الرجی کیا ہے، یہ کن چیزوں سے ہوسکتی ہے؟

Blogger Doctor Noman Khan Chest Specialist

انسان زندگی کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک مختلف مسائل اور بیماریوں کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ ان میں سے کچھ صحت کے مسائل ایسے ہوتے ہیں، جو مناسب علاج کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے ہوتے ہیں، جو مناسب علاج کے بعد بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ عرصے کے لیے کسی مسئلے سے نجات مل جاتی ہے، لیکن کچھ دنوں کے بعد پھر اسی مسئلے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ ’’الرجی‘‘ یعنی زود حساسیت بھی ہے، جو ایک بار انسان کو ہوجائے، تو یہ زندگی بھر اس کے ساتھ رہ سکتی ہے۔
٭ الرجی کیا ہے؟:۔ الرجی کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا بہت ’’امیون سسٹم‘‘ یعنی قوتِ مدافعت کو سمجھنا ہوگا۔ آئیے، امیون سسٹم کو آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصور کیجیے کہ ایک بڑا عالی شان محل ہے، جس کی پہرے داری کے لیے مختلف مہارت رکھنے والے فوجی دستوں کا سسٹم موجود ہے۔ جیسے ہی باہر سے کوئی حملہ آور محل میں داخل ہوتا ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ فوجی دستوں کا یہ سسٹم اسے فوراً پہچان لے گا اور متحرک یعنی الرٹ ہوجائے گا۔ دشمن کے حملے کو ناکام بنانے کے لیے فوجی دستوں کا یہ سسٹم دشمن پر اٹیک کرے گا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ تو جیسے محل کی حفاظت کے لیے مختلف مہارت رکھنے والے فوجی دستوں کا سسٹم موجود ہے، بالکل اسی طرح ہمارا جسم بھی ایک طرح کا محل ہے اور اس کی حفاظت کے لیے بھی ہمارا جسم ایک ’’ڈیفنس سسٹم‘‘ رکھتا ہے، جسے امیون سسٹم کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی باہر سے کوئی حملہ آور (اینٹی جن) جیسے وائرس، بیکٹیریا یا پیرا سائٹ ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تو ہمارا امیون سسٹم متحرک ہوجاتا ہے اور ان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے امیون سسٹم کے سب سے قابل فوجی ’’وائٹ بلڈ سلز‘‘ ہیں۔ جس طرح محل کی حفاظت کے لیے تعینات فوجی دستوں کے پاس مختلف قسم کا ہتھیار موجود ہے، جو دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، بالکل اُسی طرح ہمارے امیون سسٹم کے فوجی دستوں (جیسے وائٹ بلڈ سلز) کے پاس بھی ایسے ہتھیار ہیں، جن کو وہ اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو ’’اینٹی باڈیز‘‘ (خاص قسم کی پروٹینز) کہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہمارے جسم میں 10 ارب مختلف قسم کی ’’اینٹی باڈیز‘‘ پائی جاتی ہیں۔ ہمارے امیون سسٹم کی خاص بات یہ ہے کہ مخصوص قسم کے حملہ آور کو ختم کرنے کے لیے مخصوص قسم کے اینٹی باڈیز موجود ہیں۔ ہمارے امیون سسٹم کے ایسے اینٹی باڈیز جو ایک قسم کے بیکٹیریا (اینٹی جن) کو ختم کرنے کے لیے موجود ہیں، ان کو وائرس کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔ آپ حملہ آوروں کو تالے اور اینٹی باڈیز کو چابی کی طرح سمجھ سکتے ہیں، جس طرح ایک چابی صرف ایک ہی مخصوص تالے کو لگ سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک مخصوص قسم کے اینٹی باڈیز مخصوص قسم کے اینٹی جنز(جیسے وائرس ) سے ہی جڑسکتی ہیں اور ان کے اینٹی جنزکو ختم کرسکتی ہیں۔
٭ الرجی کب ہوتی ہے؟:۔ الرجی اُس وقت ہوتی ہے، جب ہمارا ’’امیون سسٹم‘‘ باہر سے جسم میں داخل ہونے والے ایسے مادوں کے خلاف متحرک ہوجائے اور ان پر اٹیک کرے، جو حقیقت میں غیر نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ہمارے امیون سسٹم کا یہ حساس ردِ عمل ’’الرجی‘‘ کہلاتا ہے۔ جن غیر نقصان دہ مادوں کو یہ دشمن اور حملہ آور (اینٹی جنز) سمجھ کر ان پر اٹیک کرتا ہے، ایسے مادوں کو ’’الرجنز‘‘ کہا جاتا ہے۔ الرجنز عموماً ایک قسم کی پروٹینز ہوتی ہیں، جو مختلف اشیا جیسے انڈے، دودھ، مونگ پھلی، پولن وغیرہ میں پائی جاتی ہیں، یعنی ایسی چیز جس سے کسی شخص کو الرجی ہوسکتی ہے۔ اس میں عموماً یہ پروٹینز موجود ہوتی ہیں (مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر الرجن پروٹین ہی ہو۔) مثلاً: اگر کسی شخص کو دودھ سے الرجی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ میں ایسی پروٹین (الرجن) موجود ہے کہ جب وہ جسم میں داخل ہوتی ہے، تو ہمارا امیون سسٹم فوراً متحرک ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ وہ اس الرجن یعنی پروٹین کو دشمن سمجھ رہا ہوتا ہے، حالاں کہ وہ حقیقت میں غیر نقصان دہ ہوتی ہے۔
جن لوگوں کو کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے، ان کا امیون سسٹم اس چیز میں موجود الرجن کے خلاف حساس ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ چیز یعنی الرجن اس کا دشمن ہے۔ سائنس دان ابھی تک مکمل طور پر یہ نہیں سمجھ پائے کہ کچھ لوگوں میں یہ حساس ردِ عمل کیوں ہوتا ہے؟
دوسرے لفظوں میں محققین ابھی تک مکمل طور پر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کچھ لوگوں کو کسی مخصوص چیز سے کیوں الرجی ہوتی ہے۔کیوں ان کا امیون سسٹم ایسے مادوں کو نقصان دہ سمجھتا ہے، جو کہ حقیقت میں غیر نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اب ہمارا امیون سسٹم ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے امیون سسٹم میں ایسی خرابی آجاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کسی غیر نقصان دہ چیز کو دشمن سمجھتا ہے اور حساس ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے، جس کے نتیجے میں کسی شخص کو الرجی ہوتی ہے۔
ہمارا امیون سسٹم الرجنز کو تباہ کرنے کے لیے جو اینٹی باڈیز بناتا ہے، انھیں امینوگلوبلین E یا igE کہا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو دودھ سے الرجی ہے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ دودھ میں موجود الرجن جب جسم میں داخل ہوگا، تو اس کو ختم کرنے کے لیے ہمارا امیون سسٹم مخصوص ہتھیار یعنی igE تیار کرے گا، اور اگر کسی شخص کو دودھ سے الرجی نہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ میں موجود الرجن کو ختم کرنے کے لیے اس شخص میں وہ مخصوص اینٹی باڈیز igE تیار نہیں کرے گا۔ چوں کہ اس شخص کے امیون سسٹم کے پاس igE نہیں، لہٰذا اسکو دودھ سے الرجی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اس شخص کا امیون سسٹم دودھ میں موجود اس مخصوص پروٹین کو الرجن یعنی حملہ آور نہیں سمجھتا۔
قارئین! آئیں، اب ہم الرجی کے تھوڑے بہت میکانزم کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ کو انڈے سے الرجی ہے، تو اس کا مطب ہے کہ انڈے میں موجود ایسی پروٹین ہے، جس کو ہمارا امیون سسٹم دشمن سمجھتا ہے۔ حالاں کہ وہ غیر نقصان دہ ہے۔اب جیسے ہی آپ انڈا کھائیں گے، تو اس میں موجود الرجن ہمارے جسم میں داخل ہوگا، تو ہمارا امیون سسٹم متحرک ہوجائے گا۔ ہمارا امیون سسٹم کے ایک قسم کے سفید خلیات (لمفو ساٹس) یعنی TH2 اس الرجن کے اثر کو ذائل کرنے یا اس کو تباہ کرنے کے لیے فوراً igE اینٹی باڈیز بنانا شروع کردیں۔ یہ اینٹی باڈیز امیون سسٹم کے ماسٹ سلز (الرجی سیلز) کی سطح (ریسپٹرز) سے جڑ جایں گے۔اب جیسے ہی وہ مخصوص الرجن ماسٹ سلز کے رابطے میں آئے گا، تو وہ اینٹی جن(الرجن) ماسٹ سلز کی سطح پر موجود igE اینٹی باڈیز کے ساتھ جڑ جایں گے۔ جب ایسا ہوگا، تو ماسٹ سیلز متحرک ہوجائیں گے اور طاقت ور کیمیکل ریلیز کریں گے۔ ان میں سب سے اہم کیمیکل ہسٹامین ہے۔
ہمارے جسم پر جو بھی الرجی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، وہ عموماً اسی کیمیکل کے اخراج کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کیمیکل کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اینٹی ہسٹامین ادویہ تجویز کی جاتی ہیں جو کہ الرجی کی سوزش کو کم کرنے میں معاون ہیں۔
مختلف لوگوں کو مختلف چیزوں (الرجنز) کی وجہ سے الرجی ہوسکتی ہے۔ مختلف اشیا کی وجہ سے ہونے والی الرجی کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ کسی شخص کو کس قسم کے الرجن کا سامنا ہوا ہے اور کتنی مقدار میں ہوا ہے؟ ویسے تو کسی بھی شخص کو کسی بھی چیز کی وجہ سے الرجی ہوسکتی ہے، تاہم جن اشیا کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کو الرجی ہونے کا امکان ہوتا ہے، وہ درجِ ذیل ہیں:
٭ کھانے کی اشیا کی وجہ سے الرجی:۔ 90 فی صد لوگوں کو کھانے کی جن اشیا کی وجہ سے الرجی ہوسکتی ہے، اُن میں دودھ، مونگ پھلی، انڈا، گندم، شیل مچھلی، سویا، گری دار میوے وغیرہ شامل ہیں۔
٭ پولن کی وجہ سے الرجی:۔ ’’پولن‘‘ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پھول کا ریزہ یا زرِگل بھی لیا جاتا ہے، جو چھوٹے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں، جو پھولوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ یہ ذرات پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ پولن کے ذرات نر پودے سے مادہ پودوں تک اڑنے والے کیڑوں اور ہوا کے ذریعے پہنچتے ہیں، لیکن بعض پودوں کے ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں، جو ہوا سے اُڑ کر انسانی ناک کے ذریعے سانس لیتے ہوئے داخل ہو جاتے ہیں اور حساس لوگوں میں الرجی کا سبب بن جاتے ہیں۔
٭پالتو جانوروں کی وجہ سے الرجی:۔ پالتوں جانوروں جیسے کتا اور بلی کی کھال، پیشاب، تھوک میں ایسے پروٹینز (الرجنز) ہوتے ہیں جو کچھ لوگوں میں الرجی کا سبب بنتے ہیں۔
٭ کاکروچ کی وجہ سے الرجی:۔ کاکروچ سرخی مائل بھورے رنگ کے کیڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پاخانے، تھوک، انڈے اور مردہ جسم کے اعضا میں ایسے پروٹینز ہوتے ہیں، جو مخصوص افراد میں الرجی کا سبب بن سکتے ہیں۔
٭ لیٹکس کی وجہ سے الرجی:۔ لیٹکس دراصل ایک سیال(Liquid) ہے، جو ربڑ کے درخت سے حاصل ہوتا ہے اور اس کو مختلف قسم کی ربڑ کی مصنوعات جیسے دستانے اور غبارے وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیٹکس میں ایسا پروٹین (الرجن) ہوتا ہے، جو کچھ لوگوں میں الرجی کا سبب بن سکتا ہے۔
٭ حشرات الاارض کے ڈنک مارنے کی وجہ سے الرجی:۔ کچھ حشرات جیسے شہد کی مکھیوں کے ڈنک مارنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو الرجی ہوسکتی ہے۔
٭ ادویہ کی وجہ سے الرجی:۔ کچھ ادویہ جیسے اینٹی بایوٹیکس (پنسلین)، انسولین، نان سٹیروایڈیل اینٹی انفلامینٹری کی وجہ سے الرجی ہوسکتی ہے۔
٭ دھاتوں کی وجہ سے الرجی:۔ کچھ دھاتیں ایسی ہیں، جن کے رابطے میں آنے سے کچھ لوگوں کو الرجی کی شکایت ہوسکتی ہے۔ ان دھاتوں میں کوبالٹ، کرومیم، زنک اور نکل وغیرہ شامل ہیں۔
الرجی مختلف علامات کا سبب بن سکتی ہے جیسے ناک بہنا، آنکھوں سے پانی آنا یا آنکھوں میں سرخی، چھینک آنا، جسم پر خارش ہونا (جس کے نتیجے میں جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوسکتے ہیں)، جسم کے کسی حصے میں سوجن (بالخصوص منھ، گلا، ہونٹ)، سانس لینے میں دشواری، پیٹ میں درد اور سر درد وغیرہ شامل ہیں۔
الرجی معمولی سے شدید تک ہوسکتی ہے۔ اینافالکسیس ایک شدید الرجک ردِ عمل ہے، یا یوں سمجھیے یہ ایک شدید قسم کی الرجی ہے۔ اس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری اور بلڈ پریشر میں اچانک یا بہت کمی ہے۔ یہ ایک ہنگامی اور جان لیوا حالت ہے۔ اگر متاثرہ شخص کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ اینافالکسس کے مریض کو ڈاکٹر عموماً ایپی نیفرین دوا دیتا ہے، جو بلڈ پریشر کو معمول پر لانے میں کار آمد ہے۔ اینا فایلکسس اکثر کھانے، ادویہ اور کیڑوں کے زہروں جیسے الرجنز کی وجہ سے ہوتا ہے۔
الرجنز چار اہم راستوں کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں:
٭ نظامِ انہضام:۔ منھ کے ذریعے غذا اور ادویہ کی شکل میں جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔
٭ نظام تنفس:۔ نظامِ تنفس یعنی جس میں ناک اور پھیپڑے شامل ہیں، کے ذریعے پھپھوند، پولن، گرد و غبار اور جانوروں کے بالوں کی خشکی کی شکل میں جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔
٭ جلد:۔ جلد کے ذریعے رال گوند (Latex)، دھاتوں کو چھونے سے (ان میں موجود الرجنز) ہمارے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔
٭ نظامِ دورانِ خون:۔ خون میں یہ الرجنز انجکشن کے ذریعے ادویہ اور زہر(جیسے شہد کی مکھی ڈنک مارتی ہے) کی شکل میں جسم میں داخل ہوتے ہیں۔
قارئین! یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑوں کی نسبت بچوں میں الرجی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے تو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ بعض لوگوں کو کسی مخصوص چیز سے الرجی کیوں ہوتی ہے اور بعض لوگوں کو اس مخصوص چیز سے الرجی کیوں نہیں ہوتی؟ البتہ کچھ ماحولیاتی اور موروثی ایسے عوامل ہیں، جو الرجی کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کے والدین کو الرجی ہو، تو اُن میں الرجی ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر والدین میں سے کسی ایک کو الرجی ہو، تو بچے کو الرجی ہونے کا امکان 30 سے 50 فی صد ہوتا ہے۔ اگر کسی بچے کے دونوں والدین کو الرجی ہو، تو اس بچے کو الرجی ہونے کا امکان 70 فی صد تک ہوتا ہے۔
ماحولیاتی عوامل جو الرجی کے رجحان کو بڑھانے میں معاون ہیں۔ ان میں زرگل کے موسم میں کسی بچے کا پیدا ہونا،ماں کا دودھ نہ پینا، تمباکو نوشی کے گھر میں پرورش پانا، گھر میں پالتو جانور کا ہونا شامل ہیں۔
یاد رہے کہ الرجی کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔ الرجی کا موثر علاج یہی ہے کہ جس چیز کی وجہ سے کسی فرد کو الرجی ہوتی ہے، اۃس سے حتی الامکان بچا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو انڈے سے الرجی ہے، تو الرجی سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ انڈے سے مکمل طور پر پرہیز کیا جائے۔ جب تک آپ انڈا استعمال کریں گے، آپ کو اُس وقت تک الرجی کی شکایت ہوتی رہے گی۔ ایسی کوئی دوا نہیں کہ جو امیون سسٹم کو بتائے کہ ’’بھیا! یہ جو انڈا ہے، اس میں موجود پروٹین (یعنی جس کی وجہ سے الرجی ہوتی ہے، جسے الرجن کہتے ہیں) تمھارا دشمن نہیں، بل کہ یہ غیر نقصان دہ ہے۔ نہ ہم امیون سسٹم کو جسم سے نکال ہی سکتے ہیں۔ کیوں کہ اگر اس کو نکالا، تو پھر ہماری موت پکی ہے۔الرجی کی ادویہ صرف الرجی کی سوزش کو کم کرسکتی ہیں۔ الرجی کی ادویہ عموماً اُس وقت تجویز کی جاتی ہیں، جب کسی الرجن سے بچنا نامکمن ہو۔
اگر کسی فرد کو لگتا ہے کہ اس کو الرجی ہے، تو اس کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ متاثرہ شخص ’’الرجسٹ‘‘ سے رابطہ کرے۔الرجسٹ، الرجی کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ استعمال کرتا ہے۔ اُن ٹیسٹوں میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ عام استعمال ہونے والا ٹیسٹ جلد کا ’’پرِک ٹیسٹ‘‘ ہے، جسے انگریزی میں "Skin Prick Test” کہتے ہیں۔
الرجسٹ اس ٹیسٹ کے ذریعے ممکنہ الرجن کی شناخت کرتا ہے، جس کی وجہ سے کسی شخص کو الرجی ہوسکتی ہے۔ اس ٹیسٹ میں الرجسٹ بازو یا کمر کی جلد پر ممکنہ الرجنز (یعنی ایسے الرجنز جن کی وجہ سے اس کو الرجی ہوسکتی ہے) مائع شکل میں سوئی کے ذریعے چبھوتا (Prick) ہے، تاکہ وہ مائع جلد کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکے۔ 10 تا 15 منٹ کے بعد ٹیسٹ کے مقام پر سرخی پیدا ہوتی ہے اور ابھرے ہوئے گول دھبے بن جاتے ہیں، جن کو ’’وہیل‘‘ (Wheel) کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ ہوا سے ہونے والی الرجی، کھانے کی وجہ سے ہونے والی الرجی اور پینسلین کی وجہ سے ہونے والے الرجنز کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے