ابا جان کی یاد میں

Blogger Tauseef Ahmad Khan

کہتے ہیں کہ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے، مگر کچھ درد ایسے ہوتے ہیں جو دل کی گہرائیوں میں ہمیشہ کے لیے رچ بس جاتے ہیں۔ وقت ان پر مرہم رکھنے کی کوشش تو کرتا ہے، مگر جب درد کی جڑیں روح تک اتر جائیں، تو پھر نہ ختم ہونے والی کسک میں ڈھل جاتی ہیں۔
کچھ تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ کیوں کہ جسم کے زخم تو وقت کے ساتھ مندمل ہوجاتے ہیں، مگر روح کے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہوتا۔ یہ دکھ دیمک کی مانند آہستہ آہستہ اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ ہنستے مسکراتے چہروں کے درمیان بھی اپنے اندر ایک ایسا طوفان چھپائے رکھتا ہے، جو بے آواز چیخوں کی صورت میں ہر لمحہ انسان کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔
پچھلے دنوں میرے ابا جان (شاکر اللہ) کے انتقال نے مجھے ایسے گہرے دکھ اور غم سے آشنا کر دیا، جس کا مَیں نے پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ زندگی میں وہ لوگ جو ہمارے روح میں بستے ہیں، ہمیں ہمیشہ یہ امید رہتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔ ہم اُن کے بغیر ایک لمحہ بھی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتے…… مگر جب وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، تو اُن کی جدائی ہر لمحہ روح میں ایک نہ ختم ہونے والی تڑپ پیدا کرتی ہے۔ دل میں ایسی بے چینی گھر کر جاتی ہے، جسے کوئی بھی چیزگھٹا نہیں سکتی۔
اپنے ابا جان کی جدائی سے پہلے میں نے کئی غم دیکھے تھے، دکھ کے بے شمار سائے میرے وجود پر گزرے تھے، مگر اس جدائی کا غم ایسا تھا کہ اگر کسی پہاڑ پر ڈال دیا جاتا، تو وہ بھی بکھر کر رہ جاتا۔ والدین کی جدائی ایک ایسا خلا ہے، جو کسی چیز سے نہیں بھرتا۔ یہ جدائی ہر لمحہ ایک ایسی بے بسی میں مبتلا کر دیتی ہے کہ انسان کو ہر چیز میسر ہوتے ہوئے بھی خود کو خالی ہاتھ محسوس کرتا ہے اور بڑے سے بڑے ہجوم میں بھی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔
میرے ابا جان کی آواز، اُن کا لمس، اُن کی دعائیں…… اب سب خواب و خیال کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ وہ دروازہ، جہاں وہ کھڑے ہوکر میرا انتظار کرتے تھے، اب ویران ہے۔ گھر کی وہی چوکھٹ، جس پر قدم رکھتے ہی سکون محسوس ہوتا تھا، اب اجنبی لگتی ہے۔ ابا جان کی جدائی میرے لیے وہ درد ہے، جسے لفظوں میں سمویا نہیں جاسکتا، بس دل کی گہرائیوں میں اٹھتا رہتا ہے، سانسوں میں بکھرتا رہتا ہے۔ بس اب یہ درد زندگی کی کتاب پر ایک ایسا باب بن کر رقم ہوا ہے کہ اب چاہ کر بھی اسے مٹایا نہیں جاسکتا۔
میرے ابا جان کی جدائی نے مجھے شدت سے یہ احساس دلایا ہے کہ جس جنت کے خواب ہم دنیا میں دیکھتے ہیں، وہ درحقیقت ہمارے والدین کا سایہ ہوتی ہے۔ جب تک یہ سایہ سر پر رہتا ہے، زندگی نخلستان میں ایک گھنے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں جیسی محسوس ہوتی ہے، مگر جوں ہی یہ سایہ اٹھ جاتا ہے، انسان تپتے صحرا میں تنہا مسافر بن جاتا ہے۔ زندگی میں والدین کی موجودگی وہ ٹھنڈی ہوا ہے، جو دل کی ویران بستی میں بہار لے آتی ہے، اور ان کے بچھڑ جانے کے بعد گویا زندگی خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جاتی ہے۔
جب بھی اپنے ابا کی آخری آرام گاہ پر جاتا ہوں، تو یادیں ہر طرف بکھر جاتی ہیں اور دل یوں مچل اٹھتا ہے، جیسے کوئی بچہ کھوئی ہوئی گود کو تلاش کر رہا ہو۔ روح میں ایک ایسی تڑپ جنم لیتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ بس اُن کے پہلو میں اسی طرح لیٹ جاؤں، جیسے بچپن میں لیٹا کرتا تھا۔ جی چاہتا ہے کہ اُن کا ماتھا چوم لوں، ویسے ہی جیسے وہ شفقت سے میرا ماتھا چومتے تھے…… مگر افسوس! اب نہ وہ لمس نصیب ہے، نہ وہ مہربان سایہ، بس مٹی کی خاموش چادر ہے، جو ان کی جدائی کا نوحہ سناتی ہے۔
اپنے ابا جان کی جدائی کے بعد جو نئے احساسات نے میرے دل میں جنم لیا، ان خاموش احساسات نے بابا اشفاق احمد کی وہ بات یاد دلا دی، جو انھوں نے ایک محبت سو افسانے میں کہی تھی کہ محبت وہ واحد شے ہے، جو انسان کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ محبت ایک دریا کی مانند ہے، جو دل کی گہرائیوں کو سیراب بھی کرتی ہے اور کبھی طوفان بن کر سب کچھ بہا بھی لے جاتی ہے۔
محبت کے عطا کردہ جذبات میں سب سے بے رحم جذبہ جدائی ہے۔ یہ روح میں ایسے تڑپ چھوڑ جاتا ہے، جیسے تیز ہوا خشک پتوں کو شاخوں سے نوچ کر بکھیر دیتی ہے۔
اور جب جدائی اُس ہستی سے ہو، جو زندگی کی پہلی روشنی، پہلا سایہ اور پہلا سہارا ہو، تو یہ دکھ ہر لمحہ ایک نئی صورت میں روح پر وار کرتا ہے۔
ابا جان کی جدائی نے میری ذات کو ایسے بدل کر رکھ دیا ہے، جیسے خزاں رسیدہ درخت اپنی بہار کھو بیٹھتا ہے: بے رنگ، خاموش اور تنہا۔مگر میں اس بات پہ کامل یقین رکھتا ہوں کہ صبر ہی وہ واحد چراغ ہے، جو دل کی تاریکی میں روشنی پیدا کرتا ہے، جو قربِ الٰہی کی راہ ہم وار کرتا ہے۔
مجھے اس بات پہ کامل ایمان ہے کہ اللہ کی رحمت ہر شے سے وسیع تر ہے، وہ 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ میرا دل دعاگو ہے کہ اللہ اولاد کے سر پر ان کے والدین کا سایہ سلامت رکھے، اور جو والدین دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، میرے ابا جان سمیت، اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا کرے، آمین!
بے شک، آخرت کی کام یابی ہی اصل کام یابی ہے۔ اللہ ہمیں آسانیاں پیدا کرنے اور انھیں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے