تحریر: علی عمار یاسر
ایک ناول کو کیا چیز اچھا بناتی ہے؟
مَیں نہ کسی ادبی مجلے کا مدیر ہوں، نہ کسی یونیورسٹی کا لیکچرر کہ کسی ناول کے فنی محاسن پر کماحقہ روشنی ڈالوں۔ میرا اُصول سیدھا سادھا ہے۔ کسی کتاب کے ختم ہونے پر میرا دل کہے کہ یہ اچھی ہے، تو کہے، دل نہ مانے تو نہیں ہے، چاہے اس کی توصیف میں کتنے ہی موقر تبصرے آچکے ہوں۔
’’یشار کمال‘‘ کا ناول ’’اناطولیہ کہانی‘‘ میرے دل کو اچھا لگا۔ ’’اناطولیہ کہانی‘‘ کو آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہانی، کراچی کہانی، ملتان کہانی یا کوئٹہ کہانی تو کَہ ہی سکتے ہیں، اسے پاکستان کہانی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ترکی اور پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کی کہانی کافی حد تک ملتی جلتی ہے۔ انسان کو انسان نہ سمجھنے والے، پانچ گاوؤں کے مالک کو ’’اناطولیہ کہانی‘‘ میں عابدی آغا کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایسے وڈیرے آپ کو جا بہ جا مل جائیں گے، جو غریب کسانوں کی زمینیں ہڑپ کرکے اُنھیں اپنے پاس ہی بہ طورِ مزارعین، ہاری رکھ کر اُن کی نسلوں کو بھی محکوم بنانا چاہتے ہیں۔
یہیں کہیں، کوئی ’’محمت‘‘ بھی ہوگا، جو اپنی ’’ہاچے‘‘ سے پسند کی شادی نہ ہونے پر اور عابدی آغا کے مظالم کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے کی خواہش دل میں پال رہا ہوگا۔ یہ آئیڈلسٹ محمت جو چاہتا ہے کہ جو جس زمین پر ہل چلاتا ہے، وہ زمین بس اُسی کی ملکیت ہو، اُسے کسی عابدی آغا کو ہر فصل کا ایک تہائی حصہ نہ دینا پڑے۔
ناول کی کہانی میں جو موڑ آتے ہیں، اُن سے ہمیں عوام کی نفسیات سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ لوگ، جو جابر حکم رانوں کے خلاف خود تو آواز بلند کرنے سے کتراتے ہیں، لیکن کوئی اور جری جوان اس کی ہمت کرے، تو اس کی توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ اس کے لیے نظمیں لکھتے اور ماورائی داستانیں تراشتے ہیں۔ لوگوں کو بس ایک تنکے کا سہارا چاہیے ہوتا ہے، جس پر وہ اپنی آرزوؤں کی ڈوبتی کشتی کے بچاو کی ساری امیدیں لاد دیں۔
محمت اور عابدی آغا کا باہمی تعلق جس طرح بدلتا ہے، وہ اپنی جگہ "Fascinating” ہے۔ ایک وقت پر فرعون بنا عابدی آغا، محمت کی بغاوت کے بعد جس طرح گاؤں آنا چھوڑ دیتا ہے، پتے کی طرح لرزتا ہے اور تقریباً نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ یہ ایک دل چسپ پہلو ہے، جو پسے ہوئے طبقات کو ظالم کے خلاف بغاوت پر اُکساتا ہے۔
ناول کا اختتام یشارکمال کے اسی بنیادی فلسفے کے گرد گھومتا ہے، جس پر ٹالسٹائی نے ’’وار اینڈ پیس‘‘ میں بھی لکھا ہے کہ انسان اپنے حالات، اپنے لوگوں کی توقعات کا پابند ہوتا ہے۔ وہ ان سب سے بالاتر ہو کر کچھ بھی نہیں رہتا۔
ناول میں بہت کچھ افسانوی ہے، محمت کا مخالف ڈاکوؤں کے گینگز، پولیس اسکوارڈن سے اکیلے مقابلہ کرنا کافی ڈرامائی اور ناممکن سا لگتا ہے، لیکن بہ ہرحال ہم سب نے شاید ایسے بہت سے مناظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے اور سوچے ہیں، جو ناممکن ہی ہیں۔ خیر، زندگی اور ہے بھی کیا، سوائے ناممکن کا پیچھا کرنے کے؟
کتاب کا ترجمہ اچھا تھا، رواں اور آسان فہم۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
