متحرک شخصیات و علما اور بیداری کی جد و جہد

Blogger Ghufran Tajik

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر وہ فرد جو ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہوا، وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں نشانے پر رہا۔ خواہ وہ سیاسی رہ نما ہو، سماجی کارکن ہو، صحافی ہو، یا عالم…… جو بھی عوام میں شعور بیدار کرتا ہے، اُسے خاموش کرانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔
بعض اوقات ان افراد کو زبردستی راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جب کہ بعض اوقات انھیں مسلسل دباو میں رکھ کر ان کی آواز کو مدھم کر دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں علما بھی اسی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر وہ علما جو صرف رسمی مذہبی معاملات پر بات کرنے کے بہ جائے، سماجی اور سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے علما عوام میں بیداری پیدا کرتے ہیں، انھیں اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور ظالم حکم رانوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں…… لیکن چوں کہ اُن کی جد و جہد بعض طاقت ور طبقات کے مفادات کے خلاف جاتی ہے، اس لیے اُنھیں مختلف حربوں سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
٭ علما اور متحرک شخصیات کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
ایسے علما اور عوامی رہ نما جو بیداری اور شعور کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہیں، انھیں مختلف ذرائع سے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، جیسا کہ
٭ استحصالی نظام کو خطرہ:۔ ظالم اور کرپٹ حکم ران ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ عوام بے شعور رہیں۔ کیوں کہ جب لوگ بیدار ہوں گے، تو وہ سوال کریں گے، احتساب کا مطالبہ کریں گے اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے۔ ایسے میں وہ علما اور رہ نما جو عوام کو اُن کے حقوق یاد دلاتے ہیں، وہ حکم رانوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
٭ دینی تعلیمات کا انقلابی پہلو:۔ بعض علما، مذہب کو محض عبادات تک محدود نہیں رکھتے، بل کہ دین کے عدل و انصاف والے پہلو کو اُجاگر کرتے ہیں۔ وہ عوام کو بتاتے ہیں کہ اسلام ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے اور ناانصافی کے نظام کو تبدیل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ چیز اُن قوتوں کو پسند نہیں آتی، جو دین کو صرف رسمی عبادات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
٭ عوام کی ذہنی آزادی:۔ اگر عوام بیدار ہوجائیں، تو وہ پروپیگنڈے میں نہیں آتے، اندھی تقلید سے بچتے ہیں اور اپنے حق کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی شخص یا عالم، عوام کو آزاد سوچ دینے کی کوشش کرتا ہے، اسے کسی نہ کسی طریقے سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
متحرک افراد کے خلاف عام ہتھکنڈے:۔ جو شخص عوامی بیداری کی راہ پر چلتا ہے، اُسے روکنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھ عام حربے درجِ ذیل ہیں:
٭ مقدمات اور الزامات:۔ متحرک علما اور عوامی رہ نماؤں پر مختلف الزامات لگا کر اُنھیں قانونی مسائل میں اُلجھایا جاتا ہے۔ ان پر انتہا پسندی، بغاوت یا دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے الزامات لگا کر مقدمات درج کیے جاتے ہیں، تاکہ اُنھیں مصروف رکھا جاسکے اور وہ اپنے اصل مشن سے ہٹ جائیں۔
٭ سوشل میڈیا پر سنسرشپ:۔ جو لوگ جدید ذرائع جیسے سوشل میڈیا کے ذریعے شعور بیدار کر رہے ہیں، اُن کے بیانات اور خطبات کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُن کے اکاؤنٹس بند کر دیے جاتے ہیں، یا اُن کی پہنچ کو محدود کر دیا جاتا ہے، تاکہ اُن کا پیغام زیادہ لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔
٭ عوامی امیج کو خراب کرنا:۔ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اُن متحرک افراد کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُنھیں شدت پسند، متنازع یا کسی غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ قرار دینے کی مہم چلائی جاتی ہے، تاکہ لوگ اُن پر بھروسا نہ کریں۔
٭ جان لیوا حملے اور قتل:۔ جب کوئی عالم یا سماجی شخصیت تمام دباو کے باوجود اپنی جد و جہد جاری رکھے، تو بعض اوقات اُنھیں قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ میں کئی بار دیکھا جاچکا ہے کہ جو بھی عوامی شعور کے لیے کام کرتا ہے، اُسے راستے سے ہٹانے کے لیے انتہا درجے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
٭ کیا علما بھی نشانے پر ہیں؟
جی ہاں، علما خاص طور پر نشانے پر ہیں اور اس کی کئی مثالیں ماضی اور حال میں دیکھی جاسکتی ہیں:
٭ سیاسی اور سماجی شعور دینے والے علما:۔ جو دین کو محض عبادات تک محدود رکھنے کے بہ جائے، اسے ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر پیش کرتے ہیں، اُنھیں مختلف طریقوں سے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
٭ کرپشن اور ناانصافی کے خلاف بولنے والے علما:۔ بعض علما کرپشن اور استحصال کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اُنھیں دباو میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے، یا بعض اوقات اُنھیں جبراً خاموش کر دیا جاتا ہے۔
٭ عوامی سطح پر متحرک مذہبی رہ نما:۔ جو علما عوام میں شعور اُجاگر کرتے ہیں اور اُنھیں حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتے ہیں، اُن کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے، تاکہ عوام ان سے دور ہو جائیں۔
٭ احتیاط اور حکمتِ عملی کی ضرورت:۔ موجودہ حالات میں، اگر کوئی عالم یا سماجی رہ نما عوامی بیداری کے لیے کام کر رہا ہے، تو اُسے غیر معمولی احتیاط اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ درجِ ذیل اقدامات ضروری ہیں:
٭ قانونی تحفظ حاصل کریں:۔ علما اور متحرک افراد کو ملکی قوانین کا مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ اُنھیں اپنے حقوق کا علم ہو اور وہ کسی بھی قانونی سازش کا موثر جواب دے سکیں۔
٭ اپنی حفاظت یقینی بنائیں:۔ ایسے افراد کو اپنی سیکورٹی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور اپنی نقل و حرکت میں بھی احتیاط برتنی چاہیے۔
٭ اجتماعی کوشش کریں:۔ اگر کسی فرد کو الگ تھلگ کر دیا جائے، تو اُسے آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی بیداری کی مہم اجتماعی طور پر چلائی جائے، تاکہ کسی ایک شخص پر دباو نہ ڈالا جاسکے۔
٭ الفاظ کا دانش مندانہ چناو کریں:۔ سچ کہنا ضروری ہے، لیکن الفاظ کا انتخاب ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غیر ضروری تنازعات کو جنم نہ دے۔
٭ سوشل میڈیا اور خطبات میں احتیاط کریں:۔ اگرچہ سوشل میڈیا اور مساجد عوامی بیداری کا بہترین ذریعہ ہیں، لیکن ان کا استعمال ذمے داری اور حکمت عملی کے ساتھ کیا جانا چاہیے، تاکہ مثبت پیغام پہنچے اور کسی بھی غلط فہمی سے بچا جاسکے۔
قارئین! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ عوام کو شعور دینے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بعض طاقتوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتے ہیں۔ اُنھیں خاموش کرانے کے لیے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کی جان بھی لے لی جاتی ہے…… لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سچائی کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جاسکتا۔
اگر ہم بیداری اور جد و جہد کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں حکمت، صبر اور اجتماعی قوت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ ظلم کی راہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، آخر میں حق ہی غالب آتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response

  1. Mitolyn You’re so awesome! I don’t believe I have read a single thing like that before. So great to find someone with some original thoughts on this topic. Really.. thank you for starting this up. This website is something that is needed on the internet, someone with a little originality!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے