ہم اپنے لڑکپن میں ’’کَروَڑُوں‘‘ (Wild Berries) کے شیدائی تھے۔ جب کبھی اپنی پھوپھی کے ہاں مرغزار جاتے، تو دن کا بیش تر حصہ درے کے پہاڑوں میں ’’کروڑے‘‘ اکھٹا کرنے کی غرض سے مہم جوئی کی نذر ہوتا۔
’’کَروَڑے‘‘ پسند کرنے اور ان کی تلاش میں شوقیہ نکلنے والے جانتے ہیں کہ اس کے پودے کے کانٹے چھوٹے اور خطرناک قسم کے ہوتے ہیں۔ اگر بے خبری میں یہ آپ کا دامن پکڑلیں، تو پھر چھڑانا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح ’’کروڑوں‘‘ کو پودے سے اُتارتے وقت اگر بے خبری میں اس کا کانٹا چبھ جائے، تو تکلیف کی شدت دس پندرہ منٹ برابر محسوس ہوتی ہے۔
’’کروڑوں‘‘ کے حصول میں جب ہم لڑکوں کا دامن اس پودے کے کانٹے پکڑ لیتے، تو پھر دامن چھڑانا مشکل ہوجاتا۔ اک آدھ بار تو میرے کپڑے خراب بھی ہوئے ہیں۔
کانٹوں سے دامن چھڑانے کے لیے اکثر ہم پشتو میں مترنم انداز میں بلند آہنگ گاتے: ’’پریدہ می لمنہ، ما چائے ڈوڈئی خوڑلی دی!‘‘ یعنی ’’چھوڑ میرا دامن، مَیں روٹی اور چائے تناول فرما کر آیا ہوں!‘‘ اور آس پاس موجود ساتھی منھ چھڑانے کی غرض سے ایک ہی تال میں تالیاں بجاتے ہوئے کہتے: ’’دروغ وائی!‘‘ یعنی جھوٹ بول رہا ہے۔ دامن چھڑانے کے بعد ہم بدلے کی تاک میں رہتے کہ کب کسی ’’شریکِ جرم‘‘ کا دامن کانٹوں سے الجھتا ہے اور ہم حساب برابر کرتے ہیں؟
ایک اچھی خاصی مہم جوئی کے بعد جب ’’کروڑے‘‘ مناسب مقدار میں ہمارے ہاتھ آتے، تو پہاڑ سے اُتر کر مرغزار چم کے بڑے چنار کے نیچے نمک کے ساتھ چٹخارے لے لے کر ’’کروڑوں‘‘ سے انصاف فرمانے کی حتی الوسع کوشش کرتے۔ اس کا مزا بس اسے کھانے والے ہی بیان کرسکتے ہیں۔ مَیں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ کروڑوں کے مزے کی تشبیہ شاید کسی بھی چیز سے نہیں دی جاسکتی:
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
حاجی بابا چوک میں ایک بوڑھا بابا مختلف موسمی کچے پکے پھل بیچتا ہے۔ اُس کے ساتھ کئی بار ’’کروڑے‘‘ ایک بڑی قاب میں رکھے ہوئے پائے ہیں۔ اِک آدھ بار پیسے دے کر خریدے بھی ہیں:
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
کانٹے دامن پکڑلیں، پھر مترنم انداز اور بلند آہنگ میں ’’پریدہ می لمنہ، ما چائے ڈوڈئی خوڑلی دی!‘‘ گائیں، ساتھی منھ چھڑانے کے لیے کہیں ’’دروغ وائی‘‘، دامن چھڑاتے وقت کانٹے ہاتھ میں چبھ جائیں اور دن کا بیش تر حصہ ’’کروڑوں‘‘کی تلاش میں گزر جائے، تو ہی لذتِ کام و دہن کا سامان بنتا ہے۔
