائی کم ترین ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرے۔
موصوف نے مزید فرمایا کہ ہمیں اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو ساڑھے 10 فی صد سے 16 یا 18 فی صد تک لے کر جانا ہے۔ جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، وہ ٹیکس چوری کے خلاف چوکی دار کا کردار ادا کریں۔
گذشتہ کئی سالوں سے ہر حکم ران جماعت ٹیکس چوری پر شوروغوغا کرتی ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ حالاں کہ یہ حکومتی بیانئے اور دعوے حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ ایسا کون سا پاکستانی ہے، جو حکومت کو ٹیکس نہیں دیتا؟ روٹی، کپڑا، مکان اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی ایسی کون سی اشیا ہیں، جن پر پاکستانی عوام ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ گھر کے استعمال کی ہر خاص و عام اشیا پر ٹیکس ادائی کے بعد ہی خریداری ممکن ہوتی ہے۔ وہ علاحدہ بات ہے کہ عوام کی جیبوں سے نچوڑا گیا سیلز ٹیکس، کارپوریٹ سیکٹرکی جیبوں ہی میں رہتا ہے، یا پھر حکومتی خزانے میں جمع ہوپاتا ہے یا نہیں……؟
حکومتیں نظامِ ریاست چلانے کے لیے رعایا پر بہ راہ ِراست اور بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہیں۔ کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور انکم ٹیکس ’’ڈائریکٹ‘‘ (Direct) یعنی بہ راہِ راست ٹیکس کہلاتے ہیں، جب کہ کسٹم ڈیوٹیاں، سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ’’اِن ڈائر کٹ‘‘ (Indirect) یعنی بالواسطہ ٹیکس کہلاتے ہیں۔ سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پر لگائی جاتی ہیں، جب کہ کسٹم ڈیوٹیاں درآمدی سامان پہ لگتی ہیں۔ اسی طرح سیلز ٹیکس اندرونِ ملک اشیاکی خریدوفرخت پہ لگایا جاتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی خزانے میں ٹیکسوں کا زیادہ حصہ ڈائرکٹ یعنی بہ راہ راست ٹیکسوں کا ہوتا ہے، یعنی جو جتنی زیادہ آمدنی کمائے، وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے۔ اس کے بعد بالواسطہ ٹیکس شمار کیے جاتے ہیں، تاکہ ریاست زیادہ آمدنی کمانے والے افراد سے ٹیکس لے کر ریاستی اُمور اورکم آمدنی والے افراد کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس نظام اُلٹی گنگا بہانے کے مصداق ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس کاتناسب بہ راہِ راست ٹیکسوں سے بہت زیادہ ہے، جب کہ کارپوریٹ سیکٹر چوں کہ اشرافیہ ہے اور یہ امیر ترین طبقہ من گھڑت اعدادو شمار، ٹیکس چھوٹ، ٹیکس چوری اور سرکاری اہل کاروں کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے ریاست کے خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے ۔ پاکستان میں بہ راہِ راست ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ تن خواہ دار طبقے ہی سے وصول ہوتا ہے۔ پھر یہی تن خواہ دار طبقہ بچی کھچی تن خواہ سے گھر کے استعمال کی ہر شے پر سیلز ٹیکس الگ سے دینے پر مجبور ہوتا ہے۔
قارئین! کبھی آپ نے یہ خبر سنی یا دیکھی ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کے کسی فرد کو ٹیکس چوری کے جرم میں جیل یاترا ہوئی ہو؟ چوں کہ حکومتی ایوانوں میں یہی امیر ترین اشرافیہ براجمان ہوتی ہے، لہٰذا ریاستی نظام چلانے کے لیے اشرافیہ غریب عوام کی چمڑی کو رنگ بہ رنگے ٹیکسوں سے ادھیڑ رہی ہوتی ہے۔چاہے وہ بیرونی ممالک سے سستا پٹرول خرید کر مہنگے داموں فروخت کرنا ہو،یا پھر بجلی بنانے کے منصوبوں کے لیے نیلم جہلم جیسے ٹیکس عائد کرنا ہوں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ’’عوام مخالف ٹیکس نظام‘‘ وجود پکڑ چکا ہے، یعنی کہ ایک کلو گھی، ایک لیٹر پٹرول یا عام صابن خریدنے پرکم از کم اجرت یعنی 37 ہزار روپے کمانے والا پاکستانی اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہا ہے، جتنا کہ کوئی ارب پتی شہری ادا کرتا ہے ۔
جناب احسن اقبال صاحب! ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکسوں کے حصول کے لیے حکومتی توپوں کا رُخ عام پاکستانی کی بہ جائے اشرافیہ اور حکومتی اداروں میں شامل کالی بھیڑوں کی طرف کیجیے، جن کی بہ دولت حکومتی خزانہ خالی رہتا ہے اور پھر اُس خزانے کوبھرنے کے لیے عوام الناس کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ایسے ساہوکار اداروں سے ترلے منتیں کرنی پڑتی ہیں۔
اشرافیہ میں شامل ٹیکس چوروں پر پہرا بھی خود حکومت کو دینا ہوگا اور ٹیکس چوری کی کڑی سے کڑی سزائیں بھی خود حکومت کو دلوانی ہوں گی۔ ورنہ وزیر صاحب! آپ سمیت تمام حکومتی مشینری کو عوام الناس کے خلاف روایتی بیان بازی سے پرہیز کرنا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
