اساتذہ کی بے توقیری کا دور

Blogger Engineer Miraj Ahmad

حالیہ دنوں میں تعلیمی میدان میں جو منظرنامہ ابھرا ہے، وہ نہایت افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔ امتحانات کا مقصد صرف نمبروں کا حصول نہیں، بل کہ طلبہ کی صلاحیتوں کا جائزہ لینا اور ان کی فکری تربیت کرنا ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے امتحانی نظام اس مقصد سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ امتحانات میں شفافیت اور دیانت داری کا فقدان اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ بعض مراکز پر تو صورتِ حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ نقل کو معمول سمجھا جانے لگا ہے۔ انتظامیہ کی نااہلی، نگرانی کا ناقص انتظام اور طلبہ کا غیر سنجیدہ رویہ اس بگاڑ کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
جب کسی قوم کا تعلیمی نظام زوال کا شکار ہوجائے، تو اس کے اثرات صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں رہتے، بل کہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہاں تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا رہ گیا ہے، سیکھنے، سوچنے اور اخلاقی تربیت کا پہلو کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانات جیسے سنجیدہ اور نازک مرحلے کو بھی ایک رسمی کارروائی بنا دیا گیا ہے۔ ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں امتحانات کے دوران نقل، بدانتظامی، بدتمیزی اور بے حسی نے تعلیمی عمل کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
امتحانات کے دوران میں نقل کا رجحان جس شدت سے بڑھا ہے، وہ صرف طلبہ کی اخلاقی پستی کو نہیں، بل کہ پورے نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض امتحانی مراکز پر طلبہ نے کھلے عام نقل کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نگرانی پر مامور عملہ خاموش تماشائی بنا کھڑا رہا۔ کہیں سکیورٹی کا انتظام ناکافی تھا، تو کہیں امتحانی پرچوں کے آؤٹ ہونے جیسے سنگین واقعات نے سارا اعتماد متزلزل کر دیا۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ امتحانات کی شفافیت اب ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔
زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس سارے عمل میں اساتذہ کی جو عزت و احترام ہونا چاہیے تھا، وہ بری طرح مجروح ہوا ہے۔ استاد، جو ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں، اُنھیں بے توقیر کرنا گویا پورے تعلیمی نظام کو پامال کرنا ہے۔ کچھ مقامات پر اساتذہ کو دھمکیاں دی گئیں، اُن کے ساتھ بدکلامی کی گئی…… حتیٰ کہ جسمانی طور پر بھی ہراساں کیا گیا۔ ان واقعات پر اکثر اداروں کی خاموشی نے اساتذہ کو مزید بے بس کر دیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے استاد کو اب محض ایک مانیٹرنگ آفیسر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کی رائے، وقار اور تحفظ کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس سارے معاملے کا سب سے دکھ بھرا پہلو وہ ہے، جو اساتذہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے جُڑا ہے۔
جو اساتذہ نقل روکنے کی کوشش کرتے ہیں، اُنھیں دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں طلبہ کی جانب سے بدتمیزی کی جاتی ہے، تو کہیں والدین یا بااثر افراد کی طرف سے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ بعض جگہوں پر تو اساتذہ کو زد و کوب تک کیا گیا، اُن پر حملے ہوئے اور اُنھیں اداروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس تمام تر صورتِ حال میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اکثر خاموش یا غیر سنجیدہ نظر آتی ہے۔ نہ کوئی مناسب قانونی کارروائی ہوتی ہے، نہ اساتذہ کے وقار کو بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی کی جاتی ہے۔
اساتذہ کا یہ مقام کبھی معاشرے میں سب سے معزز سمجھا جاتا تھا۔ ’’استاد کا درجہ روحانی باپ سا ہوتا ہے‘‘ جیسے جملے محض کتابی باتیں رہ گئی ہیں۔ طلبہ اور والدین کا رویہ بھی بدل چکا ہے۔ عزت، شکرگزاری اور سیکھنے کی لگن جیسی اقدار ماند پڑچکی ہیں۔ اس تبدیلی نے اساتذہ کو دل شکستہ اور تعلیمی شعبے کو بے روح بنا دیا ہے۔
اُستاد صرف علم دینے والا فرد نہیں، وہ ایک شخصیت ساز ہے، کردار کا معمار ہے۔ جب استاد کی عزت پامال ہوتی ہے، تو دراصل آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوبا جاتا ہے۔ معاشرہ جب اس قدر بے حس ہو جائے کہ استاد کو معمولی سمجھنے لگے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اخلاقی و فکری زوال کی ابتدا ہوچکی ہے۔ وہ طالب علم جو آج استاد کو دھمکاتا ہے، کل کسی ادارے کا سربراہ بن کر انصاف کیسے کرے گا؟ جس نے ادب سیکھا ہی نہیں، وہ معاشرے میں روشنی کیسے پھیلائے گا؟
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے نے استاد کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ نہ صرف بے اختیار ہوچکا ہے، بل کہ خوف زدہ بھی ہے۔ تعلیمی نظام میں استاد کا کردار محدود کر دیا گیا ہے، جیسے وہ محض ایک کمرائے جماعت کی نگرانی پر معمور فرد ہو۔ اُس کی آواز، اُس کی رائے اور اُس کا تحفظ سب غیر اہم سمجھا جا رہا ہے۔ اُستاد کو درپیش خطرات اور دباو کی وجہ سے بہت سے باصلاحیت افراد تدریس کے شعبے سے دور ہوتے جا رہے ہیں، جوکہ ایک بہت بڑا قومی نقصان ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجتماعی سطح پر اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کریں۔ تعلیمی اداروں کو صرف تعلیم دینے کی جگہ نہیں، بل کہ تربیت گاہ بنانا ہوگا۔ اساتذہ کو باعزت مقام دینا ہوگا، ان کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی کرنا ہو گی، اور طلبہ میں یہ شعور پیدا کرنا ہو گا کہ استاد کا ادب ان کی اپنی شخصیت کی پہچان ہے۔ امتحانی نظام میں بہتری کے لیے سخت قوانین، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور ایمان دارانہ نگرانی ضروری ہے…… لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے دلوں میں استاد کی عزت کو دوبارہ زندہ کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب تعلیمی ادارے صرف عمارتیں رہ جائیں گی، جن میں نہ علم ہوگا، نہ تربیت، اور نہ روشنی۔
اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو نہ صرف تعلیمی معیار گرے گا، بل کہ نئی نسل اخلاقی اور معاشرتی زوال کا شکار ہوجائے گی۔
ہمیں ایک سنجیدہ سوچ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ نظامِ امتحانات میں اصلاحات، اساتذہ کو قانونی تحفظ اور معاشرتی سطح پر تعلیم اور اُستاد کے مقام کو اُجاگر کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بہ صورتِ دیگر ہم ایک ایسے معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں علم تو ہوگا، لیکن تربیت نہی؛ معلومات ہوں گی، مگر شعور نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے