میرے پردادا مولانا عبد الحنان رحمہ اللہ کے تین بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے مولانا خونہ گل (رحمہ اللہ) المعروف کیملپور مولوی صاحب، جو میرے سگے دادا تھے۔ دوسرے بیٹے مولانا انظر گل (رحمہ اللہ) المعروف شنگرئی مولوی صاحب اور سب سے چھوٹے بیٹے مولانا سیف الملوک المعروف منگلتان مولوی صاحب تھے۔ آج ذکر صرف مولانا خونہ گل کیملپور مولوی صاحب کا ہونے جا رہا ہے۔
٭ ابتدائی حالات اور خاندانی پس منظر:۔ مولانا خونہ گل ولد مولانا عبدالحنان، سابق نائب صدر دارالعلوم اسلامیہ چارباغ، سوات، تقریباً 1890ء میں ضلع سوات، تحصیل چارباغ کے ایک پہاڑی گاؤں زندوالہ میں پیدا ہوئے۔ اسی نسبت سے ان کا خاندان ’’زندوالخیل ملایان‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے تین چچا تھے: مولانا عبدالرحیم اور مولانا عبدالمنان جو زندوالہ میں مقیم رہے، جب کہ مولانا عبدالرحمان چارباغ کے قریب کوٹ گاؤں میں آباد ہوئے اور ان کے والد محترم نے منگلتان میں سکونت اختیار کی۔
٭ حصولِ علم:۔ مولانا موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے گھر پر حاصل کی۔ اُس زمانے میں تعلیمی سہولیات محدود تھیں، چناں چہ اُنھوں نے ضلع شانگلہ کے مختلف گاوؤں (لیلونئی، کروڑہ اور کانا) میں جاکر علومِ دینیہ حاصل کیے۔ اُنھوں نے فارسی نظم، فقہ، صرف اور نحو میں مہارت حاصل کی۔ کانا گاؤں میں کاکا صاحب سے شرحِ جامی روزانہ دو سطر میں پڑھ کر مکمل کی۔ وہ فنون میں امام مانے جاتے تھے اور فارسی رسم الخط میں مہارت رکھتے تھے، جس کے سبب ریاستِ سوات کے بانی میانگل عبد الودود کے دور میں لیلونئی میں تحصیل دار کے منشی مقرر ہوئے۔ اسی پوسٹ پر کروڑہ میں بھی تعینات رہے اور بعد ازاں بشام میں تحصیل دار مقرر کیے گئے۔
٭ تدریسی و عدالتی خدمات:۔ 1920ء کے لگ بھگ مولانا کی شادی ہوئی، تو اُنھوں نے سرکاری ملازمت ترک کرکے چارباغ کے معروف محلے کیملپور میں قیام کیا اور مسجد میں امامت و تدریس کا آغاز کیا۔ جلد ہی ان کی علمی صلاحیتوں کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور والیِ سوات میانگل عبد الودود نے ان کو تحصیلِ چارباغ کا قاضی مقرر کیا۔
1945ء میں بادشاہ صاحب نے چارباغ میں گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ قائم کیا، تو مولانا تدریس کے ساتھ ساتھ محکمۂ قضا کے اُمور بھی سنبھالتے رہے۔ تاہم، طلبہ کے بے حد اصرار پر انھوں نے قضا کا عہدہ چھوڑ کر تدریس کو مکمل وقت دینے کا فیصلہ کیا۔ 1962ء میں والیِ سوات میانگل عبدالحق جانزیب نے ان کو دارالعلوم کا نائب صدر مقرر کیا اور تاحیات وہ اسی منصب پر فائز رہے۔
٭ علمی مقام اور اثر و رسوخ:۔ مولانا خونہ گل کا درس انتہائی موثر، مدلل اور شان دار ہوتا تھا۔ ان کے دروس میں حاضر ہونے والے طلبہ کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی کہ درس گاہ میں جگہ پانے کے لیے گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی طلبہ دوڑ کر آتے۔ ان کی علمی گرفت، مضبوط دلائل اور گہرے فہم کی بدولت، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں جاپہنچی، جو خیبرپختونخوا، بلوچستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مولانا کے مشہور شاگردوں میں مولانا کفایت اللہ (صدر گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف)، مولانا گل جعفری (سابق صدر دارالعلوم مذکورہ)، مولانا مغفور اللہ (شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)، مولانا دیر بابا جی، مولانا اسفندیار (کراچی)، مفتی نظام الدین شامیزئی شہید (کراچی)، مولانا افضل خان (شاپور)، مولانا فقیر محمد (داجی، سوات) وغیرہ شامل ہیں۔
٭ والیِ سوات کے مشیر:۔ مولانا صاحب نہ صرف ایک جید عالمِ دین تھے، بل کہ اُن کی علمی وجاہت اور فقہی مہارت اس حد تک مسلمہ تھی کہ والیِ سوات میانگل عبدالحق جانزیب انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ریاستِ سوات کے پیچیدہ شرعی اور عدالتی مسائل پر ان سے مشاورت کی جاتی تھی، اور ان کی رائے کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی۔ کئی مواقع پر ریاست کے انتظامی معاملات میں بھی مولانا کی بصیرت سے استفادہ کیا گیا۔
٭ تصوف سے وابستگی:۔ مولانا صاحب نے 1962ء میں حج کا سفر سمندری جہاز کے ذریعے کیا، جو اُس وقت تقریباً چار مہینے پر مشتمل ہوتا تھا۔ 1965ء میں مولانا نے مولانا عبدالمالک رحمہ اللہ (خانیوال) سے بیعت کی اور تصوف کے روحانی سلسلے سے وابستہ ہو کر ان کے خلیفہ مجاز بنے۔
٭ وفات اور علمی ورثہ:۔ مولانا صاحب نے 60 سال تک علمِ دین کی خدمت کی، جن میں 35 سال دارالعلوم میں اور 25 سال مسجد میں درس و تدریس کی صورت میں علم پھیلایا۔ 1980ء میں ضعفِ بصارت کی وجہ سے ملازمت سے سبک دوش ہوئے اور 23 مئی 1984ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔
٭ اہلِ خانہ اور علمی خدمات کا تسلسل:۔ مولانا صاحب نے سوگواروں میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے۔ بڑے بیٹے، میرے والدِ محترم ڈاکٹر محمد احمد المعروف مفتی صاحب، ضروری دینی تعلیم کے بعد میڈیکل ٹکنیشن کے طور پر سیدو شریف ہسپتال میں تعینات ہوئے۔ جب کہ چھوٹے بیٹے، مولانا مسعود احمد (شہید)، جامعہ اشرفیہ لاہور سے فراغت کے بعد گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ چارباغ کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
مولانا خونہ گل رحمہ اللہ کی علمی خدمات، تقوا، بصیرت اور تدریسی محنت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی شخصیت علم و عمل، صبر و استقامت اور حکمت و دانائی کا حسین امتزاج تھی، جس نے ایک مکمل نسل کی علمی و روحانی تربیت کی۔ اللہ تعالیٰ مولانا خونہ گل رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
