مینگورہ شہر کے کباب خانوں کا جب بھی کبھی ذکر ہوگا، ’’میرجو ‘‘ کباب خانہ (کباب خانہ کو ہم پشتو میں عام طور پر کڑھے بولتے ہیں) کے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی۔ ’’میرجو کڑھے‘‘ مجھے یاد ہے مگر اس کے ساتھ میری کوئی ایسی یاد وابستہ نہیں، جسے یہاں رقم کیا جاسکے۔ البتہ اس کے بارے میں ایک محترم سے کہانی سنی تھی، جسے جیسے ہی اُس وقت سوشل میڈیا پر ایک چھوٹی سی پوسٹ کی شکل میں شیئر کیا، تو علی الصباح اُن کا فون آیا اور مذکورہ پوسٹ ’’ڈیلیٹ‘‘ کرنے کا کہا۔ فون کاٹنے کے بعد پوسٹ تو نہیں ہٹائی، البتہ اُس میں تھوڑی سی ایڈیٹنگ ضرور کی۔ کہانی تھوڑی سی ترمیم یا اضافے کے ساتھ یہاں رقم کی جاتی ہے، (یہ کہانی میری یادداشتوں کے سلسلے ’’مینگورہ، اک شہر بے مثال (چھٹی قسط)‘‘ کا بھی حصہ ہے، راقم) ملاحظہ ہو:
’’ایک محترم (نام بہ وجوہ رقم نہیں کیا جا رہا) نے ظہرانے میں کباب منگوایا اور ہمیں نوشِ جاں فرمانے کی دعوت دی۔ گرما گرم کباب تناول فرماتے وقت انھوں نے اپنے گاؤں ’منگلور‘ کے ایک بزرگ ’شیر عالم خان‘ (مرحوم) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہمارے سامنے پڑے اس چھوٹے سائز کے کباب کو بھی کوئی کباب کہتا ہے بھلا……! خدا سلامت رکھے شیر عالم خان کو، وہ جب منگلور سے مینگورہ شہر میرجو کڑھی میں قدم رنجہ فرماتے، تو آواز دیتے:’الکہ، شیر عالم خان ککوڑے ……!‘ اور دس پندرہ منٹ میں اتنے بڑے سائز کا کباب تیار ہوتا، جسے ایک بڑے تال نما برتن (جسے ہم پشتو میں’غورئی‘ کہتے ہیں) میں ’سرو‘ (Serve) کیا جاتا۔ کباب کے ساتھ کٹے ہوئے نارنج، ہری مرچ، پیاز اور میرجو کڑھی کی تیار کی ہوئی روایتی چٹنی رکھ دی جاتی۔ شیر عالم خان، کباب کے ساتھ روٹی کھانے کو معیوب گردانتے اور مدعو کیے گئے مہمانوں کو بھی کباب روٹی کے بغیر کھانے کی تلقین کرتے۔ شیر عالم خان کے نام پر آج بھی مرجو کڑھی میں ’شیر عالم خان ککوڑے ‘ دست یاب ہے۔
ایک عزیز نے جب میری یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر پڑھی، تو چند دوستوں کو ساتھ لے کر میرجو کڑھی گیا۔ وہاں شیر عالم خان (مرحوم) کی طرح شانِ بے نیازی سے ہاتھ کھڑا کرکے کہا: ’’الکہ! شیر عالم خان ککوڑے!‘‘ کباب ایک بڑے برتن میں لاکر اُن کے سامنے رکھا گیا۔ دوستوں نے خوب مزے لے لے کر کباب کھایا، مگر جیسے ہی بِل ادا کرنے کا وقت آیا، تو عموماً لوگوں کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں، موصوف کے اُس وقت ساڑھے چودہ روشن ہوئے۔ اُس کے بعد اُنھوں نے ’’وٹس اپ‘‘ پیغام کے ذریعے جو گل پاشی کی، وہ الفاظ غیر پارلیمانی کیا…… بل کہ غیر جمہوری ہیں۔‘‘
میری یادیں دو کباب خانوں کے ساتھ وابستہ ہیں: پہلا، ’’فیروز شاد کڑھے‘‘ جو پرانی سبزی منڈی مینگورہ میں قائم تھا، جب کہ دوسرا ’’قذافی چپلی کباب سنٹر‘‘ ہے۔
’’فیروز شاد کڑھی‘‘ کی بنیاد ریاستی دور میں رکھی گئی تھی۔ فیروز شاد کے بیٹے ’’عثمان علی‘‘ کے بقول: ’’ہمارے کباب خانے کی بنیاد ہمارے چچا خوشحال لالا نے رکھی تھی۔ اُن کے انتقال کے بعد یہ میرے والد حاجی فیروز شاد (مرحوم) کے حوالے ہوا۔‘‘
قذافی چپلی کباب سنٹر کے حوالے سے مَیں نے حاجی سیفور غنی کو مارچ 2022ء میں انٹرویو کیا تھا، اُن کے بہ قول: ’’مَیں نے اس کباب خانے کی بنیاد بھٹو کے دور میں رکھی تھی۔ آپ کَہ سکتے ہیں کہ اِس کے تقریباً 50 سال پورے ہوچکے ہیں۔ اول اول دو طرح کا کباب ہمارے ہاں تیار ہوتا تھا، ایک چھوٹا، دوسرا بڑا۔ چھوٹے کی قیمت 8 آنے جب کہ بڑے کی 1 روپیا تھی۔ ‘‘
حاجی سیفور غنی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’مَیں ڈیفنس لائن میں ہاف پوزیشن پر فٹ بال کھیلا کرتا تھا۔ ہماری ٹیم کا نام ’قذافی فٹ بال کلب‘ تھا۔ بعد میں جیسے ہی یہ کباب خانہ مَیں نے کھولا، تو اس کا نام ’قذافی چپلی کباب سنٹر‘ رکھا۔‘‘
آج کی تصویر کہانی میں دکھائی دینے والا کباب خانہ دراصل ’’قذافی چپلی کباب سنٹر‘‘ ہے، جس کا کباب مینگورہ شہر میں کافی مقبول ہے۔ تصویر میں دکھائی دینے والے دونوں جوان حاجی سیفور غنی کے بیٹے ہیں۔ دائیں بیٹھا کبابی ارشد غنی اور بائیں بیٹھا جمیل غنی ہے۔ یہ تصویر 5 فروری 2025ء کو کھینچی گئی ہے۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)
