(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
"My back tells me that I have entered Swat State, while driving my car”
’’میری پُشت مجھے بتاتی ہے کہ مَیں اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ریاستِ سوات میں داخل ہو چکا ہوں۔‘‘
یہ وہ جملہ ہے جو ’’فریڈرک بارتھ‘‘ نے اپنی کتاب "The Last Wali of Swat” میں نقل کیا ہے۔ یہ کسی اور شخص کے الفاظ تھے، جو والی صاحب نے بارتھ کو سوات کی سڑکوں کے معیار کے بارے میں بتائے تھے۔
ریاست کی سڑکوں کو ممکنہ حد تک بہترین معیار پر برقرار رکھنا اور ان کی دیکھ بھال ایک منظم نظام کے تحت کی جاتی تھی۔ نئی سڑکوں کی تعمیر کے لیے کنٹریکٹ سسٹم متعارف کرانے سے پہلے، ریاستی ملیشیا فورس سڑکوں کی تعمیر پر مامور تھی۔ پہلے سے موجودہ سڑکوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک نیم مسلح یا پیرا ملٹری فورس بھی مستقل طور پر تعینات کی گئی تھی، جو ہفتے میں چھے دن کام کرتی تھی۔
اس فورس کی تنظیم ریاستی فوج کے طرز پر تھی۔ انھیں سال میں دو بار ربیع اور خریف کی فصل کے موقع پر اناج کی صورت میں ادائی کی جاتی تھی۔ اس فورس کے عہدے اور رینک ریاستی فورس کے مشابہ تھے: سپاہی، حوالدار، جمعدار، صوبیدار، صوبیدار میجر، کپتان اور کمانڈر۔
تعداد اور علاقے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر گروپ کی تشکیل کی جاتی تھی، لیکن کوئی معین پیمانہ مقرر نہیں تھا۔
فورس کی سروس، ہتھیاروں اور گولہ بارود کا ریکارڈ ایک مخصوص برانچ میں رکھا جاتا تھا، جو کمانڈر روڈز کے دفتر سے منسلک تھا۔ یہ دفتر نائب سالار کے مرکزی دفتر کے زیرِانتظام تھا، جو ریاست کی مسلح اور پیرا ملٹری فورس کا انچارج تھا۔ روڈ کمانڈر کو عملے کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے ایک جیپ فراہم کی گئی تھی۔ روڈ عملے کو عام طور پر ’’سڑکیان‘‘ کہا جاتا تھا۔
1961ء میں کپتان عبد الحنان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیپٹن آف روڈز کا عہدہ بھی ختم کر دیا گیا اور عملہ بہ راہِ راست کمانڈر روڈز کے زیرِ انتظام آگیا۔ بہترین کارکردگی دکھانے والے صوبیدار میجرز کو اطالوی ساختہ اسکوٹر فراہم کیے گئے، جب کہ دیگر رینکوں کو سائیکلیں دی گئیں۔
اس فورس میں گدھوں سے بھی مٹی دھونے کا کام لیا جاتا تھا۔ ان گدھوں کے مالکان کو دوگنا ’’برات‘‘ دیا جاتا تھا (برات اناج کی صورت میں معاوضے کو کہا جاتا تھا۔)
دو مشہور کمانڈرز، میاں سید لالا اور سرفراز خان، اس فورس کے انچارج رہے ہیں۔ دو اَور افسانوی حیثیت کے حامل صوبیدار میجرز، خوگ صوبیدار میجر (پراپر سوات سیکشن) اور میاں مصطفی عرف کڑا کڑا پاچا (بونیر سیکشن)، نے پاکستان کے ساتھ ریاست کے انضمام تک خدمات انجام دیں۔ ان کی شان دار کارکردگی کی کچھ کہانیاں اب بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔
انضمام کے چند مہینوں میں فورس کو تحلیل کر دیا گیا اور اس سے سیکڑوں سائیکلیں اکٹھی کی گئیں، جو سیدو شریف کے پی ڈبلیو ڈی اسٹور کے قریب کھلی جگہ میں جمع کر دی گئیں۔ نئی انتظامیہ نے ان کا کیا کیا؟ وہ ایک الگ کہانی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
