ناول ’’گریٹ ایکسپیکٹ ایشنز‘‘ (تبصرہ)

Book Review by Abdullah Khalid

تحریر: عبد اللہ خالد
چارلس ڈکنز 19ویں صدی کے ایک نام ور انگریزی ناول نگار تھے، جنھوں نے زندگی کے تلخ حقائق اور انسانی فطرت کو بے حد خوب صورتی سے قلم بند کیا۔ اُن کی تحریریں محض کہانیاں نہیں، بل کہ سماج کا آئینہ تھیں، جہاں امیری اور غریبی، محبت اور بے حسی، اُمید اور مایوسی سب کچھ ایک ساتھ دکھائی دیتا تھا۔ ’’عظیم امیدیں‘‘ (Great Expectations) اُن کے مشہور ترین ناولوں میں سے ایک ہے، جو ایک یتیم لڑکے کے خوابوں، ناکامیوں اور سچائی کو پہچاننے کے سفر کی داستان بیان کرتا ہے۔
ناول میں دکھایا گیا ہے کہ پپ ایک عام سا لڑکا تھا، جس کی دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں تک محدود تھی۔ اُس کی پرورش اُس کی سخت گیر بہن اور نرم دل بہنوئی جو گارجرے نے کی تھی۔ جو پپ سے بے حد محبت کرتا تھا، مگر پپ ہمیشہ اُس کی قدر نہ کر پایا۔ شاید اُس کی خواہشیں کہیں اور تھیں، کسی اور دنیا میں، جہاں وہ بڑا آدمی بن سکے۔
ایک دن، جب پپ قبرستان میں اپنے والدین کی قبروں کے پاس کھڑا تھا، ایک وحشت زدہ قیدی اُس کے سامنے آگیا۔ وہ خوف ناک لگ رہا تھا، مگر اُس کی آنکھوں میں ایک بے بسی تھی، جو پپ کو ہلا گئی۔ وہ بھوکا تھا، کانپ رہا تھا اور مدد کا طلب گار تھا۔ پپ ڈرا تو ضرور، مگر پھر بھی اُس نے اُس آدمی کو کھانے کے لیے کچھ دیا اور زنجیروں سے آزاد ہونے کے لیے ایک فائل فراہم کی۔ اُس وقت اُسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا عمل اُس کی پوری زندگی بدل دے گا۔
کچھ عرصے بعد، پپ کی زندگی میں ایک عجیب و غریب موڑ آیا۔ ایک دن اُسے مس ہیویشام نامی ایک امیر اور تنہا عورت کی وسیع مگر اُداس حویلی میں مدعو کیا گیا۔ وہاں اُس کی ملاقات ایک بے حد حسین مگر بے حس لڑکی، ایستلا سے ہوئی۔ ایستلا کی آنکھوں میں ایک عجیب سا غرور تھا، جیسے وہ جانتی ہو کہ لوگ اُس پر فدا ہونے کو تیار ہیں۔ پپ اُس کے سامنے خود کو ایک کم تر لڑکا محسوس کرنے لگا اور اُسی لمحے اُس نے دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ خود کو اتنا بڑا بنائے گا کہ ایک دن ایستلا بھی اُسے عزت دے گی۔
پھر اچانک، قسمت نے بازی پلٹی۔ ایک نامعلوم محسن نے پپ کو لندن بھیجنے اور اُس کے تمام اخراجات اُٹھانے کی ذمے داری لے لی۔ پپ حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں چلا آیا، جہاں شان و شوکت تھی، بڑے لوگ تھے اور ایک ایسا ماحول تھا، جہاں وہ ہمیشہ سے آنا چاہتا تھا۔ اُس کے کپڑے بدل گئے، لہجہ بدل گیا، عادتیں بدل گئیں اور وہ خود کو اُن تمام لوگوں سے بہتر سمجھنے لگا جو کبھی اُس کی زندگی کا حصہ تھے۔ جو گارجرے کی سادگی اور محبت اب اُسے بچکانا محسوس ہونے لگی تھی…… لیکن پھر وہ دن آیا جب حقیقت نے اُسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک اَن جان شخص اس سے ملنے آیا، وہی قیدی، جس کی کبھی پپ نے مدد کی تھی۔ وہ اَب امیر ہوچکا تھا اور وہی پپ کا اصل محسن تھا۔ پپ پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ ساری عمر سمجھتا رہا کہ اُس کی عظمت کی راہ مس ہیویشام نے ہم وار کی کہ وہ ایستلا کے لیے چُنا گیا تھا، مگر حقیقت اُس کے گمان سے کہیں زیادہ تلخ تھی۔
پپ کو سمجھ آیا کہ دولت اور مقام صرف دھوکا ہیں۔ اُس کی اصل عزت اُس محبت میں تھی، جو جو گارجرے نے اسے دی تھی۔ اُس خلوص میں تھی، جو کبھی اُس نے نظر انداز کر دیا تھا۔
وقت کے ساتھ، ایستلا بھی بدلی۔ وہ جو کبھی محبت کو کم زوری سمجھتی تھی، زندگی کے تلخ تجربوں کے بعد، اُسے بھی احساس ہوا کہ انسانیت اور سچائی سب سے بڑی دولت ہیں۔
پپ کی ’’عظیم امیدیں‘‘ ایک حقیقت پسند زندگی میں بدل گئیں۔ اُس نے جان لیا کہ انسان کی عظمت اُس کے دل میں ہوتی ہے، نہ کہ اُس کے لباس، دولت یا تعلقات میں۔ وہ ایک مکمل انسان بن چکا تھانہ امیر، نہ غریب، بس ایک ایسا شخص، جسے خود کو پہچاننے کا ہنر آگیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے