ریاستِ سوات بہ طورِ سرپرستِ فنونِ لطیفہ

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ریاستِ سوات کے قیام سے قبل، وادی میں فنونِ لطیفہ سے وابستگی کے شواہد کم ہی ملتے ہیں۔ یہاں زندگی بقا کی مسلسل جد و جہد میں گزر رہی تھی۔ پڑھنا لکھنا ایک نایاب شوق کی مانند تھا…… لیکن جب میانگل عبد الودود، المعروف بادشاہ صاحب، نے وادی میں امن قائم کیا، تو مختلف شعبہ ہائے فن سے وابستہ افراد دارالحکومت سیدو شریف اور مینگورہ کا رُخ کرنے لگے۔ گلوکارائیں، جیسے ’’باچاہی لعل‘‘ اور ’’ماہِ تابان‘‘ جو نہاگ دار، ریاست دیر سے آئی تھیں، بادشاہ صاحب کے دربار میں گانے لگیں۔ یہ دونوں بہنیں شادیوں اور خوشی کے دیگر مواقع پر بھی پیسے لے کر گاتیں۔ ان کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دوسرے مرد و خواتین فن کار بھی ریاست میں آنے اور مینگورہ میں آباد ہونے لگے۔
چند ناخوش گوار واقعات کے بعد بادشاہ صاحب نے حکم جاری کیا کہ جو بھی رقص کرنے والے طائفے کو مدعو کرے گا، وہ دو معززین کے ذریعے ضمانت جمع کروائے گا، تاکہ رقاصاؤں کی حفاظت اور واپسی یقینی بنائی جاسکے۔
دربار میں ایک مزاحیہ کردار، شرف گل، عشا کے بعد بادشاہ صاحب کی تفریح کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
شعر و ادب میں مہارت رکھنے والے لوگوں کو ریاست میں عزت اور ملازمت دی جاتی تھی۔
تاریخ دان جیسے سید عبدالغفور قاسمی اور تاج محمد خان زیب سر ریاست میں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔
اسی طرح دینی علما، جیسے مولوی عبدالمجید اور مولوی ابراہیم، بھی بادشاہ صاحب کے ساتھ تھے۔
بہترین خطاط جیسے کبل کے عزیز الرحمان، ریاستی انتظامیہ میں حاکم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ فضل الرحمان فیضان بھی ایک اچھے خطاط تھے، جنھیں والی صاحب نے سرپرستی دی۔ زیادہ تر شاہی فرامین، جو آج بھی موجود ہیں، انھی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔
رقص کرنے والی خواتین کو کمائی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ریاست نے سال میں دو مرتبہ، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر چھے چھے دن کے میلوں کا انعقاد کیا۔ اس سے عوام کی تفریح ہوجاتی۔ خوش حال افراد ان رقاصاؤں پر پیسے بھی نچھاور کرتے۔ یہ عوامی اجتماعات دریا کے کنارے ہوتے، جہاں آج پولیس لائن قائم ہے۔ یہاں ریاستی افسران کے لیے تین ریسٹ ہاؤس بھی بنائے گئے تھے۔ ایک تحصیل دار دن بھر وہاں موجود رہتا، تاکہ قانون و انتظام کو برقرار رکھ سکے اور رقاصاؤں اور عوام کی حفاظت یقینی بنائے۔ اس میں مینگورہ پولیس کا ایک دستہ بھی معاونت کرتا تھا۔
ان اقدامات نے غیر مقامی فن کاروں، جیسے نسیم اختر اور کشور سلطان کو بھی سوات آنے اور عوامی محفلوں میں فن کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی۔ گلنار بیگم نے بھی ایک دفعہ 5 جون کے جشن میں شرکت کے لیے سوات کا دورہ کیا۔ انھوں نے سخت پردہ برقرار رکھا اور ایک کمرے میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پرفارم کیا۔
5 جون کے موقع پر دو راتیں، رقاصاؤں نے مینگورہ کے مشہور چوک، خاص طور پر تاج چوک میں عوام کو تفریح فراہم کی۔ ان میں مشہور رقاصائیں ’’مس اقبال‘‘، ’’میڈم جان‘‘ اور ’’محبوبہ‘‘ شامل تھیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے