زندگی بدلنے والی کتابوں میں سے ایک

Book Review by Tanveer Ghumman

تبصرہ: تنویر گھمن
زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے صرف محنت اور مہارت کافی نہیں، کبھی دوسروں سے مدد لینے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، لیکن زیادہ تر لوگ اس میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ اُنھیں لگتا ہے کہ مدد مانگنا کم زوری ہے، یا یہ کہ اگر وہ کسی سے کچھ مانگیں گے، تو شاید اُنھیں انکار کر دیا جائے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ہماری آج کی کتاب "The Art of Asking” میں ’’آمنڈا پامر‘‘ (Amanda Palmer) کہتی ہیں کہ مدد مانگنے کا فن دراصل دوسروں کے ساتھ گہرے تعلقات بنانے اور زندگی میں نئے امکانات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ کتاب ہمیں سکھاتی ہے کہ مدد مانگنا صرف لینے کا عمل نہیں، بل کہ رشتہ قائم کرنے، بھروسا پیدا کرنے اور اپنی زندگی میں دوسروں کو شامل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
انسان ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے لیے بنے ہیں۔ کوئی بھی شخص اکیلے زندگی میں سب کچھ نہیں کرسکتا، مگر زیادہ تر لوگ مدد مانگنے میں ہچکچاتے ہیں۔ کیوں کہ اُنھیں لگتا ہے کہ اگر کسی سے کچھ مانگا، تو اُنھیں کم زور سمجھا جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم کسی سے مدد مانگتے ہیں، تو ہم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی پر بھروسا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُسے اپنی دنیا میں شامل کر رہے ہیں۔ جب ہم کسی کو اپنی ضرورت کے بارے میں بتاتے ہیں، تو ہم اپنے دل کا دروازہ کھولتے ہیں اور ایسا کرنے سے مدد ملنے کے ساتھ ساتھ ایک گہرا تعلق بھی بن جاتا ہے۔
یہ کتاب یہ بھی وضاحت کرتی ہے کہ مدد مانگنے کا مطلب صرف مالی یا مادی مدد لینا نہیں، بل کہ یہ جذباتی، تخلیقی اور پیشہ ورانہ تعاون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اکثر، ہم اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری وسائل نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے دروازے صرف اُس وقت کھلتے ہیں جب ہم اُنھیں کھٹکھٹاتے ہیں۔ لوگ اکثر ہماری مدد کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، لیکن وہ تبھی آگے بڑھیں گے، جب ہم اپنی ضرورت کو کھلے دل سے بیان کریں گے، لیکن ایسا کرنے کے لیے، سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر سے یہ خوف نکالنا ہوگا کہ اگر ہم نے کچھ مانگا، تو شاید ہمیں ’’نہیں‘‘ سننے کو ملے گا۔
یہ کتاب ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ لینے اور دینے کا عمل انسانی تعلقات میں توازن پیدا کرتا ہے۔ کچھ لوگ خوشی سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں، لیکن جب اُنھیں خود کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے، تو وہ ہچکچاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ ’’دینے والے‘‘ بنے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ لینے کی صلاحیت بھی اتنی ہی اہم ہے، جتنی دینے کی۔ زندگی میں سب کچھ ایک متوازن بہاو میں چلتا ہے۔ اگر ہم ہمیشہ دینے پر زور دیں گے اور کبھی لینے کو قبول نہیں کریں گے، تو یہ تعلقات میں کھچاو پیدا کرسکتا ہے۔ مدد لینا بھی اُتنا ہی فطری اور ضروری ہے، جتنا کسی کو مدد دینا۔
یہ کتاب اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ مدد حاصل کرنے کے لیے مانگنے کا انداز بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی ضرورت کو بے یقینی، شرمندگی یا مجبوری کے ساتھ پیش کریں گے، تو شاید ہمیں وہ ریسپانس نہ ملے، جس کی ہمیں امید تھی…… لیکن اگر ہم خلوص، اعتماد اور شکریہ کے جذبے کے ساتھ مانگیں گے، تو لوگ زیادہ خوشی سے ہماری مدد کریں گے۔ جب ہم سچائی اور خود اعتمادی کے ساتھ کسی کے سامنے اپنی بات رکھتے ہیں، تو لوگ زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ کتاب ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اکثر مدد ملنے کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیسا تعلق رکھتے ہیں! اگر ہم ہمیشہ دوسروں سے توقع رکھیں کہ وہ ہماری مدد کریں، لیکن خود کسی کی مدد کے لیے تیار نہ ہوں، تو لوگ ہمارے ساتھ جڑنے میں ہچکچائیں گے۔ لیکن اگر ہمارے تعلقات میں باہمی احترام، بھروسا اور محبت موجود ہو، تو مدد لینا اور دینا دونوں آسان ہوجاتے ہیں۔ لوگ اُن کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جن کے ساتھ ان کا مضبوط جذباتی اور اخلاقی تعلق ہو۔
زندگی میں مواقع وہی لوگ حاصل کرتے ہیں، جو دروازے کھٹکھٹانے کی جرات رکھتے ہیں۔ اکثر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کام یاب لوگ کسی جادوئی طریقے سے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن اگر ہم اُن کی کہانیوں کو غور سے دیکھیں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اُن کی کام یابی کے پیچھے اُن کی محنت کے ساتھ ساتھ اُن کی ہمت بھی شامل تھی۔ ہمت اس بات کی کہ وہ مدد لینے سے نہیں گھبرائے، اُنھوں نے دروازے بند دیکھ کر دستک دی اور وہ مسترد کیے جانے کے باوجود دوبارہ کوشش کرتے رہے۔ جو لوگ مدد مانگنے سے گھبراتے نہیں، وہی وہ مواقع حاصل کرتے ہیں، جو دوسروں کے لیے ایک خواب بنے رہتے ہیں۔
یہ کتاب ہمیں سکھاتی ہے کہ مانگنے کے بعد شکرگزاری بھی اُتنی ہی اہم ہے۔ جب ہمیں کسی سے مدد ملتی ہے، تو ہمیں اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، محض رسمی طور پر ’’شکریہ‘‘ کہنے کے بہ جائے، ہمیں اُس کا احترام کرنا چاہیے اور اُسے ایک تعلق کی بنیاد بنانا چاہیے۔ جب ہم دوسروں کی مہربانی کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، تو نہ صرف وہ شخص مزید مدد کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، بل کہ ہم خود بھی زیادہ محبت اور قدردانی محسوس کرتے ہیں۔ جو لوگ شکریہ ادا کرنے اور دوسروں کی مدد کو سراہنے کی عادت اپناتے ہیں، وہ زیادہ مضبوط تعلقات قائم کرتے ہیں اور زیادہ خوش حال زندگی گزارتے ہیں۔
یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اکثر ہماری جھجک محض ہمارے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہم مدد مانگنے کے بارے میں خود ہی خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ شاید لوگ ہمیں کم زور سمجھیں گے، یا ہمیں ’’نہیں‘‘ سننے کو ملے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اپنی ضروریات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں، تو ہمیں اکثر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کتنی آسانی سے ہماری مدد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنے خوف پر قابو پانے اور خود پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اپنی ضرورتوں کو کھلے دل سے بیان کرتے ہیں، وہی زندگی میں زیادہ مواقع حاصل کرتے ہیں اور زیادہ کام یاب ہوتے ہیں۔
یہی "The Art of Asking” کا بنیادی پیغام ہے۔مدد مانگنا کم زوری نہیں، بل کہ یہ زندگی کا ایک فطری اور ضروری حصہ ہے۔ جب ہم اعتماد کے ساتھ اپنی ضرورتوں کو بیان کرتے ہیں، جب ہم دوسروں کو اپنی دنیا میں شامل کرنے کی ہمت پیدا کرتے ہیں، تو ہم ایک ایسے ماحول کو فروغ دیتے ہیں، جہاں لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کام یاب دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم سیکھ لیں کہ اپنی جھجک کو پیچھے چھوڑ کر ضرورت کے وقت کیسے مدد مانگنی ہے، تو بے شمار دروازے ہمارے لیے خود بہ خود کھلنے لگیں گے۔
اپنی انا اور خوف کو کچل کر کسی دروازے پر دستک دے کر ٹرائی کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے