تحریر: وقار کنول
روسی ادب کو دنیا میں سب سے زیادہ حقیقت پسند اور انسانی نفسیات کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔ اس میں انسانی جذبات، اخلاقی کش مہ کش اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سفاکی کی حد تک ایمان داری سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ ادب نہ صرف فلسفے اور نفسیات کے راگ چھیڑتا ہے، بل کہ روحانی سفر، سماجی تضادات اور انسان کے اندرونی اخلاقی و سماجی بحرانوں کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ ذیل میں شامل اقتباسات اُن عظیم مصنفین کے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، جنھوں نے اپنے قلم سے ادب کو انسانی کردار و اعمال کی چھلنی سے چھان کر اس اوجِ کمال تک پہنچایا کہ شاید ہی اس کی مثال کسی خطے میں مجموعی طور پر کبھی دو بارہ مل سکے۔
روسی ادب کو انسانی روح کا سرجن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ادب صرف کہانیاں نہیں سناتا، بل کہ زندگی کے ہر جذبے، المیے ، اور ہر سوال کو ایسے نشتر سے چھیڑتا ہے کہ قاری اپنے وجود کی تہہ در تہہ پرتوں سے رُوبہ رُو ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ نفسیات کے ماہرین بھی دوستویفسکی کے کرداروں کے سامنے صلح و سرینڈر کا پرچم تھام لیتے ہیں۔
اب روسی ادب سے ماخوذ کچھ عظیم افکار ملاحظہ ہوں:
٭ چاہے میں ہر اُس چیز پر قابو پا لوں، جو مجھے تکلیف دیتی ہے …… مَیں اب وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ ( دستویفسکی)
٭ وہ لوگ جو کسی مشترکہ المیے، دُکھ کے سبب قریب آتے ہیں، جب اکٹھے ہوتے ہیں، تو ایک خاص سکون محسوس کرتے ہیں۔ (انتھون چیخوف)
٭ صرف وہی چیز یاد رہتی ہے، جسے ہم بھلانا چاہتے ہیں۔ ( دستویفسکی)
٭ جب کوئی تم سے غداری یا دھوکا دہی کرتا ہے، تو یہ ایسا ہے جیسے تمھارے بازو کاٹ دیے گئے ہوں،تم انھیں معاف تو کرسکتے ہو، مگر گلے نہیں لگاسکتے۔ (ٹالسٹائی)
٭ انسان کو سب سے زیادہ اس کے ماضی کی ندامتیں سنوارتی ہیں۔ ( دستویفسکی)
٭ سردیوں کی ٹھنڈ ان لوگوں کے لیے زیادہ سخت ہوتی ہے، جن کے پاس کوئی گرم یادیں نہیں ہوتیں، مگر میرے خیال میں وہ اُن لوگوں کے لیے اور بھی زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے، جن کے پاس یہ یادیں تو ہوتی ہیں، مگر وہ لوگ نہیں جن سے یہ وابستہ تھیں۔ (دستویفسکی)
٭ میرے نزدیک کسی تعلق کا سب سے خوب صورت لمحہ وہ ہوتا ہے جو الوداع سے ذرا پہلے آتا ہے۔ (دستویفسکی)
٭ شاید میرے پاس قابلِ ذکر فتوحات نہ ہوں، مگر میں تمھیں اُن شکستوں سے حیران کر سکتا ہوں، جنھیں میں سہہ چکا ہوں۔ (چیخوف)
٭ جو لوگ کھڑکی کے پاس بیٹھنے پر اصرار کرتے ہیں، وہ اکثر راستے کی تفصیلات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ (لرمانتوف)
٭ اس بوڑھے شخص سے زیادہ بدقسمت کوئی نہیں، جس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کے کندھوں پر رکھے اور پھر ایک دن خود کو ایک نرسنگ ہوم میں پائے۔ (دستویفسکی)
اب مصنفین کا مختصر تعارف ہوجائے:
٭ فیودر دستوئیفسکی ( 1821ء تا 1881ء):۔ روسی ادب کا وہ درویش صفت مفکر، جس نے انسانی نفسیات، مذہب اور اخلاقی کش مہ کش کو اتنی باریکی سے بیان کیا کہ اس کا ہر ناول، فلسفہ اور نفسیات کی ایک مکمل دستاویز بن گیا۔ "Crime and Punishment” میں جرم اور ضمیر کی کش مہ کش، "The Brothers Karamazov” میں ایمان، شکوک اور اخلاقی بحران اور "Notes from Underground” میں فرد کی تنہائی اور بغاوت کو اس مہارت سے پیش کیا کہ آج بھی ان کی تحریریں انسانی ذہن کے پوشیدہ گوشوں پر اتنی باریکی سے ’’فوکسڈ‘‘ رہتے ہوئے لکھنا شاید ناممکن ہے۔
دوستو یفسکی صرف ایک ناول نگار نہیں، بل کہ انسانی ذہن کے اندھیروں کا جغرافیہ نگار ہے۔ سائبیریا کی جیل، موت کی سزا کا حکم اور مرگی کے دورے اُس کی زندگی کا ہر واقعہ اُس کے ناولوں میں زندہ ہے۔ ’’برادران کارامازوف‘‘ میں جہاں اُس نے مذہب، اخلاق اور آزادی کے تصورات کو ایسے گُوندھا ہے کہ فلسفی آج بھی اِس پر سر کھپاتے ہیں۔ اُس کا ہر کردار ایک زندہ تضاد ہے، جو گناہ اور نجات کے درمیان جھولتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سزا یا جزا کا منتظر قاری بھی۔
٭ لیو ٹالسٹائی (1828ء تا 1910ء):۔ جس نے جنگ کو امن سے اور پیار کو المیے سے تعبیر کیا۔ ٹالسٹائی کو روس کا عظیم ترین ناول نگار کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ "War and Peace” محض ایک تاریخی ناول نہیں، بل کہ فلسفیانہ اور نفسیاتی طور پر بھی اتنا جامع ہے کہ یہ انسانی زندگی کی تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ٹالسٹائی کا ادب انسانیت کی اجتماعی روح ہے۔ ’’جنگ و امن‘‘ صرف ایک ناول نہیں، بل کہ تاریخ، فلسفہ اور انسانی جبلت کا دائرۃ المعارف ہے۔ اسی طرح "Anna Karenina” میں اُس نے محبت، اخلاقیات اور سماجی بندھنوں کی اُلجھنوں کو بیان کیا۔ اُس کی زندگی کا دوسرا حصہ روحانی بیداری اور سادگی کی طرف مائل رہا اور وہ ادب میں ایک نئے اخلاقی شعور کو متعارف کرانے کا خواہاں تھا۔ وہ زمین دار تھا، رئیس زادہ، مگر دولت اور شہرت کو ٹھوکر مار کر کسانوں کی زندگی گزاری۔ وہ لکھتا ہے کہ سچائی کی تلاش میں ہر جھوٹ کو جلا دو، چاہے اس کوشش میں تمھارا سارا وجود ہی کیوں نہ خاکستر ہوجائے۔
٭ انتون چیخوف (1860ء تا 1904ء):۔ زندگی کے ادھورے پن کا شاعر، دنیا کے سب سے بڑے افسانہ نگاروں میں شمار کیے جانے والے چیخوف نے سادہ لیکن گہرے اور تلخ حقیقتوں پر مبنی کہانیاں لکھیں۔ ان کی تحریروں میں عام انسان کی محرومیاں، ناامیدی اور زندگی کی تلخ سچائیاں جھلکتی ہیں۔ "The Cherry Orchard” اور "Uncle Vanya” جیسے ڈرامے اس کی گہرائی اور حساسیت کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ مختصر کہانیوں کا شہنشاہ ہے، مگر اُس کی مختصر تحریریں زندگی کے ناکامل لمحات کو ایسے پکڑتی ہیں، جیسے کوئی فوٹوگرافر۔ بندۂ خدا ڈاکٹر تھا، مگر جسم کی جراحت سے زیادہ انسان کی روح و دل کے دکھوں کا علاج اُسے پسند تھا۔ اُس کی کہانیاں کبھی کسی حتمی انجام تک نہیں لے جاتیں، کیوں کہ اُس کا ماننا تھا: ’’زندگی کے سب سے بڑے سوالوں کے جواب ہمیشہ ادھورے ہی ہیں۔‘‘
٭ میخائل لرمانتوف (1814ء تا 1841ء):۔ جس نے 27 سال کی عمر میں ادب کو نئی فتوحات سے روشناس کروایا، یہ ’’جان کیٹس‘‘ اور ’’اساں تے جوبن رُتے مرنا‘‘ جیسے شاہکار لکھنے والے شیو کمار بٹالوی کے گروہ کا بندہ لگتا ہے، جو 30 سالوں تک ہی جھیل پائے۔ وہ شاعری اور نثر دونوں کا شہ سوار تھا۔ اُس کا ناول ہمارے زمانے کا ایک ہیرو، روسی ادب میں بے مقصدیت (Nihilism) کا پہلا سنگِ میل ہے۔ اُس کا ناول "A Hero of Our Time” ایک غیر روایتی ہیرو کی کہانی ہے، جو اپنی الجھنوں میں قید ہے اور جو بہ یک وقت معاشرے کے خلاف بغاوت اور اپنے اندرونی تضادات کا شکار ہے۔ وہ خود بھی ایک باغی تھا، شاہی حکومت کے خلاف نظمیں لکھنے پر جَلا وطن کر دیا گیا۔ اُس کی موت 27 سال کی عمر میں ایک ڈوئل میں ہوئی، جب وہ اپنے ایک پرانے محبوب مِتر سے بندوق کی گولی کھا کر جان کی بازی ہار گیا۔روس کا وہ باغی شاعر اور ناول نگار، جس کی شاعری میں بغاوت، اداسی اور رومانوی جذبات کی شدت نظر آتی ہے۔ وہ ’’پشکن‘‘ کے بعد روس کا سب سے بڑا شاعر سمجھا جاتا ہے۔
قارئین! یہ تمام مصنفین اپنی تحریروں میں زندگی، موت، محبت، دھوکا اور انسانی رویوں کی اتنی عُمیق تصویر کشی کرتے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو ان کہانیوں میں گم ہوتا محسوس کرتا ہے۔ ان کے الفاظ آج بھی حقیقت کی گہرائیوں میں جھانک پانے کی ایک عمدہ کھڑکی ہیں اور روسی سرزمین کو سلیوٹ ہے کہ اس نے برف کے سرد جہنم میں اس قدر آگ لیے لکھاری پیدا کیے کہ جس کی کوئی دوسری مثال کسی ایک خطۂ انسانی میں ملنا ابھی تک تو معجزہ ہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
