کبھی خواب نہ دیکھنا (باون ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

مجھے تباہ حال وادیِ سوات میں واپس پہنچنے کے بعد بہت افسوس ہوا۔ نہ پانی کی فراہمی، نہ بجلی اور نہ ہی پائیدار امن۔سب سے بد ترین ’’سرپرائز سرچ آپریشن‘‘ تھا۔ فوجی دن یا رات میں کسی بھی وقت گھروں کی تلاشی لینے کے لیے آ جاتے تھے۔ یہ راشن سینٹروں یا حاجی کیمپ کے واقعہ سے زیادہ توہین آمیز تھا۔ تین ماہ بعد بجلی جزوی طور پر بہ حال ہوئی۔ راشن کی سہولت کو مزید چند ماہ تک بڑھا دیا گیا۔ موسیٰ خیل کے ہمارے دیہات کے لیے، نویکلے کو چائے، چینی اور باورچی خانے کے استعمال کی دیگر اشیا تقسیم کرنے کا مرکز قرار دیا گیا تھا۔ ماحول کشیدہ اور اعصاب شکن تھا۔ اب ہمارا راولپنڈی میں نیفرولوجسٹ کے پاس جانا اتنا ہی مشکل تھا جتنا پلِ صراط پر سے گزرنا۔ چیک پوسٹوں پر ذلیل ہونے کے واقعات عام تھے۔ ان تمام ناپسندیدہ عناصر نے میری بیوی کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے تھے۔ انھیں راولپنڈی کے بلال ہسپتال میں انتہائی نگہ داشت کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔ وہ اکثر ذہنی خرابی کی حالت میں گم صم رہتی تھی۔ بس آس پاس کی چیزوں کو دیکھتی رہتی۔ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ وہ تشخیص کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے دماغ کو کتنا نقصان پہنچا ہے؟
نئے سال 2010ء کے آغاز پر، اس نے مجھ سے آخری بار گفت گو کی۔ کہا: ’’خانہ، اگر مَیں نے کبھی آپ کی نافرمانی کی ہو یا کوئی ایسی بات جس سے آپ کو تکلیف ہوئی ہو، تو مجھے معاف کر دیں۔ مَیں جلد ہی تمھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانے والی ہوں۔‘‘
پھر وہ مسلسل اللہ کے نام کا ذکر کرنے لگی، یہاں تک کہ وہ کوما میں چلی گئی۔ ہم اسے پشاور کے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے کلینک پر لے گئے جو ایک پیر بھی تھا۔ اس نے اسے چیک کیا اور ہمیں بتایا کہ یہ کم از کم چار گھنٹے کا معاملہ ہے۔
پشاور سے واپسی پر ہمیں درگئی چیک پوسٹ پر روک دیا گیا۔ ایک سپاہی آیا اور ٹیکسی کی پچھلی سیٹ کو دیکھ کر اپنی بگڑی ہوئی پشتو میں بولا: ’’بیماران دے ؟‘‘ ہم نے کہا، ہاں! وہ بغیر کچھ کہے چلا گیا۔ کافی وقفے کے بعد دوسرا سپاہی آیا اور پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ مَیں نے اسے بتایا کہ ہم اپنے گھر ابوہا، سوات جا رہے ہیں۔ پھر اس نے ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔ رات کو بہت دیر سے ابوہا پہنچے۔ اگلے دن، شام 5 جنوری 2010ء کو، اُس نے اچانک آنکھیں کھولیں، اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیکھا اور پھر اپنی نظریں مجھ پر جمائیں۔ وہ حیرت زدہ انداز میں سب کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کی شادی کا پہلا دن ہو۔ اس کی نیلی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں اور پھر اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔
اس سے ایک دن پہلے اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ اسے ماں کے انتقال کا علم نہ ہوسکا۔ اسے اسی شام اس کی ماں کے پاس دفن کیا گیا۔ اپنی موت سے کچھ دن پہلے، اس نے کہا: ’’خانہ! زندگی میں کوئی پچھتاوا نہیں۔ مَیں نے اچھے دن بھی دیکھے ہیں، تو برے دنوں کا کیوں ذکر کروں…… لیکن مجھے ایک بات کا افسوس ہے۔ مجھے اپنی بیماری سے پہلے تمھارے لیے بیوی کا بندوبست کرنا چاہیے تھا۔ تم تو اتنے اناڑی ہو کہ اپنے بالوں میں خود تیل بھی نہیں لگا سکتے۔ مَیں جانتی ہوں کہ تم ایسا نہیں کرو گے اور تم اپنے سارے بال کھو دو گے، میں نے تمھیں بگاڑ دیا ہے۔ مجھے تمھاری بہت فکر ہے۔‘‘ مَیں نے کہا: ’’فضول باتیں مت کرو۔ تم جلد ہی ٹھیک ہوجاؤگی۔ فرض کرو کہ کہ تم نے میری شادی کرائی ہوتی، تو کون اس غیر معمولی نسبت کی کام یابی کی ضمانت دے سکتا تھا۔‘‘
وہ صبر و ایثار کی علامت تھی۔ اس نے میری اس کے ساتھ دھوکا دہی کو نظر انداز کیا۔ جب میں پارٹیوں سے دیر سے واپس آتا، تو اس نے کبھی شکایت نہیں کی۔ وہ خاموشی سے روئی ہوگی، لیکن اپنے اندر کا درد کسی کو معلوم نہ ہونے دیا۔ وہ صرف قرآن پاک پڑھ سکتی تھیں اور وہ سال میں لگ بھگ 50 مرتبہ اللہ کی مقدس کتاب کا ختم کرتی تھی۔ یہ اُس کی روحانی غذا تھی۔ کبھی کبھی، مَیں خوف سے کانپ جاتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے لیے ایسی پاکیزہ روح کو دھوکا دینے پر کون سی سزا ملے گی؟ کبھی کبھی وہ ہنس کر کہتی: ’’تم کب بڑے ہوگے، لیکن نہیں۔ مجھے آپ کا ساتھ پسند ہے۔ اس لیے مجھے تم سے پیار کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
مَیں نے اس کی وفات کے اگلے ہی دن ناشتے میں اس کی غیر موجودگی محسوس کی۔ کوئی چیز غائب تھی۔ شاید اس کے ہاتھ کا لمس، اس کی نیلی آنکھوں کا دیدار، اس تحفظ کا احساس، جب مَیں اس کے آس پاس ہوتا تھا۔ ہمارا خاندان بہت بڑا تھا، لیکن اس نے سب کو خوش رکھا۔ وہ خاندان میں ملکہ کی طرح تھی۔ اسے اللہ پر پورا بھروسا تھا۔ وہ شموزئی یا الہ ڈند سے بہترین چاول خرید کر منگواتی۔ کیوں کہ ہم روزانہ چاول کھاتے۔ اگر اس کے ہاتھ میں نقد رقم نہ ہوتی، تب بھی وہ اسے خرید لیتی۔ جب مَیں اس سے کہتا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، تو وہ کہتی تھی کہ ’’اللہ اس کا انتظام کرے گا۔ فکر نہ کرو۔‘‘ اور ڈیلر کے تقاضے سے پہلے ہی اس کا اہتمام ہوجاتا۔ شموزئی کے چاول اس کے پسندیدہ تھے اور الہ ڈنڈ دوسری ترجیح تھی۔ وہ سیدو شریف میں رہنے والی میری بیٹی کو بھی 100 کلو چاول بھیجواتی۔ اس کے انتقال کے بعد اسے وہ چاول کبھی نہیں ملے۔ کیوں کہ اب ہم ہفتہ وار یا ماہانہ استعمال کے لیے چاول خریدتے ہیں۔ ہمارے گھر کا ہر فرد ہر روز ایک بار اس کی غیر موجودگی کو محسوس کرتا ہے۔ اس کی روح کو ابدی سکون نصیب ہو، آمین! (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے