کیا یہ امریکی مداخلت نہیں؟

Blogger Advocate Muhammad Riaz

عدمِ اعتماد ووٹنگ کے ذریعے مسندِ اقتدار سے نکال باہر کیے گئے وزیرِاعظم عمران احمد خان نیازی نے عدمِ اعتماد ووٹنگ تحریک سے پہلے تاش کے آخری پتے کی طرز پر امریکہ سے آئے ’’سائفر پیغام‘‘ کا بھرپور استعمال کیا اور ’’امریکی مداخلت مردہ باد‘‘ اور ’’ہم کوئی غلام ہیں!‘‘ جیسے جذباتی نعروں سے اپنے پیروکاروں کے کانوں کو خوب بھرا۔
عمران خان اور ہم نواؤں نے دیگر سیاسی و غیر سیاسی قیادت کو امریکی غلام قرار دیا۔ سال 2022ء تا 2024ء یعنی اقتدار سے نکالے جانے سے لے کر امریکی صدارتی انتخابی مہم تک امریکی غلامی و مداخلت مردہ باد کے نعرے بلند کیے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ امریکی وزارتِ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمانوں کو متعدد مرتبہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے امریکی مداخلت کے الزامات کو واضح طور پر مسترد کرنے کے بیانات جاری کرنا پڑے۔ پھر حسبِ روایت امریکی صدارتی انتخابات کے دوران میں امریکہ کے متعلق 180 ڈگری زاویہ کا ’’یو ٹرن‘‘ مارا گیا اور خان صاحب کی رہائی کے متعلق تمام تر اُمیدوں کا سرچشمہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی پارٹی کے رہ نماؤں کو قراردے دیا گیا۔
رچرڈ گرینیل ایسے قماش کے امریکی سیاست دانوں کے خان صاحب کے حق میں دیے گئے ٹویٹس اور بیانات سر آنکھوں پر لگائے گئے۔ بے شرمی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے والے ’’یوٹیوبرز‘‘ جو خان صاحب کے نام پر لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں اور ہر روز قومِ یوتھ کو ایک نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے ایسے سنہری خواب دِکھائے اور دعوے کیے کہ ٹرمپ اپنی پہلی تقریر میں عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی حکام کو حکم نامہ جاری کریں گے۔ وہ علاحدہ بات ہے کہ مسندِ اقتدار براجمان ہونے سے لے کر آج کی تاریخ تک ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے ابھی تک خان صاحب کا ذکرِ خیر سننے کو نہیں ملا۔
خان صاحب کے نام کی کمائی کھانے والے ایسے یوٹیوبر جو کل تک امریکی مداخلت کے برخلاف، امریکی غلامی سے آزادی کے ہراول دستے کے کمانڈر بنے ہوئے تھے، آج کل امریکی سیاست دانوں اور ممبرانِ پارلیمنٹ کے ہر اُس بیان پر بھنگڑے ڈالتے دِکھائی دیتے ہیں، جس میں پاکستان کی سیاسی و غیر سیاسی قیادت کے خلاف بیان جاری کیا ہو، یا پھر خان صاحب کے حق میں بیان بازی کی گئی ہو۔
امریکی ایوانِ نمایندگان میں 24 مارچ کو رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے ’’پاکستان ڈیمو کریسی ایکٹ‘‘ کے عنوان سے بِل پیش کیا۔ اُس بِل کے مطالعے سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ امریکی حکومت عمران خان کی رہائی کو یقینی بنائے۔ دوسری بات یہ کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر سیاسی قیادت اور پاکستانی مسلح افواج کی قیادت کی امریکہ آمد پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ یاد رہے جو ولسن ایوان کی خارجہ امور اور آرمڈ سروسز کی کمیٹیوں کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ رپبلکن پالیسی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ اُس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ اُس کے ساتھ دوسرے رکن ڈیموکریٹ جیمز ورنی پنیٹا ہیں، جو امریکی بحریہ کے سابق انٹیلی جنس افسر رہ چکے ہیں۔ جو ولسن کچھ عرصے سے عمران خان کی رہائی سے متعلق متحرک ہیں۔
امریکی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف بِل پیش ہونے پر ایک طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت لڈیاں ڈال رہا ہے، تو دوسری جانب پی ٹی آئی کارکنان اور خان صاحب کے نام کی کمائی کھانے والے یوٹیوبروں کی خوشی دیدنی ہے۔ کیوں کہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستانی اندرونی معاملات امریکی پارلیمنٹ کا موضوع بحث بن جائیں گے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کہ اس طرح کے بِل ردی کی ٹوکری میں جاتے ہیں، یا پھر مملکتِ پاکستان کو دباو میں لانے کے لیے ’’کیری لوگر بِل‘‘ کی طرز پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری طاقت کو مشکلات میں مبتلا کیا جائے گا!
ایک بات تو طے شدہ ہے کہ پاکستانی اداروں میں خان صاحب اور پی ٹی آئی کے متعلق جو بچا کُھچا نرم گوشہ موجود تھا، وہ بہت حد تک ختم ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے عملی اقدامات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر عمران خان نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال پی ٹی آئی کی جانب سے ’’جعفر ایکسپریس سانحہ‘‘ پر پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا تھا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی دیگر قیادت معاملات کو جس نہج پر لے جاچکی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی ادارے یہ یقین کی حد تک محسوس کرچکے ہیں کہ عمران خان کو مسندِ اقتدار پر براجمان کروانا ان کی سنگین غلطی تھی، جس کا خمیازہ خود پاکستانی اداروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور جس طرز پر ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے نام پر سوشل میڈیائی جنگ جو تیار کروائے گئے، وہ انھی کے گلے پڑچکے ہیں، جو اندرون ملک اور دیارِ غیر میں بیٹھ پر پاکستانی اداروں کے خلاف محاذ جنگ کھولے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بدبخت ’’ففتھیے‘‘ پاکستان ٹوٹنے کی پیشین گوئیاں کرتے دِکھائی دے رہے ہیں۔
امریکہ سے آئے سائفر (خفیہ دستاویز) پر پیالی میں طوفانِ بدتمیزی بپاکرنے والی پی ٹی آئی قیادت، کارکنان اور پی ٹی آئی یوٹیوبروں سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ امریکی ممبرانِ پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستانی حکام پر پابندیاں لگانے ایسے سرِ عام بِل اور خدا نہ خواستہ بل کی منظوری، کیا ایسے اقدامات کو امریکی مداخلت قرار نہیں دیں گے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے