کبھی خواب نہ دیکھنا (اکتالیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

میرے گھر سے دور پوسٹنگ نے میرے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیے تھے۔ ایک تو میری خاندانی زندگی تقریباً بکھر گئی تھی۔ مَیں اپنے بچوں (دو پیارے بیٹے اور ایک بیٹی) کے ساتھ وقت گزارنے سے محروم تھا۔ مَیں ’’ویک اینڈ‘‘ پر آتا، تو سواڑئی سے مینگورہ تک کے سفر سے میرا سر چکرا رہا ہوتا۔ علاوہ ازیں میری غیر موجودگی میں پیدا ہونے والے بعض گھریلو مسائل مجھے پریشان کر دیتے۔
آہستہ آہستہ، مَیں نے گھر آنا کم کر دیا۔ بعض دفعہ مَیں ایک یا دو ’’ویک اینڈز‘‘ کو چھوڑ دیتا۔ مَیں نے سواڑئی کے اُس بڑے گھر میں تنہا رہنے کو ترجیح دی۔ محکمہ کی طرف سے ہمیں جو نوکر دیا گیا تھا، وہ بھی کسی زمین دار کا کرایہ دار تھا اور کالج کے احاطے سے تھوڑی دور ایک کھیت کے ساتھ بنے ایک کوٹھے میں رہتا تھا۔ چناں چہ راتوں کو وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر گارے سے بنے اپنے گھر چلا جاتا، جہاں اس کے بیوی، بچے اور مویشی رہتے تھے۔
 یوں مَیں نے دوسرے طریقوں سے سکون تلاش کرنا شروع کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر، ریاستی دور میں میری 8 سالہ سروس میں دیانت داری اور کوالٹی کنٹرول پر عمل پیرا ہونے نے مجھے ٹھیکہ داروں کے لیے ناپسندیدہ شخصیت بنا دیا تھا۔ وہ سب میرے خلاف تھے اور میرے سیکشن میں کام کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے۔ اگر اتفاقاً میرے دائرۂ اختیار میں کسی کو ٹھیکہ مل بھی جاتا، تو یہ کَہ کر، کہ اگر ضوابط پر سختی سے عمل کرنا ہے، تو سٹاف کو 18 فی صد کمیشن کیوں دیں؟ محکمہ کا کمیشن بند کردیتا۔ اس سے پورا محکمہ میرے خلاف ہوگیا۔
وہ میری "ACRs” (سالانہ خفیہ رپورٹ) کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے۔ افسران ہمیشہ منفی ریمارکس سے گریز کرتے ہیں اور ماتحتوں کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں، اس کی ترقی کے لیے سفارش کرتے ہیں وغیرہ، لیکن میری "ACRs” منفی ریمارکس سے بھری ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ ایک سوال (کیا وہ پیتا ہے؟) کا جواب بھی اثبات میں دیتے۔ مخالفت کی ان لہروں کے تلاطم نے مجھے ناپسندیدہ جگہوں پر راحت تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔
ایک دفعہ تمام ٹھیکہ داروں نے، جن کی سربراہی شمشی نامی شخص کر رہا تھا، اجتماعی طور پر حلف اُٹھایا کہ وہ میرے چارج کے تحت ٹھیکوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ صرف ایک ٹھیکہ دارنے میرے خلاف اس بغاوت کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ وہ حبیب الرحمان خان آف کلپانئی تھے، جو بعد میں خیبر پختونخوا حکومت میں وزیر بنے۔ انھوں نے میٹنگ میں بتایا کہ وہ خود بھی ضوابط کی خلاف ورزی کے حق میں نہیں، تو وہ معیاری کام کا مطالبہ کرنے والے اہل کار کے خلاف کیوں کھڑے ہوں؟
مجھے صحیح تاریخ تو یاد نہیں، لیکن سال 1984تھا، ہمارا سپرنٹنڈنٹ انجینئر بونیر کے دورے پر تھا۔ اس کے دوپہر کا کھانا چغرزئی کے ایک گاؤں میں اور رات کا کھانا ڈگر میں "XEN” کی رہایش گاہ پر طے تھا۔ مجھے دفتر میں انتظار کرنے اور مہمان افسر کے کھانے کا انتظام کرنے کا کہا گیا۔ مَیں بہت تھکا ہوا تھا۔ مہمان پہنچنے ہی والے تھے کہ مَیں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ مجھے ڈگر ہسپتال لے جایا گیا اور ڈاکٹروں نے مجھے ہوش میں لانے کی کوششیں شروع کیں۔
ایس ای صاحب نے آتے ہی میرے بارے میں پوچھا۔ اسے بتایا گیا کہ مجھ پر کیا گزری تھی۔ اسے بہت افسوس ہوا اور فوری طور پر کیمپ آفس سیدو ہائی وے سب ڈویژن میں میرے تعیناتی کے احکامات جاری کر دیے۔ "XEN” مجھے کھونے کے لیے تیار نہیں تھا، لیکن اعلیٰ افسر نے کہا کہ کیا تم اس کی لاش سوات لے کر جاؤ گے؟ اگلی شام میں ہوش میں آگیا اور ایک دن ہسپتال میں رہنے کے بعد مجھے بونیر میں 14 سال بعد ڈیوٹی سے سبک دوش کر دیا گیا۔ کسی سب انجینئر کا ایک سٹیشن پر یہ سب سے طویل قیام تھا۔ سیدو ہائی وے سب ڈویژن پہنچنے پر مجھے ملم جبہ، جامبیل اور مرغزار وادی کا سیکشن انچارج بنا دیا گیا۔
تین سال پہلے (1981ء میں) ہم اپنے گاؤں ابوہا شفٹ ہوچکے تھے۔ مجھے ان علاقوں کے دوروں کے لیے سرکاری جیپ استعمال کرنے کی سہولت حاصل تھی۔ ڈرائیور غلام قادر میرے سکول کا ساتھی تھا اور ہم ایک ساتھ اچھا وقت گزار رہے تھے۔ چار منزلہ پی ٹی ڈی سی موٹل تکمیل کے قریب تھا۔ آسٹریا کی حکومت اس پورے منصوبے کی مالی امداد کر رہی تھی، جس میں سالنڈہ سے ملم جبہ ٹاپ تک سڑک کی تعمیر بھی شامل تھی۔ انھوں نے دو بہت ہی بھاری برف صاف کرنے والے مرسڈیز بینز ٹرک بھی تحفے میں دیے۔ان ٹرکوں میں لگی مشینری بھاری برف کو کاٹنے اور دو سو فٹ تک کے فاصلے تک برف پھینکنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لان صاف کرنے کے لیے ایک چھوٹی برف صاف کرنے والی مشین بھی فراہم کی گئی۔ مَیں نے اور آسٹریا کے ایک ماہر نے چار ملازموں کو ان بھاری ٹرکوں کو چلانے کی تربیت دی۔ ملم جبہ میں ڈیوٹی ہمیشہ میرے لیے خوش گواری کا باعث رہی۔ یاد رہے کہ بونیر کو اُس وقت ضلع نہیں بنایا گیا تھا اور یہ ضلع سوات کا ایک سب ڈویژن تھا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے