ڈوبتی معیشت، اراکین پارلیمنٹ اور عوام

Blogger Syed Shahid Abbas Kazmi

اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ایک متنازع فیصلہ ہے، جس پر ملک بھر میں شدید ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ ایسے میں حکومتی نمایندوں کے لیے مراعات میں اضافہ کرنا عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے کے تحت، اَب ایک رکنِ قومی اسمبلی یا سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ و مراعات 5 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگی۔
یہ اضافہ اس اُصول کے تحت کیا گیا ہے کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور مراعات وفاقی سیکریٹری کے برابر ہونی چاہئیں۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق، اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اس فیصلے کی متفقہ منظوری دی، جس میں یہ طے کیا گیا کہ تمام کٹوتیوں کے بعد وفاقی سیکریٹری کی تنخواہ اور الاؤنس کے مساوی رقم ہی اراکینِ پارلیمنٹ کو دی جائے گی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اراکینِ پارلیمنٹ نے 10 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اسپیکر ایاز صادق نے اسے مسترد کرتے ہوئے 5 لاکھ 19 ہزار کی حد مقرر کی۔ اگرچہ اسپیکر نے مطالبہ پورا نہیں کیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہ میں اضافہ واقعی ضروری تھا؟
پاکستان میں موجودہ وقت میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ پیٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں روزانہ اضافے کے باعث عوام پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حکومت عوام کو کفایت شعاری کا درس دیتی ہے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے دعوے کرتی ہے۔
پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک عام شہری جو پہلے 30 سے 40 ہزار روپے میں گھر کا خرچ چلا لیتا تھا، آج وہی شخص دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کے اراکین کے لیے 5 لاکھ سے زائد کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا جواز کیا ہوسکتا ہے؟
اس وقت پاکستان پر مجموعی طور پر 130 ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضہ ہے۔ ملک کی معیشت بیرونی امداد اور قرضوں پر چل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل کیا، تاکہ ملک دیوالیہ نہ ہو۔ ایسے میں عوام کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں بنیادی سہولتوں پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں، تو پارلیمنٹیرینز کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے بجٹ کہاں سے آگیا؟
ایک عام دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اراکینِ پارلیمنٹ کا معیارِ زندگی بلند ہونا چاہیے، تاکہ وہ کرپشن سے دور رہیں اور ملک و قوم کے لیے بہتر پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔ یہ دلیل کسی حد تک درست ہوسکتی ہے…… لیکن اگر ہم پاکستان کے زمینی حقائق پر نظر ڈالیں، تو ہمیں ایک مختلف تصویر نظر آتی ہے۔
پاکستان میں اراکینِ پارلیمنٹ کی مراعات پہلے ہی کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیں۔ انھیں سرکاری گاڑیاں، رہایش، مفت سفری سہولتیں، ہیلتھ کیئر اور دیگر کئی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ترقیاتی فنڈز کی شکل میں بھی انھیں خطیر رقم دی جاتی ہے، جس کے استعمال پر اکثر سوالات اٹھتے ہیں۔
دوسری طرف، اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کریں، تو امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں عوامی معیارِ زندگی اور ملک کی معیشت کے مطابق طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام شہری 32 ہزار روپے ماہانہ کم از کم اجرت پر بہ مشکل گزارا کر رہا ہے، وہاں پارلیمنٹ کے اراکین کے لیے لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات ایک غیر منطقی اقدام معلوم ہوتا ہے۔
حکومت کو سب سے پہلے عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر واقعی قومی خزانے میں اتنی گنجایش ہے کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائی جاسکتی ہیں، تو پھر یہی رقم تعلیم، صحت اور دیگر عوامی سہولیات پر کیوں نہیں لگائی جاسکتی؟
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کا بنیادی مقصد عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وہاں عوام کو سستی ٹرانسپورٹ، معیاری صحت کی سہولتیں اور بہترین تعلیمی مواقع دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس، حکومتی اخراجات میں اضافے کی صورت میں بوجھ صرف عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔
اگر موجودہ حکومت واقعی ملک کے معاشی مسائل حل کرنا چاہتی ہے، تو اسے سب سے پہلے اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔ غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور اراکینِ پارلیمنٹ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں، حکم ران نہیں۔
اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کے لیے بھی نئی گاڑیاں منگوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت بار بار کفایت شعاری اور معاشی بحران کی دہائی دے رہی ہے، تو پھر بیوروکریسی اور پارلیمنٹ کے لیے غیر ضروری مراعات کی فراہمی کیوں کی جا رہی ہے؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ انھی فنڈز کو عام شہریوں کی بہبود کے لیے مختص کیا جائے؟
اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ اور ایف بی آر افسران کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری جیسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتی ترجیحات عوامی مشکلات سے کہیں زیادہ اشرافیہ کی سہولتوں پر مرکوز ہیں۔ اگر عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا، تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے تو گریز کیا جائے!
ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو، یا عوام مسائل کے انبار میں گھرے ہوں، سیاسی شعبدہ بازوں کو تو غرض اپنے آپ سے ہے اور ان کا نیرو چین کی بانسری ہی بجائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے