ریاست سوات اور ماہِ رمضان

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ہمارے بچپن میں رمضان خوشیوں سے بھرپور ہوتا تھا۔ بچے سحری اور افطاری، جو اس مقدس مہینے کی نمایاں خصوصیات ہیں، کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت پُرجوش ہوتے۔ اگرچہ لوگوں کے پاس وسائل محدود تھے، لیکن ایک عام آدمی اپنی افطاری میں خاص چاشنی ڈالتا تھا۔ آپ 300 گرام قیمہ 4 آنہ یا 25 پیسوں میں حاصل کرسکتے تھے۔ سبزیاں بھی مناسب قیمتوں پر دست یاب تھیں۔ خالص گھی کی قیمت 4 روپے فی کلو تھی۔ بناسپتی گھی ممنوع تھا اور ریاست میں اس کی فروخت کی اجازت نہیں تھی۔
اگر بچے روزے رکھتے، تو وہ باہر گھومتے پھرتے یا گرمیوں میں گھر کے اندر ہی رہنے کو ترجیح دیتے۔ افطاری کے وقت، جمعہ خان نامی، ایک کارکن، ریاست PWD اسٹور کے قریب، بالیگرام کی پہاڑی پر اپنے توپ کو فائر کرنے کے لیے موجود ہوتا۔ یہ ایک خالی شیل تھا، جو دھماکا خیز مواد سے بھرا ہوا تھا۔ وہ والی کے سٹاف کے اشارے کا انتظار کرتا ور پھر ماچس سے فیوز جلا کر فوراً پناہ لینے کے لیے بھاگ جاتا۔ دھماکا ہوجاتا اور اتنا زوردار ہوتا کہ اس کی آواز کبل تحصیل اور دریائے سوات کے دائیں کنارے تک سنی جاتی۔ دھماکے کے ساتھ ہی لوگ روزہ افطار کرتے۔ ہمارے ہاں اس وقت کوفتے پکتے تھے، جو ہمارے لیے کسی بڑی عیش و عشرت سے کم نہیں تھے۔
دستخط مستری، پہلے ریاستی تعمیراتی محکمے کے سربراہ، رمضان کے لیے خصوصی طور پر ایک خاص قسم کا پاؤڈر تیار کرتے تھے۔ مَیں اور میرے بڑے بھائی فضل وہاب اُن کے گھر جاتے اور وہ پاؤڈر لے آتے۔ دہی کے ساتھ ملا کر یہ بہترین خوش بودار پیسٹ بن جاتا۔ سحری میں ہم چاول اُبال کر افطاری کے باقی ماندہ سالن کے ساتھ کھاتے تھے۔
سیدووال کی حیثیت سے، ہمیں جو بھی ملتا، ہم اس پر مطمئن تھے۔ جب افطاری کا وقت نزدیک ہو جاتا، تو بچے یہ اشعار گاتے:
جمعہ خانہ ڈز اوکہ
ڈز پہ مازیگر اوکہ
غونڈہ روپئی والہ
خزے لا پنڑے اوکہ
گل پے د طیلے اوکہ
یعنی اے جمعہ خان (افطاری کے لیے) توپ چلا۔ بے شک یہ سہ پہر ہی کیوں نہ ہو، مگر فائر کر۔(جلدی فائر کرنے کے صلے میں) ہم تمھیں رُپہلا روپیا دیں گے۔اس سے اپنی بی بی کے لیے جوتیاں خریدنا۔ جوتیوں پر طلہ سے پھول بنا ہو۔
انضمام کے بعد جب پہلا رمضان آیا، تو حسبِ معمول، جمعہ خان یا اس کے بیٹے نے توپ چلانے کی تیاری کی اور اشارے کا انتظار کرنے لگا، لیکن کوئی اشارہ نہیں آیا۔ چوں کہ وقت گزر رہاتھا، اُس نے شیل کو آگ لگائی اور دھماکے نے سیدو کو ہلا کر رکھ دیا۔ ڈپٹی کمشنر کی بیوی اور بچے خوف سے چیخ پڑے۔ اُس نے دھماکے کے بارے میں پوچھا اور تفصیلات جاننے کے بعد فوری طور پر حکم دیا کہ اب کوئی دھماکا نہیں ہوگا۔
اگلے دن لوگوں نے تقریباً 10 میل کے دائرے میں دھماکے کی آواز کا انتظار کیا، لیکن وہ توپ پھر کبھی نہیں چلا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے