ڈی سی سوات شہزاد محبوب کے نام کھلا خط

Blogger Comrade Amjad Ali Sahaab

جناب ڈپٹی کمشنر سوات، اُمید ہے آپ بہ خیر و عافیت ہوں گے!
اور اگر ہم اپنی کہیں گے، تو ہوسکتا ہے کہ آپ صاحبان کے طبعِ نازک پر ناگوار گزرے، مگر اتنا ضرور کہے دیتے ہیں کہ آپ کی سرکار میں ہم عوام کی حالت ’’نیم پاگل‘‘ کی سی ہوگئی ہے۔
اب آپ صاحبان سوچیں گے کہ وہ کیسے؟ تو چلیے، آپ کی یہ مشکل بھی یہ نیم پاگل ہی حل کیے دیتا ہے۔
جنابِ والا! کسی روز اپنے ٹھنڈے دفتر سے نکلنے کی زحمت فرما کر تھوڑا مینگورہ شہر میں پیدل گھومنے کا ارادہ باندھیے۔ آپ کو لگ پتا جائے گا کہ یہاں موٹر بائیک پر گھومنے والے لونڈوں نے بائیک کے سائیلنسر کے ساتھ پتا نہیں کیا چھیڑ چھاڑ کی ہوتی ہے کہ جیسے ہی وہ اپنی بائیک کو ایکسیلریٹ کرتے ہیں اور کسی بندۂ خدا کے پاس سے گزرتے ہیں، تو اگلے ہی لمحے وہ بے چارا اپنے ذہن پر ہتھوڑے کی ضرب جتنی تکلیف محسوس کرتا ہے۔
جنابِ والا! بات یہاں تک ہوتی، تو بھی آپ صاحبان کو یہ تپا ہوا خط پڑھنے کی زحمت نہ دیتا۔ بعض لونڈے تو بائیک دوڑاتے ہوئے مذکورہ عمل کے ساتھ پریشر ہارن کا آزادانہ استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں، جو عوام کے ذہن پر ہتھوڑے کی ایک اور ضرب جیسا عمل محسوس ہوتا ہے۔
جنابِ من! بتاتا چلوں کہ پریشر ہارن کا مسئلہ صرف بائیک دوڑاتے لونڈوں کا نہیں ہے۔ اُن غیر مقامی اور کم سن رِکشا ڈرائیوروں نے بھی اہلِ مینگورہ کا ناک میں دم کر رکھا ہے، جو دس پندرہ سیٹ والے رِکشے مینگورہ کی سڑکوں پر دوڑاتے ہیں اور ہر راہ چلتے کو ’’سواری‘‘ سمجھ کر ہارن بجانا اپنا بنیادی، بل کہ پیدایشی حق مانتے ہیں۔
جنابِ عالی! اہلِ مینگورہ کو پاگل بنانے اور بڑے بوڑھوں کے آرام میں خلل ڈالنے میں آج کل ایک اور عمل کا قابلِ قدر حصہ ہے، اور وہ ہے رات 10 بجے کے بعد بے تکی اور بے ہنگم ’’آتش بازی‘‘۔
جنابِ من! پچھلے ایک ہفتے سے ایسی کوئی رات خالی نہیں گئی، جب کسی نودولتیے کی ’’شادی خانہ آبادی‘‘ میں آتش بازی کے نام پر طوفانِ بدتمیزی بپا نہ کیا گیا ہو!
جنابِ من! آپ صاحبان کا بنگلہ ساؤنڈ پروف ہوگا، مگر ہم جیسے کنگلوں، بھوکوں اور فاقہ زدوں کے گھر کے باہر کوئی چھوٹے سے چھوٹا پٹاخا بھی پھوڑے، تو ہمارے نہ صرف بڑے بوڑھے چونک جاتے ہیں، بل کہ بچے بھی سہم جاتے ہیں۔
جنابِ من! قصداً یہاں آپ صاحبان کے بنگلے کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ پچھلے ایک ہفتے سے اہلِ مینگورہ کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں، کئی تو باقاعدہ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، بڑے بوڑھے جن کی اچھی خاصی تعداد دل کے عارضے میں مبتلا ہے، اُنھیں آرام کی ضرورت ہوتی ہے، مگر آپ صاحبان اپنے ساؤنڈ پروف شبستان میں گھوڑے بیچ کر آرام فرما ہوتے ہیں، پٹاخا تو کیا، شاید بم کی بھی آواز آپ تک نہیں پہنچ پاتی، اس لیے آپ ہم جیسے کنگلوں کا درد کیسے محسوس کرسکتے ہیں؟
جنابِ والا! خط کا لہجہ تپا ہوا محسوس ہو، تو برداشت کیجیے گا، کیوں کہ مجھ جیسے لاکھوں کنگلوں کی جیب سے ادا ہونے والے ٹیکس سے ملکی خزانہ بھرتا ہے۔ اُسی خزانے سے آپ صاحبان نہ صرف موٹی تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں، بل کہ سخت ترین گرمی میں یخ بستہ دفتر، انٹر کولر گاڑی، پروٹوکول، ہم جیسے کنگلوں کو مرعوب رکھنے کی خاطر چھے سات کمانڈو ٹائپ گارڈ اور پتا نہیں کیا کیا کچھ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
جنابِ من! مجھے رقم کرنے دیجیے کہ یہ سب کچھ آپ صاحبان کو عوام کی خدمت کے عوض میسر ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ عوام کو اپنی موجودگی کا احساس دلائیں۔ رِکشوں اور گاڑیوں کے پریشر ہارن اور ذہن پر ہتھوڑے برساتی بائیکوں کے ساتھ بعد میں نپٹ لیجیے گا، سرِ دست ہر رات 10 بجے کے بعد ’’آتش بازی‘‘ اور چھوٹے بڑے پٹاخے پھوڑنے کے قبیح عمل پر پابندی لگائیں۔
اگر آپ ایسا کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں، تو یہ آپ کا ہم پر بالکل احسان نہیں ہوگا، بل کہ آپ کو اپنا فرض بہ طرزِ احسن نبھانے کی توفیق حاصل ہوجائے گی۔
جنابِ من! خوش رہیں، اپنے خرچے سے…… کیوں کہ ہم تو ٹھہرے کنگلوں کے کنگلے!
والسلام……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے