(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
شہزادہ میانگل عالم زیب، میانگل جہانزیب (جو 1949ء سے 1969ء تک سوات کے حکم ران تھے) کے دوسرے صاحب زادے تھے۔ بچپن میں، میاں گل عالم زیب مرگی کے شکار ہوگئے، جو اُس وقت لاعلاج بیماری سمجھی جاتی تھی۔ ان کے والد والی صاحب، اس بیماری کی وجہ سے بہت پریشان اور دل برداشتہ تھے۔ چھوٹے شہزادے کو وقفے وقفے سے دورے پڑتے تھے۔ جب دورہ پڑتا، تو وہ زمین پر لوٹتے رہتے تھے۔ ان کے اعضا مُڑ جاتے تھے اور ان کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ گھر والے بے بسی سے اسے دیکھتے، مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ انھیں کئی ہندوستانی اور برطانوی ڈاکٹروں نے چیک کیا۔ انھوں نے بچے کے علاج کی اپنی پوری کوشش کی۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے ان کا علاج کرنے کی پیشکش کی، لیکن خبردار کیا کہ دورانِ علاج بچے کی بینائی جاسکتی ہے۔ والی صاحب نے اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے با دلِ نہ خواستہ اسے قبول کرلیا۔ ڈاکٹر نے علاج شروع کیا اور کچھ عرصہ بعد دورے ختم ہوگئے، لیکن جیسے کہ پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا، وہ اپنی بینائی کھو بیٹھے۔
چھوٹے شہزادے نے اس مصیبت کا سامنا اپنے مقدر کے طور پر کیا اور اپنی زندگی قرآنِ مجید حفظ کرنے کے لیے وقف کردی۔ ان کی آنکھوں میں روشنی کی اتنی رمق البتہ باقی تھی جس کے ذریعے وہ کاغذ کو اپنی ایک آنکھ کے قریب رکھ کر پڑھ لیتے تھے۔ وہ ریڈیو پر سٹیشن ٹیون بھی کرسکتے تھے۔ انھیں عالمی خبروں کا بہت شوق تھا اور خاص طور پر بی بی سی کی خبریں سنتے، لیکن وہ دیگر معاملات میں بے بس تھے اور ان کا مکمل انحصار اپنے نوکروں پر تھا۔ وہ شام کو ایک ہاتھ اپنے خادم اور محافظ کے کندھے پر رکھ کر مینگورہ تک جاتے تھے۔ ان کی شادی اَپر سوات کے ایک با اثر خاندان کے خان بہادر کی بیٹی سے ہوئی، جس سے ان کے تین بیٹے ہوئے: شہزادہ اکبر زیب، شہزادہ اسلم زیب اور شہزادہ انور زیب۔
میانگل عالم زیب موصوف بہت نیکو کار انسان تھے اور رمضان میں تراویح کی نماز بھی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام تر وسائل کو تعلیم کی ترقی اور طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا تھا۔ انھوں نے ریاست بھر میں سیکڑوں طلبہ میں مفت کتابیں تقسیم کیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں غریب طلبہ اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کی یادداشت شان دار تھی، اور وہ ہر ایک کو، جو ان سے ایک بار ملتا، اس کی آواز سے پہچان لیتے تھے۔ 1961ء میں، مَیں ایک دن ان کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ والی صاحب سے کہیں کہ مجھے ریاست کے کسی بھی محکمہ میں نوکری دے دیں۔ اس وقت مَیں تھوڑا سا بے راہ روی کا شکار تھا اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہا تھا۔ مَیں 18 سال کا تھا اور اپنی زندگی اور اپنی کم زوریوں سے بہت مایوس تھا۔ مَیں نے اپنے والد سے یہ ملاقات خفیہ رکھی۔
شہزادے، جنھیں عام طور پر شاہ زادہ حافظ بہادر کہا جاتا تھا، میری درخواست پر بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے میرے بارے میں جو کچھ بھی جانتے تھے، اتنے کھلے لفظوں میں بیان کیا کہ مَیں بالکل ششدر رہ گیا۔ میں ان کے حجرے سے باہر نکلا، بہت پریشان، یہ سوچتے ہوئے کہ انھیں میرے بارے میں کس نے بتایا؟ مَیں تقریباً گنگ ہوگیا تھا۔ مَیں حیران تھا کہ شہزادے نے مجھ پر اتنا غصہ کیوں کیا؟ حالاں کہ بعد میں انھوں نے اپنے والد (والی صاحب) کے سامنے میری اتنے اچھے الفاظ میں تعریف کی کہ والی صاحب نے مجھے ریاستی پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت کرنے کا موقع دیا۔
ایسے ہی شہزادہ میانگل عالم زیب، حافظ بہادر شاہ زادہ کی مثال ہے کہ کس طرح ’’شریف خون والے‘‘ شاہی گھرانے نے اپنی قوم کی خدمت کی۔ اللہ ان کی روح کو ابدی سکون عطا فرمائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
