ہندو کش ہمالیہ کی فریاد

Blogger Fazal Khaliq

برف ہمیشہ خاموش رہی ہے۔ نہ کبھی کوئی شکوہ، نہ کبھی کوئی شور۔ پہاڑوں پر چپ چاپ گرتی ہے۔ پھر چپ چاپ پگھل کر ہماری پیاسی زمین کو زندگی دیتی ہے۔ کھیتوں میں ہریالی اسی سے آتی ہے۔ دریاؤں میں روانی اسی کے دم سے ہے، اور ہر وہ قطرہ جو کسی پیاسے کے ہونٹوں کو چھوتا ہے، کبھی نہ کبھی اسی برف کی آغوش سے نکلا ہوتا ہے، مگر ہم نے اس خاموشی کو شاید کبھی سننے کی کوشش ہی نہیں کی۔
ہم نے اسے ہمیشہ لیا، مگر کبھی پلٹ کر اسے دیکھا نہیں۔ اس کے بغیر جینے کا تصور تک نہیں، لیکن اس کی موجودگی کو کبھی غنیمت نہیں جانا…… اور اب، جب وہ خاموشی ایک فریاد میں بدل چکی ہے، تو بھی ہم سننے کے لیے تیار نہیں۔
ہندوکش ہمالیہ کی پہاڑیاں، جن کی چوٹیاں صدیوں سے برف سے ڈھکی رہتی تھیں، اب آہستہ آہستہ ننگی ہو رہی ہیں۔ پہاڑوں کی وہ سفید چادریں جو قدرت کی حفاظت کی علامت تھیں، اب دن بہ دن پتلی ہو رہی ہیں، گھٹتی جا رہی ہیں۔ ہندو کش وہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں موجود ہزاروں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
’’انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ‘‘ (ICIMOD) کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2024-25ء کے موسمِ سرما میں برف کی مقدار 23.6 فی صد کم ہوچکی ہے۔ یہ محض ایک فی صد نہیں، یہ ایک چیخ ہے۔ ایک چیخ جو ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے، لیکن ہم شاید اب بھی سوئے ہوئے ہیں۔
تصور کریں تبت کے اُن میدانوں کا، جہاں ایک زمانے میں برف کی تہیں معمول سے کہیں زیادہ ہوتی تھیں۔ اب وہاں برف 29 فی صد کم ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں کہ نظارے بدل رہے ہیں، بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی، جو کبھی کھیتوں کو سیراب کرتا تھا، اب بہنے سے قاصر ہے۔ گنگا، برہم پتر، سندھ یہ ذیلی دریا جو کبھی سینہ تان کر بہتے تھے، اب سسکنے لگے ہیں۔ ان کے کنارے بسنے والے کسان، جن کے خواب پانی سے بندھے تھے، اب اپنی زمین کو خالی نظروں سے تک رہے ہیں۔
برف باری کے کم ہونے کا یہ ریکارڈ، کئی اہم دریاؤں کے طاس (Basin) میں نمایاں کمی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
2025ء میں برف کی موجودگی میں کمی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
٭ میکانگ طاس: 51.9فی صد کمی۔
٭ سالوین طاس:48.3 فی صد کمی۔
٭ تبت کے میدان:29.1 فی صدکمی۔
٭ برہم پترا طاس:27.9 فی صدکمی۔
٭ یانگزی طاس:26.3 فی صدکمی۔
٭ گنگا طاس:24.1 فی صدکمی۔
٭ سندھ طاس:16.0 فی صدکمی۔
٭ ہلمند طاس:15.2 فی صدکمی۔
٭ آمو دریا طاس:18.8 فی صدکمی۔
٭ زرد دریا (ییلو ریور) طاس: 18.6 فی صدکمی۔
٭ تریم طاس: 4.0 فی صدکمی۔
یہ اعداد وشمار اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ برف کی مقدار میں کمی ایک وسیع مسئلہ بن چکی ہے اور کچھ علاقے اس سے خاص طور پر شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
’’انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ‘‘ ایک بین الحکومتی علمی اور تربیتی ادارہ ہے، جو ہندوکش ہمالیہ (HKH) خطے کے عوام کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کا ہیڈ آفس کھٹمنڈو، نیپال میں واقع ہے۔ یہ ادارہ اپنے 8 رکن ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان کے لیے خدمات انجام دیتا ہے۔
پاکستان میں تو صورتِ حال اور بھی سنگین ہے۔ ہمارے پہاڑوں میں ہزاروں گلیشیر ہیں اور یہی ہمارا خزانہ ہیں۔ یہی وہ خزانہ ہے، جو ہمیں خشک سالی سے بچاتا ہے۔ گرمیوں میں دریاؤں کو زندہ رکھتا ہے اور ہمیں بجلی دیتا ہے…… مگر اب یہ گلیشیر دن بہ دن کم زور ہو رہے ہیں۔ گلگت، چترال، دیر، سوات سب جگہ گلیشیر سے نکلنے والی جھیلیں بن رہی ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر بربادی لا سکتی ہیں۔ ایسے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ دیہات بہہ چکے ہیں۔ لوگ ہجرت کرچکے ہیں اور خطرہ اب بھی موجود ہے۔
اُدھر سندھ اور بلوچستان جیسے علاقے، جہاں پانی پہلے ہی کم تھا، اب مکمل طور پر پیاسے ہوچکے ہیں۔ سندھ، جو دریائے سندھ کے پانی پر جیتا ہے، اب پکار رہا ہے۔ کھیت بنجر ہو رہے ہیں۔ مویشی مر رہے ہیں۔ کنویں سوکھ رہے ہیں اور لوگ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ہمارے کسان، جو ہر سال ایک اُمید کے ساتھ بیج بوتے ہیں، اب بڑی آس کے ساتھ آسمان کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر برف نہیں گرے گی، پانی نہیں بہے گا، تو ان کے بیج کیسے اُگیں گے، ان کے بچے کس امید سے اسکول جائیں گے، ان کے گھر کا چولھا کیسے جلے گا؟
پھر ہماری بجلی…… منگلا اور تربیلا جیسے ڈیم اگر بھر نہ سکے، تو کہاں سے آئے گی روشنی، کیسے چلے گی فیکٹری، کہاں سے آئے گا روزگار……؟ اور جب بجلی بند ہوگی، تو صرف پنکھا نہیں رُکے گا، ایک پورا نظامِ زندگی رُک جائے گا۔
اور سب سے بڑھ کر یہ سب تبدیلیاں ہمیں ایک بڑے سوال کی طرف لے جا رہی ہیں: کیا یہ سب کچھ فطرت کا انتقام ہے؟ کیا ہم نے زمین کے ساتھ، پہاڑوں، درختوں اور برف کے ساتھ جو کیا، اب وہی پلٹ کر ہمیں سزا دے رہا ہے؟ موسمی تبدیلی صرف موسم کی بات نہیں، یہ زندگی اور موت کی کہانی بن چکی ہے۔
مگر کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم جاگ جائیں؟ کیا اب بھی ہم صرف رپورٹیں پڑھ کر فائل بند کر دیں گے یا اس بار کچھ مختلف کریں گے؟ ہمیں پانی کی ایک ایک بوند بچانی ہو گی۔ ہمیں اپنے کھیتوں میں ایسے نظام لانے ہوں گے، جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دے سکیں۔ ہمیں پہاڑوں میں تحقیقاتی مراکز قائم کرنے ہوں گے، جو گلیشیر کی صحت کا خیال رکھ سکیں۔ ہمیں اپنی تعلیم میں ماحولیاتی شعور شامل کرنا ہوگا، تاکہ ہماری نئی نسل جان سکے کہ زمین ماں ہے اور ماں سے صرف فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا، اُسے سنبھالنا بھی ہوتا ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ کسی ایک ملک، ایک قوم یا ایک علاقے کا نہیں۔ یہ ایک مشترکہ سانحہ ہے اور اس کا حل بھی صرف اجتماعی کوشش ہی میں ہے۔ ہمیں اپنی حکومتوں، اداروں اور عوام کو یک آواز بنانا ہوگا۔ ہمیں وہ زبان بولنی ہوگی جو برف سمجھتی ہے: خاموشی سے محبت، اور عمل سے خلوص۔
کیوں کہ اب برف ہم سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے:’’مَیں نے تمھیں زندگی دی، اب تم مجھے زندگی دو۔ مَیں تمھیں پانی دیتی رہی، اب تم مجھے بچاؤ!‘‘
اور اب یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم سننا چاہتے ہیں یا نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے