میاں گل فروش کی ناقابل فراموش خدمات

Blogger Sajid Aman

چشمِ تصور میں لائیں ریاستِ سوات کا وہ دور جب پاکستان سے اخباردوسرے روز پہنچتا تھا، جہاں تعلیم اتنی عام نہیں تھی۔ پڑھنے والے کم تھے، اس لیے ایک ہی ہفت روزے کا اجرا ہوتا تھا اور ایک ہی شخص مالک، پبلشر، ایڈیٹر، کانٹینٹ کرئیٹر، رپورٹر اور ڈسٹری بیوٹر ہوتا تھا۔ اندازہ لگائیں اُس ایک شخص میں کتنا جذبہ، کتنی ہمت اور کتنی لگن ہوتی ہوگی!
جی ہاں وہ تھے قندیل مدین کے رہنے والے میاں گل فروش، جنھوں نے سوات کے پہلے اخبار ’’ہفت روزہ فلک سیر‘‘ کا خواب دیکھا اور پھر اُس خواب کو عملی شکل دے کر ہی دم لیا۔ باقاعدہ اخبار نکالا، خود اُس کے مالک، خود ایڈیٹر، خود رپورٹر، خود پبلشرحتی کہ اُس کے تقسیم کار بھی خود ہی بنے۔
میاں گل فروش (میاں صاحب) صحافی اقدار اور تعلیمی روایات کے داعی تھے۔ صحافت کو صحیح معنوں میں معاشرے میں اخلاقی، معاشرتی، علمی و ثقافتی بہتری اور تربیت کے لیے ایک مضبوط و موثر ذریعہ سمجھتے تھے۔ اُن کے دور میں مالی طور پر نقصان میں چلنے والا یہ ادارہ کسی معاشی فائدے کی نیت سے تخلیق نہیں کیا گیا تھا، بل کہ اس کا اصل مقصد تعلیمی و اخلاقی تربیت کے ساتھ علم کے حصول کی اہمیت واضح کرنا بھی تھا۔
میاں صاحب نے اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ بدیں وجہ اُن کے ایک برخوردار سابق ڈی اُو آر الطاف حسین صاحب ہیں۔ دوسرے قانون دان سردار حسین ایڈوکیٹ ہیں، جو سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔
میاں صاحب پیشہ ورانہ طور پر ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن ریاستِ سوات رہے۔ یہ عہدہ خود ریاستِ سوات کی جانب سے سکول اور کالج کے طلبہ اور ریاست کے طول و عرض میں ہر جگہ کھیل کود کے میدانوں کے قیام اور کھیلوں کی اہمیت کا اعتراف تھا اور میاں صاحب ذہنی، علمی اور جسمانی نشو و نما کے ذمے دار رہے اور یہ فریضہ بہ خوبی انجام دیا۔
سمارٹ، ہینڈسم اور خوش لباس میاں صاحب نے ریاستِ سوات میں جہاں صحافت کی بنیاد رکھی، وہاں فزیکل ایجوکیشن، جسمانی تعلیم اور کھیلوں کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات بھی انجام دیں۔
یہ میاں صاحب کی شخصیت کا سحر اور خوب صورتی ہی تھی کہ بہت سے نوجوانوں نے تعلیم پوری کرکے فزیکل ایجوکیشن میں جانے کا فیصلہ کیا۔ سوات کے بابائے سکاوٹ شاہ زادہ استاد صاحب (مرحوم)، بابائے ملٹری فصل معبود استاد صاحب، سرفراز خان استاد صاحب اور فضل غفار استاد صاحب وہ لوگ تھے، جن کو آپ کی قابلیت، محنت، ڈسپلن اور شخصیت نے متاثر کیا اور وہ سب فزیکل ایجوکیشن کی طرف راغب ہوئے۔ اس سے سوات میں ملٹری، سکاؤٹ اور گرلز گائڈ کی بنیادیں بڑی مضبوطی سے قائم ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فٹ بال، ہاکی، لان ٹینس، سکواش، باسکٹ بال، بیڈمنٹن، کشتی، منکی بار سمیت سپورٹس کمپلیکس اور جمنازیم کا تصور برٹش انڈیا میں ریاستِ سوات میں نہ صرف موجود رہا بل کہ روز افزوں ترقی کرتا گیا۔
قارئین! ریاست سوات کا سنہری دور یاد کرتے ہوئے گراسی گراؤنڈ، کبل گراؤنڈ اور ہر تحصیل میں ریاست کے قائم کردہ گراؤنڈز کے پاس سے گزرتے ہوئے میاں گل فروش (مرحوم) کو ضرور یاد کیجیے۔ کہیں سکاؤٹس گروپ، سکولوں میں ملٹری ٹریننگ اور گرلز گائیڈ کا ذکر سنیں، تو میاں صاحب اور ریاستِ سوات کو خراجِ تحسین پیش کریں۔
اس طرح سوات، شانگلہ اور بونیر میں کہیں صحافت کا ذکر ہو، تو میاں گل فروش (مرحوم) کو ان کے مقصد اور قربانیوں کے صلے میں اچھے الفاظ میں یاد کرنے کی کوشش کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے