26ویں آئینی ترمیم کا ترجیحی مقصد آئینِ پاکستان کے ساتویں حصہ یعنی آرٹیکل 175 تا 212 عدلیہ کے انتظامی ڈھانچے، افعال اور اختیارات میں ردوبدل کرنا تھا۔ سب سے نمایاں تبدیلیاں آرٹیکل 175-A یعنی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں دیکھنے کو ملی ہیں۔
آئینی ترمیم کی بہ دولت جہاں آئینی بینچ وجود میں آئے ہیں، وہاں جوڈیشل کمیشن کی تشکیلِ نو کے بعد اعلا عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے رولز میں نمایاں تبدیلیاں ناگزیر تھیں۔
رولز ترتیب دینے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے چیئرمین جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپریم کورٹ ویب سائٹ پر مجوزہ مسودہ شائع کیا اورمتعلقین اور عوام الناس سے رائے طلب کی۔ 23 دسمبر کو جوڈیشل کمیشن نے مسودے میں چند تبدیلیوں کے بعد ’’ججز تعیناتی رولز 2024ء‘‘ کی منظوری دے دی۔
اس کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے، تو 26ویں آئینی ترمیم اور ججز تعیناتی رولز 2024ء کے بعد ہائیکورٹ میں ججوں کی تعیناتی میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ سیکشن 4 کے مطابق بہ طورِ جج تقرر کے لیے کسی شخص کے میرٹ کا تعین آئین کے تیسرے شیڈول میں درج جج کے عہدے کے حلف میں بیان کردہ معیار ات پر پورا اترنے والے کے طور کیا جائے گا۔ جیسا کہ آئین کی پاس داری، ججوں کے ضابطۂ اخلاق کی پاس داری اور آئین کا دفاع کرنا۔
ماضی میں ہائیکورٹ ججوں کی تعیناتی کے لیے عدالتی افسران خصوصاً ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور وکلا کے معاملے میں میانہ روی دیکھنے کو نہ ملتی۔ کبھی عدالتی افسران، تو کبھی وکلا کو ترجیح دے دی جاتی، مگر رولز کے سیکشن 5 میں واضح طور درج ہے کہ ہائی کورٹ میں ججوں کے تقرر کے لیے نام زدگیوں اور تعیناتیوں کو حتمی شکل دینے میں وکلا اور عدالتی افسران دونوں کی منصفانہ نمایندگی کو یقینی بنایا جائے گا……یعنی اگر کسی ہائیکورٹ میں چار ججوں کی اسامیاں موجود ہوں، تو بالترتیب دو دو جج عدالتی افسران اور وکلا سے لیے جائیں گے۔ اسی طرح سیکشن 6 کے مطابق ججوں کی تعیناتی کے وقت ججوں کے مقررہ معیارات جیسا کہ پیشہ ورانہ قانونی قابلیت، تجربہ، پیشہ ورانہ طرزِ عمل، کارکردگی، پلیڈنگ، فیصلوں کی لکھائی میں مہارت، دیانت داری اور کمیشن کی طرف سے متعلقہ سمجھے جانے والے دیگر معاملات، صنف، علاقے اور مذہب کے لحاظ سے مناسب نمایندگی و نام زدگی کو یقینی بنایا جائے گا۔
سیکشن 7کے مطابق ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کو کنفرم کرتے وقت کمیشن درجِ ذیل عوامل پر غور کرے گا:
٭ بہ طورِ جج دیے گئے فیصلوں کی مقدار اور معیار اور دیگر عدالتی کام۔
٭ عدالتی اخلاقیات اور طرزِ عمل کی تعمیل بہ شمول غیر جانب داری۔
٭ معروضیت، مزاج اور رویہ اور ایسے مشاہدات و خدشات، جن کی ابتدائی تقرر کے وقت شناخت نہ کی جاسکی ہو۔
میری نظر میں رولز کی سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ اعلا عدلیہ میں خالی اسامیوں کی نام زدگی کے لیے چیف جسٹس صاحبان کی اجارہ داری کوختم کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ سیکشن 9 میں درج ہے کہ سپریم کورٹ جج، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت، وفاقی شرعی عدالت جج، چیف جسٹس ہائیکورٹ اور ہائیکورٹ جج کی اسامی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا کوئی بھی ممبر بہ شمول سیاسی قیادت نام زدگی کرسکتی ہے۔
اسی سیکشن میں چند وضاحتیں بھی دی گئیں ہیں جیسا کہ:
٭ سپریم کورٹ میں جج کے تقرری کے لیے نام زدگی تمام ہائی کورٹس کی منصفانہ نمایندگی کو یقینی بنانے کے لیے کی جائے گی۔
٭ سپریم کورٹ میں جج کے تقرر کے لیے نام زدگی متعلقہ ہائی کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی۔
٭ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے نام زدگیاں ہائی کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا۔ بہ شرط یہ کہ دوسرا یا تیسرا سینئر ترین جج نام زد کرنے والا رُکن سب سے سینئر جج یا دو سب سے سینئر ججوں کو نام زد نہ کرنے کی وجہ نام زدگی خط میں بیان کرے گا۔
مزید شرط یہ ہے کہ اگر کمیشن سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس ہائیکورٹ مقرر نہیں کرتا، تو کمیشن سب سے سینئر یا دو سینئر ترین ججوں کا تقرری نہ کرنے کی وجوہات بیان کرے گا۔
چوں کہ آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کی نئی تشکیل میں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں، وزیرِ قانون،اٹارنی جنرل اور متعلقہ بار کونسل کے ممبر کی صورت میں کمیشن میں شامل جج اقلیت میں آچکے ہیں، جس کی بہ دولت اعلا عدلیہ میں سیاسی بھرتیوں کے امکانات حد درجہ بڑھ چکے ہیں۔ جس طرح ماضی میں چیف جسٹس صاحبان من مرضی کے ججوں کو تعینات کروانے کے لیے گروپنگ کرتے دِکھائی دیے، اُسی طرح سیاسی قیادت بھی اعلا عدلیہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کو زندہ رکھے گی۔ اس معاملے میں راقم، جسٹس منصور علی شاہ کے خدشات کو حق بہ جانب سمجھتا ہے۔
یاد رہے جسٹس منصور علی شاہ نے مجوزہ مسودہ برائے ججز تعیناتی رولز میں جج کی نام زدگی کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے رپورٹس حاصل کرنے کی مخالفت کی تھی، مگر کمیشن نے ان کی اس تجویز کو مسترد کردیا تھا اور منظور شدہ رولز میں سیکشن 10 کے ذریعے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کو شامل کرلیا، جس کے مطابق جوڈیشل کمیشن سیکرٹریٹ، نام زدگی فارموں میں فراہم کردہ قابلِ تصدیق معلومات کے بارے میں متعلقہ حکام سے رپورٹس حاصل کرے گا اور نام زد افراد کے عمومی واقعات کے بارے میں دو سول انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رپورٹس بھی حاصل کرے گا۔ ایسی صورتوں میں جہاں حاصل شدہ رپورٹس میں منفی ریمارکس شامل ہوں، ایسے ریمارکس کرنے والا افسر اپنا نام اور عہدہ بتاتے ہوئے معاون مواد فراہم کرے گا اور رپورٹ پر دستخط کرے گا۔ حاصل شدہ رپورٹس سیکرٹریٹ کی تحویل میں رہیں گی اور نام زدگیوں پر غور اور حتمی شکل دینے کے لیے کمیشن کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔ سیکرٹریٹ کمیشن کے غور و خوض کے لیے نام زد افراد کی دو جامع فہرستیں تیار کرے گا:
٭ پہلی میں وکلا کے نام ہوں گے۔
٭ دوسری فہرست میں عدالتی افسران کے نام ہوں گے۔
سول ایجنسیوں کی رپورٹوں کے بعد نام زدگیوں پر غور و خوص کے لیے سیکشن 12 کے تابع کمیشن کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
چیئرمین یعنی چیف جسٹس آف پاکستان اجلاس کی سربراہی کریں گے اور کمیشن کے تمام ممبران کونام زدگیوں پر بحث و مباحثہ اور رائے دینے کے لیے مساوی مواقع فراہم کریں گے۔ غور و خوص کے بعد اراکین ہاتھ کھڑے کرکے نام زد شخص کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیں گے۔ نام زد شخص کے لیے کمیشن اراکین کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنا لازم ہوگا۔ اگر کوئی نام زد شخص کمیشن کے اکثریتی ووٹ حاصل نہ کرپائے، تو ووٹنگ کا عمل دوبارہ کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں صرف دو نام زد افراد کے لیے ووٹنگ کا عمل دُہرا جائے گا، جنھوں نے پہلے مرحلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کے بعد بھی کوئی نام زد فرد مطلوبہ اکثریتی ووٹ حاصل نہ کرپایا، تو نام زدگی کے عمل کو روک دیا جائے گا اور پھر نئے سرے سے نام زدگیوں کو طلب کیا جائے گا۔
نام زدگی مرحلہ مکمل ہونے کے دو دن کے اندر سیکرٹری کمیشن اجلاس کی رپورٹ مرتب کرے گا،جس میں ووٹنگ کے نتائج اور فیصلہ جات کا اندراج کرنے کے ساتھ ساتھ منتخب ہونے والے نام زد جج کی تعیناتی کی تفصیل مزید احکامات کے لیے وزیرِاعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ارسال کرے گا۔
رازداری کو یقینی بنانے کے لیے سیکشن 13 میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ججوں کا تعیناتی اجلاس ’’اِن کیمرہ‘‘ کیا جائے گا۔ ماسوائے اگر کمیشن اوپن فورم میں اجلاس کرنے کی اجازت دے۔ اجلاس میں ہونے والی بحث و مباحثہ، غور و خوص کے علاوہ صرف فیصلہ جات کو کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے گا۔ اسی طرح کمیشن کے اراکین کو پابند کیا گیا ہے کہ کمیشن کے اجلاس میں ہونے والی بحث و مباحثہ یا رائے کو عوامی سطح پر منظرِ عام پرنہ لائیں، جیسا کہ عمومی طور پر ہمارے سیاست دان ’’اِن کیمرہ‘‘ اجلاسوں کی تفصیل بھی میڈیا کے سامنے یا پسِ پردہ مہیا کررہے ہوتے ہیں۔ اسی سیکشن میں یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کمیشن اجلاس کی بات چیت، رائے وغیرہ کو شائع کرنا مقصود ہو،تو کمیشن اراکین کے اکثریتی اراکین کے فیصلہ کے بعد ایسا کیا جائے گا۔ عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کمیشن کے اکثریتی اراکین کمیشن کے کسی مخصوص معاملے یا اجلاس کو روکنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ سیکشن 14 میں چیئرمین کو کمیشن کی ذیلی کمیٹیاں بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ رولز کی سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ اعلا عدلیہ میں خالی اسامیوں کی نام زدگی کے لیے چیف جسٹس صاحبان کی اجارہ داری کوختم کردیا گیا ہے۔ کیوں کہ 2010ء کے ججوں کے تعیناتی رولز میں نام زدگی کا اختیار صرف چیف جسٹس صاحبان کے پاس محفوظ تھا، جب کہ 2024ء کے رولز کے مطابق کمیشن کے تمام اراکین کو نہ صرف کسی فرد کو بہ طور جج بنانے کے لیے ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا، بل کہ اس کے ساتھ ساتھ کسی فرد کو نام زد کرنے کا حق بھی حاصل ہوچکا ہے۔
یادرہے کہ ماضی میں ہمیشہ چیف جسٹس صاحبان کی صواب دید پر ہی کسی فرد کو بہ طور جج نام زدکیا جاتا تھا اورمتعدد مرتبہ یہی دیکھنے کو ملا کہ نام زد فرد کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے چیف جسٹس سے قربت والوں سے نکلتا تھا۔ پھر چیف جسٹس کے ہم نوالہ افراد ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جج تعینات کروا دیتے تھے۔ یعنی عدل و انصاف کی کرسیوں پر براجمان افراد اقربا پروری کی ترویج کا باعث بنتے رہے اور ججوں کے ’’کوڈ آف کنڈکٹ‘‘ کے آرٹیکل چہارم کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے کوئی سمدھی کو سپریم کورٹ پہنچانے میں مددگار بنتا، تو کوئی داماد صاحب کو عدلیہ کے ایوانوں میں داخل کروایا جاتا۔
میری نظر میں رولز کے مطابق بنائے گئے نام زدگی فارم بھی میرٹ لسٹ تیار کرنے میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ کمیشن کے کسی رکن کی جانب سے کسی فرد کو بہ طور جج نام زد کرنے اورنام زدگی فارم پر دستخط کرنے سے پہلے کم از کم دس مرتبہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ جس شخص کو نام زد کرنے جارہا ہے، کیا اس کے پلے بھی کچھ ہے یا نہیں؟
قانون کے طالب علم کے طور پر مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ نام زدگی فارم پُر کرتے وقت ہی کسی شخص کی قابلیت سامنے آجائے گی۔ جیسا کہ بہ طورِ وکیل نام زدگی فارم اتنا جامع ہے کہ اس کے ہر کالم میں لکھی گئی تفصیل وکیل کی قابلیت و مہارت کو واضح کردے گی اور کمیشن اراکین کے لیے وکیل کی بہ طور جج حتمی سفارش کرنا اتنا مشکل نہ ہوگا۔
اسی طرح جوڈیشل آفیسر کا نام زدگی فارم بھی خود وضاحتی دستاویز ہے، جس کی بہ دولت کسی جوڈیشل آفیسرکو بہ طور ہائیکورٹ جج تعیناتی میں نام زد آفیسر کی پروفیشنل کارکردگی جزو لازم قرار پائے گی۔مَیں سمجھتا ہوں کہ آئین و قانون کے ہر طالب علم کو ججوں کے تعیناتی رولز 2024ء اور خصوصاً اس میں موجود نام زدگی فارم کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم اور اس کے بعد ججوں کے تعیناتی رولز 2024ء کی بہ دولت اعلا عدلیہ میں پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل افراد ہی بہ طور جج تعینات ہوسکیں گے، جس کی بہ دولت آئین و قانون کی سربلندی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
![Doctor Aizaz Khalid](https://lafzuna.com/wp-content/uploads/2025/01/Dr-Aizaz-Khalid-Podcast-01.jpg)