مغربی افریقہ کے تین ممالک مالی، برکینا فاسو اور نائجر 20ویں صدی میں فرانس کی کالونی تھے، لیکن افریقہ کے بیش تر ممالک کے طرح یہ بھی پورے طریقے سے ’’ڈی کولونائزڈ‘‘ نہیں ہوئے۔ یہ ممالک 21ویں صدی میں بھی فرانسیسی اثر و رسوخ کے زیرِ سایہ رہے۔ 2020ء میں ساحل کے ان ممالک میں فوجی بغاوت کے ذریعے حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 2020ء ہی میں فوجی بغاوت کا آغاز مالی سے شروع ہوا۔ 2021ء میں برکینا فاسو اور 2022ء میں نائیجر میں فوج نے اقتدار سنبھالا۔ فوج کا اقتدار میں آنا افریقہ میں کوئی خاص بات نہیں۔ کیوں کہ افریقہ میں متعدد ڈکٹیٹر آئے اور ظالم حکم رانی کے نقوش چھوڑ گئے، جن میں یوگنڈا کا ’’عیدی آمین‘‘ سرِفہرست تھا۔ افریقہ کی یہ تین فوجیں بغاوتیں پرانی بغاوتوں سے منفرد ہیں۔ سوشلسٹ دانش ور ’’وجے پرشاد‘‘ لکھتے ہیں کہ جب فوج میں ٹاپ کیڈر کا جنرل بغاوت کرتا ہے، تو وہ سامراج کا آلۂ کار ہوتا ہے، لیکن جب جونیئر کیڈر افسر بغاوت کرتا ہے، تو وہ سامراج مخالف ٹھہرتا ہے۔
پرشاد سینئر افسر کی بغاوت کو "General Coup" اور جونیئر افسر کی بغاوت کو "Colonel Coup" کا نام دیتے ہیں۔
آج کے دور میں دیکھیں، تو مصر کا جنرل ’’فتح سیسی‘‘ سامراج دوست اور برکینا فاسو کا کیپٹن ’’ابراہیم تراورے‘‘ اپنے ملک کو فرانس کے استعمار سے آزاد کرنے کی جد و جہد کر رہا ہے۔
20ویں صدی میں جمال ناصر، قذافی اور صدام جونیئر آفیسر تھے، جو اقتدار پر براجمان ہوئے اور سامراج دشمن ثابت ہوئے۔ وجے پرشاد کی تھیوری کا یہاں یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ سینئر آفیسر جن سیڑھیوں پہ چڑھ کر جہاں پہنچتا ہے، وہاں سے انھی سیڑھیوں کو وہ گرانا نہیں چاہتا، جب کہ جونیئر افسر کم عمر اور حالات کو بدلنے کی جستجو رکھتا ہے۔
مالی، برکینا فاسو اور نائیجر کو (ساحل) کے ممالک کہا جاتا ہے۔ مغربی افریقہ کے یہ ممالک "Landlocked" ہیں۔ ان ممالک کی سمندر تک رسائی نہیں۔ ان ممالک نے 2023ء میں فرانس کے کنٹرول کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور "ECOWAS" (جو مغربی افریقہ کی ممالک کی تنظیم تھی) سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔"ECOWAS" کو بائیں بازو کے حلقوں میں امریکہ نواز تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ افریقہ کے یہ تین ممالک اب ایک دوسرے کے قریب ہیں اور اس تنظیم کی جگہ اب "Alliance of Sahel States" لے چکی ہے۔ یہ ممالک اب ایک کنفیڈریشن ہیں، جن کا مقصد "Pan Africanism" ہے۔ 20ویں صدی میں افریقہ کو یک جا کرنے والے بہت سارے لیڈر آئے اور امریکہ کے ہاتھوں یا تو اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا پھر مارے گئے۔ اُن میں نوجوان کمیونسٹ لیڈر ’’تھامس سنکارا‘‘ بھی تھے، جن کو 1987ء میں مارا گیا۔ سنکارا، افریقہ کو متحد کرنے میں پیش پیش تھے۔ کمیونسٹ نظریات اور سامراج مخالفت ان کے اقتدار اور دنیا سے رخصتی کی وجہ بنی۔وہ 38 سال کی عمر میں مارے گئے تھے۔ اُن کی جگہ اسی برکینا فاسو کا 37 سال کا نوجوان اب اقتدار پر براجمان ہے۔ ابراہیم تراورے ، کامریڈ سنکارا کے مشن کو وہاں سے شروع کر رہا ہے، جہاں پہ چھوڑا گیا تھا…… لیکن فرانس کو یہ منظور نہیں کہ کوئی افریقی اُن سے اپنے وسائل پہ بات کرے۔ چناں چہ فرانس امریکہ سے مل کر تراورے کو اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے۔ AFRICOM (امریکی فوج کا افریکن کمانڈ) کے سربراہ جنرل لینگلے نے امریکی سینیٹ میں ایک بیان دیا ہے، جس میں وہ کہتا ہے کہ برکینا فاسو افریقہ میں چین اور روس کا استعمار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ وہ بہانے ہیں، جو امریکہ دوسرے ممالک میں اپنی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کے لیے ڈھونڈتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ان ممالک نے ’’فرینچ امپیرئل ازم‘‘ کے خاتمے کا فیصلہ کیوں کیا؟ انٹرنیشنل ریلیشن (IR) میں ایک اصطلاح "Francafrique" استعمال کی جاتی ہے، جس کا مطلب فرانس کی اپنی اور بلجیم کی پرانی کالونیوں پر تسلط قائم رکھنا ہے۔ فرانس کا اپنی پرانی کالونیوں کے ساتھ یہ طرزِ عمل "Neocolonialism" میں آتا ہے، یعنی کالونیوں کے اوپر زمینی قبضے کی جگہ کارپوریشن کے ذریعے ان کے ذخائر پر قبضہ کرنا۔ امریکہ نے فرانس کی پالیسی ہمیشہ سپورٹ کی، تاکہ چین اور روس افریقہ میں قدم نہ رکھ سکیں۔ اس وقت نائیجر میں یورینیم، ٹن، فاسفیٹ، برکینا فاسو میں کاپر، زنک اور مینگنیز جب کہ مالی میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ان تینوں ممالک کے پاس سونے کے وافر ذخائر بھی ہیں۔
کیپٹن ابراہیم تراورے اب فرانس کی جگہ ان ذخائر کو نکالنے کے لیے روس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ساحل کے ممالک ایک عرصے سے دہشت گردی سے کافی متاثر چلے آ رہے ہیں۔ روس میں پوٹن کے سامنے تراورے نے کہا کہ آج ہم جس دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں، وہ سامراج کی طرف سے ہے۔ مغربی افریقہ میں دہشت گردی کے واقعات کا فائدہ مغربی ممالک کو ہوتا ہے۔ ایک غیر مستحکم ملک میں فوجی مشن بھیجنا اور وہاں سے وسائل نکال کے لے جانا قدرے آسان ہوتا ہے۔
ابراہیم تراورے اس وقت دنیا کے سب سے کم عمر ترین سربراہِ مملکت ہے، جس کی عمر محض 37 سال ہے۔ اُس کی بہت ساری پالیسیاں تھامس سنکارا کے ادھورے کام ہیں۔ ایک ارب ڈالر راعت کے لیے مقرر کیے گئے، تاکہ پیداوار بڑھائی جاسکے۔ مائنز اور منرلز کو ’’نیشنالائزڈ‘‘ کیا گیا۔ مائنز کا ٹھیکا روسی اور چائنیز کمپنیوں کو دیا گیا۔
تراورے کے ابتدائی کاموں میں برکینا فاسو کا پہلا سٹیٹ بینک، کسانوں کے لیے فری ٹریکٹروں کی فراہمی، بیج اور کھاد پر کسانوں کے لیے سبسڈی، دو مسافر جہاز اور دیگر اصلاحات شامل ہیں۔
برکینا فاسو اس وقت دنیا میں سونے کی پیداوار میں 13ویں نمبر پر آتا ہے، لیکن سامراج کی لوٹ مار کی وجہ سے اس کا جی ڈی پی صرف 18 ارب ڈالر ہے۔ تراورے کہتا ہے کہ وسائل سے مالا مال افریقہ دنیا کا غریب ترین خطہ کیوں ہے؟ افریقی حکم رانوں کو سامراج کے سامنے کٹھ پتلیاں نہیں بننا چاہیے۔
اس وقت برکینا فاسو کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ قذافی کے بعد لیبیا اب افریقی ممالک کو دہشت گردی برآمد کر رہا ہے۔ اس وقت ملک کے کچھ علاقوں پر القاعدہ کا قبضہ ہے۔ القاعدہ کی کارروائیوں سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ان سب سے سامراجی قوتوں کو ان ممالک پر چڑھائی کا جواز مل جاتا ہے، جہاں ان کی موجودگی ہو۔ استعماری قوتوں کے نزدیک دہشت گرد وہ ہوتا ہے، جو اپنے ذخائر ملٹی نیشنل کارپوریشن کے لیے نہیں کھولتا۔ جیسے کہ شام کا احمد آل شرا جس کے سر کے اوپر امریکہ نے قیمت مقرر کی تھی اور آج صدر ٹرمپ نے اس کو ’’ہینڈ سم‘‘ کَہ کر بات ہی ختم کردی۔ برکینا فاسو کے پروگریسیو گورنمنٹ کا خاتمہ کرنے کے لیے امریکہ اور فرانس افریقی ملک آیوری کوسٹ سے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ خود تراورے کہتا ہے کہ امریکی فلموں میں بلیک لوگ ولن کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، اس دفعہ بھی ہمارا سامنا کرنے کے لیے جنرل لینگلے کا انتخاب کیا گیا ہے، جو افریقن امریکن ہے۔
امریکہ اور اس کے یورپین اتحادی بہت ساری چیزوں پر اختلاف رکھ سکتے ہیں، لیکن جہاں تک افریقہ اور تیسری دنیا کے لوگوں کا معاشی استحصال ہو، اُن کو کنزیومر بنانا ہو، مقامی زخائر لوٹنے ہوں، من پسند فوجی آمر ہو، یا جمہوریت کے لبادے میں ایک ڈکٹیٹر کو نافذ کرنا ہو، اس پر ان کا روزِ اوّل سے اتفاق ہے۔ جو کوئی بھی "Pan Africanism" یا "Pan Asianism" کی بات کرتا ہو، وہ سامراج کی آنکھوں میں کھٹکے گا۔ افریقہ کو نکروما، جولیس نائریر، قذافی، پیٹرس لوممابا اور تھامس سنکارا نہیں چاہیے۔ یہ امریکہ کی "Neo Colonial" پراجیکٹ کے راستے کی رکاوٹ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو افریقہ کو متحد کرنا چاہتے تھے، لیکن سامراج کو اپنی کالونیوں میں انسانوں کا بٹوارا، رنگ و نسل کی تفریق، مذہبی لڑائیاں اور تشدد سوٹ کرتا ہے۔ سامراج کو فتح سیسی جیسا ڈکٹیٹر پسند ہے، جو نیتن یاہو کو یہ کہنے کی جرات نہ رکھتا ہو کہ میرے پڑوس میں کیا ہورہا ہے؟
آج فرانس میں ہزاروں لوگ ابراہیم تراورے کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ افریقہ کا ڈارک بر اعظم اب شعوری طور پہ ڈارک نہیں رہا۔ 40سال بعد افریقہ کو دوسرا تھامس سنکارا ملا ہے۔ اب یہ اہلِ افریقہ پہ منحصر ہے کہ ’’ابراہیم‘‘ کو کس طرح ’’سنکارا‘‘ کی موت مارنے سے بچایا جائے؟ کیوں کہ تیسرا سنکارا کل نہیں، بل کہ مدتوں بعد پیدا ہوگا۔
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
