بچپن میں جب بھی بادل برستے، دیگر لڑکوں بالوں کی طرح مجھے بھی بڑا مزا آتا۔ اکثر قمیص اُتار کے اور چپل چوڑیوں کی طرح کلائیوں میں پہن کے محلہ وزیر مال (مینگورہ، سوات) کے گلی کوچوں میں ہم عمر دوستوں کے ساتھ دوڑ لگاتے۔ کئی بار پھسل کر خود کو اچھے خاصے زخم بھی لگا دیتے، مگربہ قولِ شاعر
چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی
ایسے موقعوں پر جب کبھی ابر کے ٹکڑے منتشر ہونا شروع ہوجاتے اور بارش کے دوران میں سورج کی کرنیں بھی نمودار ہوجاتیں، تو ہم سب ایک جگہ کھڑے ہوکر تالیاں پیٹنا شروع کرتے اور زور زور سے کہتے: ’’اَلہ دَ گیدڑ وادہ دے!‘‘ یعنی گیدڑ کی شادی ہے۔
ایسے موقع پر اکثر ایک عدد ’’قوسِ قُزح‘‘ (جسے ہم پشتو میں ’’دَ بوڈئی ٹال‘‘ کہتے ہیں) بھی آسمان پر جنم لیتی، جس کا اپنا مزا ہوتا۔
اب ’’دَ گیدڑ وادہ‘‘ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اس حوالے سے کسی کو کچھ علم نہیں۔ مَیں نے تقریباً ہر عمر کے مرد اور خواتین سے اس حوالے سے پوچھا ہے، مگر بے سود۔
اس کے ساتھ ایک دل چسپ حوالہ یہ ہے کہ اکثر ایسے موقع پر جب ہم اچھلتے کودتے ہوئے کہتے: ’’اَلہ د گیدڑ وادہ دے !‘‘ تو کچھ بڑے بوڑھے غصہ ہوکر ہمیں ایسا کہنے سے روکنے کی کوشش کرتے۔ نیز یہ تاکید بھی کرتے کہ ’’دراصل جس روز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی تھی، تو اُس روز اتفاقاً بارش کے دوران میں دھوپ نکل آئی۔ یوں کافر چلانے لگے کہ گیدڑ کی شادی ہے (نعوذ باللہ!)۔‘‘
ہم بڑوں کی یہ بات سن کر کانپ جاتے اور استغفار کرنے لگ جاتے۔
بڑے یہ بھی تاکیداً کہتے کہ ’’گیدڑ کی شادی ہے!‘‘ کی جگہ ’’شیر کی شادی ہے!‘‘ کہا کریں۔
اُس وقت چوں کہ ہم بچے تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے جب بھی بارش کے دوران میں دھوپ نکل آتی، تو ہم اچھل کود کے ساتھ تالیاں پیٹتے اور چلاتے جاتے کہ ’’اَلہ د منزری وادہ دے!‘‘
ایک عرصہ بعد آج جب ’’دَ گیدڑ وادہ‘‘ والی اپنی بچپن کی یاد تازہ ہوئی، تو اپنی ذاتی لائبریری چھان ماری، شریعت کا انسائیکلو پیڈیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر موجود کتب کی ورق گردانی کی، مگر اس حوالے سے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مجبوراً اپنے رفیقِ کار محمد طلحہ صدیقی (فاضل جامعہ دارالقرآن رحیم آباد، سوات) سے رابطہ کیا، تو انھوں نے ایک جامع تحریر ارسال کی، جسے جلد لفظونہ ڈاٹ کام کی زینت بنایا جائے گا، سرِ دست ’’دَ گیدڑ وادہ دے!‘‘ سے منسوب ہمارے اُس وقت کے بڑے بوڑھوں کے دعوے کے حوالے سے طلحہ صدیقی صاحب کیا کہتے ہیں؟ آئیے، جانتے ہیں:
’’اسلام ایک ایسا دین ہے، جو ہر بات کو دلیل، تحقیق اور مستند حوالوں کی روشنی میں قبول کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر گوشہ سیرت کی معتبر کتابوں میں محفوظ ہے۔ تاہم جہاں تک بارش اور دھوپ کے موسم میں نکاح والی بات کا تعلق ہے، اور اُس پر کفار کے کسی تبصرے کا ذکر ہے، تو سیرت کی کتب اور حدیث کی معتبر روایات میں اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ یہ بات بہ ظاہر ایک غیر مستند روایت ہے، جو وقت کے ساتھ عوامی یادداشت کا حصہ بن گئی ہے۔ ایسی باتوں کو اگر بغیر تحقیق کے دین سے جوڑ دیا جائے، تو یہ نہ صرف علمی اعتبار سے کم زوری ہے، بل کہ دینی طور پر بھی درست نہیں۔ ’گیدڑ کی شادی‘ جیسی ضرب الامثال مختلف ثقافتوں میں پائی جاتی ہیں۔ جاپان میں اسے ’لومڑی کی شادی‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل ان باتوں کا حقیقت یا دین سے کوئی تعلق نہیں، بل کہ یہ ثقافتی تمثیلات ہیں، جو محض تفریحی یا عوامی مزاج کی نمایندگی کرتی ہیں۔‘‘
دھوپ میں بارش ہونے کے حوالے سے عرصہ ہوا ایک چھوٹی سی نظم سنی تھی، جو سنتے ہی ذہن کے پنـے پر نقش ہوگئی تھی۔ یہ نظم یا شاعر کا حوالہ آن لائن ڈھونڈنے کی کافی کوشش کی، مگر بے سود!
بہ ہر حال نظم ملاحظہ ہو (اگر نظم میں کچھ کمی یا بیشی دِکھے، تو پیشگی معذرت قبول فرمائیں):
اِک دن مَیں نے اُس سے پوچھا
دھوپ میں بارش ہوسکتی ہے؟
یہ سن کے وہ ہنسنے لگی
ہنستے ہنستے رونے لگی
اور دھوپ میں بارش ہونے لگی
