ایسے تھے ہمارے مہربان حکم ران (والی سوات)

Blogger Riaz Masood


(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات کے حکم ران میاں گل جہانزیب (والیِ سوات) کو سرکاری ملازمین کی بڑی فکر رہتی تھی۔ انھیں سوات اور اس کی ماتحت علاقوں کے لوگوں سے توقع تھی کہ وہ ریاستی اہل کاروں کی عزت کریں اور ان کا خیال رکھنے والے اور ان پر مہربان رہیں۔
یہاں میں ایک مثال پیش کرتا ہوں جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ریاستی اہل کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے کتنے فکر مند تھے۔ یہ واقعہ ریاستی پی ڈبلیو ڈی میں، میری ملازمت سے کافی پہلے کا ہے۔ چکیسر گاؤں کو مرکزی سڑک سے ملانے کے لیے برساتی نالے (خوڑ) پر ایک پل تعمیر کیا جا رہا تھا۔ اس پل کی نگرانی کے لیے ریاستی پی ڈبلیو ڈی کے ایک صوبیدار، جو اس وقت ناخود کپتان کے زیرِ نگرانی تھا، وہاں موجود تھے۔ ان کا نام عبدالواحد تھا اور وہ منگلور گاؤں کے رہایشی تھے۔ حسبِ روایت سپلائی کنٹریکٹر نے سپاہیوں اور اہل کاروں کو کھانا کھلانے کے لیے ’’صبر شاہ موڑ‘‘ پر کھانا پکانے کا انتظام کیا تھا۔
والی صاحب ہر سال کم از کم ایک بار ریاست کے دور دراز علاقوں کا دورہ کرتے تھے اور روزانہ شام کے وقت پراپر سوات کا معائنہ کرتے تھے۔ خیر، اس موقع پر وہ چکیسر آئے۔ مکمل کیے گئے قوس دار پل (Arch Bridge) کا معائنہ کیا اور پھر گاؤں کے عمائدین اور حاکم سے ملاقات کی۔ پھر اچانک اور غیر متوقع طور پر انھوں نے صوبیدار سے پوچھا کہ وہ رہایش اور کھانے کے بارے میں کیسا محسوس کر رہا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔ کیوں کہ ریاست انھیں اور فوجیوں کو اچھا کھانا اور کیمپ کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ والی صاحب نے پھر پوچھا کہ کیا انھیں کبھی مقامی عمائدین کی طرف سے دعوت ملی؟ انھوں نے جواب دیا: ’’نہیں!‘‘ والی صاحب حیران رہ گئے کہ جب چکیسر کے لوگ بالعموم اور چاروں قبیلوں کے خان بالخصوص مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے، تو یہ کیسے ممکن ہوا؟ روایتاً ان کا فرض تھا کہ وہ گاؤں سے گزرنے والے ہر مسافر یا مہمان کی مہمان داری کریں۔ بعض خان تو مسافروں کو باقاعدہ تلاش کرتے اور انھیں اپنے حجرے میں لے جاکر کھانے کی دعوت دیتے۔ بہ ہرحال، والی صاحب اس غیر متوقع طرزِ عمل سے بہت ناخوش ہوئے اور مقامی خانوں کی طرف سے تیار کردہ دوپہر کے کھانے کو قبول کیے بغیر واپس دارالحکومت لوٹ گئے۔
تقریباً تین سال بعد، مَیں چکیسر میں ایک 10 بیڈ کے ہسپتال کی تعمیر کی نگرانی کے لیے موجود تھا، جس میں ایک آپریشن تھیٹر بھی شامل تھا۔ مقامی خان بہت مہربان اور خیال رکھنے والے تھے۔ حالاں کہ مَیں اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ رہتا تھا، جو ڈسپنسری کا انچارج تھا۔ ان کا نام ڈاکٹر سلطان محمد تھا اور وہ سیدو شریف کے ایک نیک نام خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ والی صاحب چکیسر میں زیرِ تعمیر ہسپتال کا معائنہ کرنے کے لیے آئے۔ وہ میری کارکردگی سے خوش تھے اور پھر مجھے سکول کے ہال میں لے گئے، جہاں چائے کا انتظام کیا گیا تھا اور مہربانی سے مجھے اپنے سامنے والی کرسی پر بٹھایا۔
پیارے قارئین، ایسے تھے ہمارے مہربان حکم ران!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے