آج بھی ’’بھٹو‘‘ زندہ ہے (شخصی خاکہ)

Blogger Sajid Aman


ہر جنازے اور فاتحے میں موجود مددگار، راہ نمائی کرنے والا، جنازوں میں صفیں درست کروانے والا، فاتحے میں کھڑے ہوکر مدد کرنے والا ایک ہی ہے، ہمارا کلاس فیلو نثار احمد المعروف ’’بھٹو‘‘!
گزرے ہووؤں یا حیات شخصیات کے بارے میں تو بہت لکھا جاتا ہے، آج ہمارے درمیان زندہ و جاوید دوست کے بارے میں لکھتے ہیں۔
یوں تو بھٹو اس وجہ سے ’’متنازع‘‘ ہے کہ ہر کوئی اس کو اپنا کلاس فیلو کہتا ہے، مگر کوئی اُس کو بھٹو کی مستقل مزاجی نہیں کہتا کہ اُس نے ہر سیشن کے لڑکوں کو کمپنی دی اور ایک ہی کلاس میں نئے آنے والوں کو خوش آمدید اور جانے والوں کو خدا حافظ کہتے کہتے کئیوں کے دل جیت لیے۔
گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 بنڑ میں جہانزیب، جہان عالم، خالد خان (اینگرو ڈھیرئی)، خان سردار، رحمت علی، گور بخش لال، کندن لال، کیول رام، امرجیت، زڑہ ور خان، ابنِ آمین، آفرین، فریدون، سجاد، نواب اور کئی دیگر بنڑ سکول کے آس پاس کے علاقوں عیسیٰ خیل ، فتح خان خیل اور نوی کلی وال ہم سب ایک کلاس میں پڑھتے تھے۔ بھٹو اُس وقت اگر مذکورہ افراد کے درمیان خاموش اور آرام سے بیٹھا ہوتا، تو شک پڑتا کہ بیمار ہے۔ زندہ دل اور یار باش لڑکا تھا۔ سکول اُس کو بہت پسند تھا، مگر پڑھائی سے چڑ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شرارتوں سے فرصت ملتی، تو پڑھائی کا نمبر آتا۔
ہمارے سکول کی ہاکی ٹیم بہت مضبوط تھی۔ ہمارے لیے عزت کا مسئلہ بھی تھا۔ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2 حاجی بابا کے ساتھ ہمارا فائنل ’’انڈیا اور پاکستان مقابلہ‘‘ سے کم سنسنی خیز نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا سکول فائنل جیتتا اور اگلے دن چھٹی ہوتے ہی جیت کا جشن منایا جاتا۔ میچ کے دوران میں بھٹو گراؤنڈ سے باہر ساتھ ساتھ دوڑتا اور اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتا۔
ایک دفعہ فائنل میچ میں ہمیں لگا کہ ہمارے ساتھ دھوکا کیا جا رہا ہے۔ ریفری جانب دار ہے۔ہم جیسے ہی ہار گئے، تو شدید ترین احتجاج ہوا۔ پتھراو ہوا اور لڑکوں نے گول پوسٹ سے نیٹ اُتار کر جلا دیے۔ بھٹو بہت جذباتی تھا۔ ’’زندہ باد، مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ سب کا خون گرما رہا تھا۔ مطالبہ تھا کہ دوبارہ مقابلہ کروایا جائے۔
اسی اثنا میں جذباتی ہوکر بھٹو نے ’’ناگن رقص‘‘ شروع کیا۔ اُس کے گرد ایک مخلوق جمع تھی۔ شام کے سائے گہرے ہوگئے۔ آگ کے الاو روشن تھے۔ بھٹو کی غصے سے آنکھیں لال بھبھوکا تھیں۔ اگلی صبح محتاج ہیڈ ماسٹر صاحب (مرحوم) کسی بھی قسم کی غداری، دھوکے یا جذبات کو نہیں مان رہے تھے۔ دوسرا کوئی مجرم پکڑا نہیں گیا۔ ڈنڈے پڑتے رہے۔ بھٹو سے پوچھا جاتا رہا کہ کون کون شامل تھا اس معاملے میں؟ بھٹو حیرت سے اِردگرد دیکھ رہا تھا، مگر سکول اسمبلی میں تو گویا کسی ایک بھی شخص کے علم میں نہیں تھا کہ کل کیا ہوا تھا؟ سب لاتعلقی سے تماشا دیکھتے رہے۔ آگ بھڑکائی بھٹو نے تھی ضرور، مگر لگائی ہرگز نہیں تھی۔
بھٹو نے اُس موقع پر کسی کا نام نہیں لیا۔ کافی دیر ناراض رہا۔ پھر اُسے سب نے منا لیا۔
بھٹو بہت ہی خودار انسان ہے۔صاف گو اور مددگار، بوجھ اُٹھانے والا۔ جہانزیب کالج میں پہنچ کر بھی وہ بالکل نہیں بدلا۔ وہاں اُس کے ساتھ اور بھی دوست شامل ہوگئے۔ غلام فاروق (مرحوم) کالج میں تھا۔ اس کے گروپ کے ساتھ الحاق ہوا۔ نوید، قاسم (جرنلسٹ) بھی شامل ہوئے۔ پھر غلام فاروق ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کا چیئرمین منتخب ہوا۔ بائی ڈیفالٹ بھٹو بھی اُس میں شامل ہوگیا۔ اب وہاں سٹڈی سرکل کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
ایک دن بھٹو نے کہا کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں۔ یہ تو ہمارے گپ شپ کے لیے ایک طرح کی فیڈریشن ہے۔یہ کہا بھی، تو ودودیہ ہال کے باہر ڈی ایس ایف کی میٹنگ میں۔ اُس موقع پر مکمل خاموشی چھاگئی۔
ایک دفعہ جہانزیب کالج میں امتحانات چل رہے تھے۔ انسپکشن والے آئے۔ ہیڈ، بریف کیس میں نقل پر نقل اُتار رہے تھے۔ آدھے سے زیادہ لوگ دھر لیے گئے۔ پھر ’’سپائیڈر مین‘‘ (بھٹو) کو خبر ہوئی۔ جیسے ہی انسپکشن ٹیم ٹاپ فلور سے اترنے لگی، تو بھٹو پیچھے سے اُن پر جھپٹ پڑا اور جان داو پر لگا کر لڑھکتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے گر گیا۔ لوگ سمجھے بھٹو کی روح پرواز کرنے والی ہے…… مگر بریف کیس اُس کے ہاتھ میں تھا، اُٹھا اور کالج کے گیٹ سے باہر نکل کر رفو چکر ہوگیا۔
کالج انتظامیہ، پولیس اور انسپکشن ٹیم سب آپے سے باہر تھے، مگر بھٹو نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ آخر ہیڈ آف انسپکشن ٹیم نے کہا کہ اُس بریف کیس میں بہت ضروری کاغذات کے ساتھ میری عینک بھی ہے۔ وہ مجھے واپس دلوا دیں۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی کیس نہیں بنے گا ۔
پھر بھٹو ایک عدد پھول اور بریف کیس کے ساتھ کہیں سے وارد ہوا اور بریف کیس مع پھول ہیڈ کی خدمت میں پیش کیا۔ وعدے کے مطابق پروفیسر صاحب نے سارے کیس بھٹو کے سامنے جلا دیے۔ اُسے ڈانٹ پلائی اور گلے لگایا۔
لوگوں کو سمجھ نہیں آئی کہ ایسے موقع پر کیا ردِعمل دینا ہے؟ تالیاں بجیں اور ’’بھٹو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگے۔
عملی زندگی بہت سخت اور ظالم ہوتی ہے۔ اس نے بھٹو پر بھی سنجیدگی طاری کر دی۔ اَب تاج چوک کی دُکان میں بیٹھا کوئی بھی اُس کے سامنے سے گزرتا ہے اور جاننے والا ہے، تو بھٹو اُسے ایسے گزرنے دینے والا نہیں۔
اَب مینگورہ شہر میں کہیں جنازہ ہو، کہیں فاتحہ خوانی ہو، ’’بھٹو‘‘ ضرور موجود ہوگا۔ نہ صرف موجود ہوگا بل کہ مدد بھی کر رہا ہوگا، نیز بزرگوں کو سہارا دے رہا ہوگا اور احترام سے سلام کر رہا ہوگا۔
خوش باش انسان، زندہ دل ’’بھٹو‘‘ کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر کبھی کبھی وہ کہانی یاد آنے لگتی ہے جو وقت ہر انسان کی لکھتا ہے بے رحمی کے ساتھ، مگر بھٹو اپنی مسکراہٹ میں آج بھی اپنی کہانی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔
بھٹو، غلام فاروق (مرحوم) کا فرسٹ کزن بھی ہے، مگر اُس کے ساتھ دوستی کا تعلق رشتے داری سیمضبوط تھا۔ بھٹو کے بغیر کوئی جنازہ مینگورہ میں ممکن نہیں، جب تک بھٹو ایک ایک صف درست نہ کرلے، اُسے چین نہیں آتا۔
مستعد، بے غرض اور پُرخلوص نثار احمد ’’بھٹو‘‘ یوں ہی مستعد رہے، یہ میری اُس چھلاوے کے لیے دعا ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے