(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
یہ بات کافی واضح ہے کہ ایک اشرافی نظام ہمیشہ ملک کے اعلا طبقے کو فائدہ دیتا ہے اور یہ طبقہ ریاست کے ہر ادارے میں غالب رہتا ہے۔ کچھ استثنائی صورتیں بھی دیکھی گئی ہیں، مگر بد قسمتی سے ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ سوات میں شخصی طرزِ حکم رانی تھی اور اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھنے کے لیے اسے بااثر ’’خیلوں‘‘ کی حمایت حاصل کرنی پڑی۔
اگر عام لوگوں میں سے کوئی شخص نمایاں مقام پر پہنچتا ہے، تو اُسے یا تو بہت باصلاحیت ہونا چاہیے، یا اُس کی اتنی قسمت اچھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیت سے بڑھ کر کچھ کر دِکھا دیتا ہے۔ ریاستِ سوات کے بانی بادشاہ صاحب ہمیشہ اشرافیہ کی جانب جھکاو رکھتے رہے، حالاں کہ ہر طبقہ ان سے ڈرتا تھا اور لوگ اُنھیں ناراض کرنے سے گریز کرتے تھے، لیکن خانوں کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ اچھا رہا، باوجود اس کے، ان کے کچھ افسران عام خاندانوں سے تھے۔
اس کے برعکس، والی صاحب اس معاملے میں زیادہ آزاد خیال تھے۔ ان کے عملے میں تمام طبقات کے لوگ شامل تھے، جن کو وہ یک ساں وقعت دیتے تھے۔ وہ اچھے نتائج کو مدِ نظر رکھتے تھے، چاہے جو بھی وہ نتائج دے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پختونوں کے ساتھ ساتھ گجر، پراچہ، جولاہے اور دیگر خاندانوں کے لوگ اعلا عہدوں پر موجود تھے۔ ان کی کارکردگی شان دار تھی۔ کچھ لوگوں کو خیال ہوگا کہ میں نسلی تفریق کو اجاگر کر رہا ہوں، مگر یہ ایک عریاں حقیقت ہے کہ پختون معاشرت میں دوسری ذاتوں کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں نیچا دِکھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا جاتا۔
یہ سب کہنے کے بعد، مَیں کچھ اعلا افسران کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نچلے طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک افسر ناخوَد کپتان تھے۔ وہ ایک تنگ گھاٹی میں، سر گاؤں کے نیچے ایک دور دراز گاؤں ’’توہا‘‘ سے تعلق رکھتے تھے، جو تحصیلِ چارباغ میں واقع ہے۔ قسمت آزمانے وہ اور ان کے بھائی جلندر، ریاست کے دار الحکومت سیدو شریف منتقل ہوگئے۔ دونوں نے ورکنگ فورس میں نوکری حاصل کی۔ جلد ہی ان کی محنت اور ایمان داری کی وجہ سے، ولی عہد کی توجہ ملی۔ تب سے، کوئی بھی ان کی مزید کام یابی اور میانگل جہانزیب کے اعتماد کو حاصل کرنے سے نہیں روک سکا۔ انھیں ’’کمان افسر‘‘ بنایا گیا اور بعد میں کپتان۔
وہ ریاستی تعمیراتی مواد کے سٹور کے انچارج بھی رہے، جیسے کہ اسٹیل، سیمنٹ، سرامِکس، شیشے اور دیگر شیٹس۔ ان کے ماتحت کچھ کلرک تھے، جو سٹور کی اشیا کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ نیز ایک بڑی تعداد میں ماسٹر، ’’بابو‘‘، بڑھئی، پلمبر اور الیکٹریشن بھی ان کے تحت کام کرتے، جو سرکاری عمارتوں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔
انھوں نے والی کی طبیعت کو سمجھا اور کبھی اسے ناراض ہونے کا موقع نہیں دیا۔ وہ ہر لحاظ سے ایمان دار اور قابلِ اعتماد ثابت ہوئے۔
مَیں نے ایک بار تین دن ان کے ساتھ گزارے، جب وہ ملم جبہ سڑک کے آخری میلوں کی تعمیرکے لیے ایک انجینئرنگ ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ ان پیچیدہ ’’ٹاپوگرافی‘‘ (سطحِ زمین ماپنے کا ہنر) کی تکنیکی جانچ میں ماہر تھے۔ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے بہت پابند، ہمیشہ صاف ’’شلوار قمیص‘‘ اور ایک سنہری رنگ کی قراقلی ٹوپی پہنے رہتے تھے۔ وہ سخت محنت کرنے والے شخص تھے۔
مشہور ہے کہ ’’ناخود بہ دی پہ خود کی‘‘، یعنی ’’ناخود آپ کو صحیح راستے پر لے آئے گا۔‘‘ مگر ساتھ میں ایک بہت مہذب شخص بھی تھے۔
میری کم عمری کی وجہ سے، وہ مجھ پر بہت مہربان تھے اور میرا خاص خیال رکھتے۔ وہ تین دن اب بھی میری یادوں میں تازہ ہیں اور مَیں ان کی حکمت، ایمان داری اور قدرتی صلاحیت کے لیے ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ اللہ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
