گذشتہ دنوں فیاض ظفر صاحب کی ایک ویڈیو دیکھی، جس میں ایک شخص ’’سب رجسٹرار آفس‘‘ میں رسیدیں کاٹتے ہوئے پایا گیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ شخص کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتا تھا، بل کہ محض اس لیے وہاں بیٹھا تھا کہ وہ سب رجسٹرار کا ’’ماموں‘‘ تھا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ سب رجسٹرار کا ماضی بھی اسی قسم کی حرکتوں سے داغ دار رہا ہے۔ صاحب جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے ’’ماموں‘‘ کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
قارئین! مذکورہ ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور عوام نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ہر طرف سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ کرپشن کے اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا جائے۔ نتیجتاً اینٹی کرپشن کے محکمے نے سب رجسٹرار کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی، لیکن بعد میں پتا نہ چلا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھا۔
فیاض ظفر صاحب کی یہ صحافت واقعی مثالی ہے۔ چند منٹ کی ویڈیو نے کرپشن کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ ایسی جرات مندانہ رپورٹنگ واقعی قابلِ ستایش ہے، جو سچ کو سامنے لاکر معاشرے میں تبدیلی کا بیج بوتی ہے۔
پہلے زمانے میں کرپشن سرکاری ٹیبلوں کے نیچے چپھی ہوا کرتی تھی، لیکن اَب یہ دھڑلے سے ہو رہی ہے۔ سرکاری دفاتر کے اندر ہی ’’پیداگیر حضرات‘‘ بیٹھے ہیں، جو لوگوں کو رشوت کے جال میں پھنساتے ہیں۔ یہاں تک کہ کلاس فور ملازمین کو بھی شکار کی تلاش پر لگا دیا گیا ہے، جو لوگوں کو جھانسے میں لا کر ان کی جیبوں سے پیسا نکالتے ہیں۔
عوام کی کرپٹ ذہنیت بھی اس نظام کو تقویت دیتی ہے۔ لوگ اُصولوں پر ڈٹنے کی بہ جائے رشوت دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں خوف ہے کہ اگر رشوت نہ دی، تو سرکاری دفتروں کے بے مقصد چکر کاٹنے پڑیں گے۔ اس لیے بہتر سمجھتے ہیں کہ پیسا دے کر کام نمٹا لیں…… لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی دی ہوئی رشوت ان ’’سانپوں‘‘ کو مزید زہر آلود اور طاقت ور بنا رہی ہے، جو پھر دوسرے معصوم لوگوں کو ڈستے ہیں۔
رشوت ستانی کا یہ دھندا وقت کے ساتھ ایک عام معمول بن چکا ہے۔ قوانین اور اُصول روح کھوچکے ہیں اور محض ایک کاغذی دھوکا بن کر رہ گئے ہیں۔ لوگ ان پر یقین کرنے کی بہ جائے رشوت ہی کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ یوں پیسا دے کر کام نکالنا ایک رواج بن گیا ہے۔ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ شریف لوگ بھی اس رواج کا حصہ بن رہے ہیں ۔
کرپشن کا یہ ناسور تب تک ختم نہیں ہوگا، جب تک عوام خود اس کے خلاف کھڑے نہ ہوں۔ اگر لوگ اس بات کو سمجھ لیں کہ اُصولوں پر ڈٹے رہنے سے ان کا حق محفوظ ہوگا، تو یہ برائی کم ہوسکتی ہے۔ بہ صورتِ دیگر، یہ نظام ایسے ہی پروان چڑھتا رہے گا اور قانون محض دکھاوے کی چیز بن کر رہ جائے گا۔ ہمیں بہ طورِ قوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں…… حق اور اصولوں کے ساتھ یا اس بوسیدہ نظام کے ساتھ……؟
ویسے تو کرپشن صرف ایک تحصیل یا ضلعے تک محدود نہیں، بل کہ ہمارا پورا ملک اس ناسور میں مبتلا ہے۔ ہر ادارہ اس گھناونے عمل میں ملوث ہے اور فہرست اتنی لمبی ہے کہ اس پہ لکھنا بھی مشکل ہے۔ کرپشن طرح طرح کی ہوتی ہے۔
قارئین! پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ کرپشن محض رشوت تک محدود نہیں، بل کہ اسے مختلف طریقوں سے سرانجام دیا جاتا ہے۔ ہمارے مقامی لیول میں جتنے طریقوں سے کرپشن کی جاتی ہے، سب سے پہلے مَیں اس روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ اس کے بعد اس بات پہ روشنی ڈالیں گے کہ ہمارے اداروں میں کرپشن اتنے آزادانہ طریقے سے کیسے کی جاتی ہے بغیر کسی ڈر اور خوف کے؟
ہمارے مقامی لیول میں کرپشن کی فہرست میں کسی بھی سرکاری افسر یا اہل کار کی جانب سے جائز یا ناجائز کام کے عوض رشوت طلب کرنا، سرکاری کاغذات پر دستخط کرنے میں تاخیر کرنا، ملازمتوں میں غیر قانونی بھرتیاں، مخصوص افراد کو ٹھیکے یا مراعات دینا، زمین کے کاغذات کی تصدیق یا انتقال میں غیر ضروری تاخیر کرنا اور شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا دیگر سرکاری دستاویزات کی پروسیسنگ کو جان بوجھ کر طول دینا ہے۔
اس کے علاوہ، سرکاری دفاتر میں فرضی اخراجات یا جعلی بِل بنا کر سرکاری فنڈز سے رقم نکالنا، جعلی ترقیاتی منصوبے ظاہر کرکے فنڈ کا غلط استعمال کرنا اور نوکریاں یا ترقیاں میرٹ کے خلاف دینا، سرکاری وسائل کا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال، زمین کی ملکیت میں غیر قانونی تبدیلی، دفاتر کے لیے غیر ضروری سامان کی خریداری، مخصوص ٹھیکے داروں کو کنٹریکٹ دینا اور سرکاری وسائل، فنڈز یا اِملاک کی چوری یا خوردبرد کرنا، دفاتر کے وسائل، جیسے کمپیوٹر، کاغذات یا سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال اور عوامی خزانے سے رقم نکال کر ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرنا وغیرہ شامل ہیں، یہ بدعنوانی کی مخلتف شکلیں ہیں۔ اس کے لیے سرکاری دفاتر میں ایک مکمل نیٹ ورک قائم ہوتا ہے، جہاں چپڑاسی سے لے کر اعلا افسران تک سب رشوت لینے اور دینے میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے نیٹ ورکس کو ’’برائب سنڈیکیٹس‘‘ کہا جاتا ہے ۔
قارئین! یوں تو کرپشن کی فہرست بہت طویل ہے اور مَیں ہر قسم کی کرپشن کو تفصیل سے بیان کرسکتا ہوں کہ یہ کیسے ہوتی ہے اور کن اداروں اور کرداروں کے ذریعے انجام پاتی ہے؟ مَیں ان تمام حقائق کو بے نقاب بھی کرسکتا ہوں، لیکن فی الحال اس پر مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔ اِن شاء اللہ! آیندہ کی تحاریر میں اس موضوع پر روشنی ڈالوں گا۔ فی الحال، میں ان عوامل کی جانب آتا ہوں جو اس کرپشن کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مَیں اس کرپشن کے فروغ میں صحافت کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں ۔
ہمارے معاشرے میں صحافت اس قدر زبوں حالی کا شکار ہوچکی ہے کہ اکثر صحافی محض رسمی صحافت تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج کل کے بیش تر صحافی چمچہ گیری اور چاپلوسی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے افسر کے سامنے بھی ان کی خودداری دم توڑ دیتی ہے۔ صحافت، جو کبھی حق اور سچ کی آواز ہوا کرتی تھی، آج پستیوں میں گر چکی ہے۔ میرے نزدیک، جو صحافی واقعی صحافت کے معیار پر پورا اُترتے ہیں، وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
صحافت کی دو قسمیں ہیں:
٭ ایک وہ جو ایمان اور اصولوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
٭ دوسری وہ جو صرف پیسوں اور ذاتی مفاد کی خاطر کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں زیادہ تر صحافی اپنے مفادات کے غلام بن چکے ہیں۔ یہ لوگ جھوٹ اور فریب کا سہارا لے کر معاشرے میں افراتفری اور اضطراب پھیلاتے ہیں۔ ان کی ’’صحافت‘‘ صرف نیوز ہیڈ لائنز اور سنسنی خیزی تک محدود ہے۔
وہ صحافت جو ایمان اور حق کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے، وہ تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے۔ اس میں لالچ ہوتی ہے اور نہ کسی کا خوف۔ ایسے صحافی معاشرے کی گہرائیوں میں جا کر وہ حقائق سامنے لاتے ہیں، جو عوام سے چھپائے جاتے ہیں۔ وہ کرپشن کے نیٹ ورکس کو بے نقاب کرتے ہیں، ان مکار چہروں سے نقاب ہٹاتے ہیں، جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو معزز ظاہر کرتے ہیں، لیکن درپردہ اسی کرپٹ نظام کا حصہ ہوتے ہیں…… لیکن جب تک صحافت کے میدان میں لالچ، چاپلوسی اور ذاتی مفادات کا غلبہ رہے گا، حق و سچ کی آواز دبتی رہے گی اور عوام کے مسائل یوں ہی دبے رہیں گے۔
عوام کا کردار بھی کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ کیوں کہ لوگ اداروں میں موجود بھیڑیوں کا بہت آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ لوگ بھی اپنے حق کے لیے کھڑے نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق اگر رشوت نہ دی جائے، تو ان کی فائل کو ’’سرخ پٹی‘‘ لگ جائے گی اور وہ گم نامی میں چلی جائے گی۔ یوں در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ عوام اس وجہ سے بھی رشوت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان میں یہ سوچ عام ہے کہ ان کرپٹ مافیا کو اعلا سطح پر حمایت حاصل ہے اور ان کے پیچھے بڑا ہاتھ ہے۔ یہ لوگ جو کرتے ہیں، اس پر سوال اٹھانا فضول اور حماقت سمجھا جاتا ہے۔
افسر تو دور، یہاں تک کہ ایک فرد کو نکالنے کے لیے بھی عوام ایک عام کلاس فور پٹواری کی خوش آمد کرتے ہیں اور ان کے سامنے ادب سے پیش آتے ہیں۔ عوام اب کلاس فور کے سامنے بھی سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک غلامانہ سوچ قائم ہوچکی ہے، جس کے بیج ہم نے خود بوئے ہیں اور اس کا خمیازہ ہماری نسلیں بھگتیں گی۔ ہماری طرح ہماری نسلوں کی زندگی بھی اس غلامانہ سوچ میں گزر جائے گی۔
آپ تجربہ کیجیے۔ کبھی ہمارے مقامی تحصیل کے افسران کے دفاتر کے باہر جاکر دیکھیں۔ وہاں بہت سے ضعیف العمر لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دور دراز پہاڑی علاقوں سے آتے ہیں اور زمین پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، لیکن گھنٹوں گزر جاتے ہیں، نہ ملاقات نصیب ہوتی ہے اور نہ مسائل حل ہی ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان افسران کو صرف وہ لوگ چاہئیں، جو پیسا رکھتے ہوں، جو رشوت دے سکیں۔ یہ رشوت بہ راہِ راست نہیں لیتے، بل کہ ایک نیٹ ورک کے ذریعے لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک تحصیل تک محدود نہیں، بل کہ پورے پاکستان میں ایک کلچر بن چکا ہے۔
عوام کے لاشعور میں یہ زہر بھی گھول دیا گیا ہے کہ یہ نظام کرپشن کے بل بوتے پر چل رہا ہے اور جائز کام بھی رشوت دیے بغیر ممکن نہیں…… لیکن مَیں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ محض ایک دھوکا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر عوام رشوت دینے کی بہ جائے اپنے جائز اور قانونی کام کے لیے کھڑے ہوجائیں اور ان کے سامنے سرنگوں نہ ہوں، تو وہ کیسے رشوت لے سکیں گے؟ یہ لوگ رشوت اس لیے لیتے ہیں، کیوں کہ عوام دیتے ہیں۔ انھیں رشوت کا عادی کس نے بنایا؟ انھی عوام نے بنایا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ کبھی کبھی بہت ایمان دار افسر آتا ہے، لیکن کچھ چاپلوس پہنچ کر انھیں پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور ان کا استقبال کرتے ہیں۔ آخر کیوں……؟ آہستہ آہستہ ان افسران کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ عوام رشوت دینے کے عادی ہیں۔ عوام بھی اب اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور پھر کرپشن کا جال پھیل جاتا ہے ۔
جو لوگ پیسے رکھتے ہیں، وہ اپنا کام کروا لیتے ہیں…… لیکن غریب عوام در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔ جب کوئی سرمایہ دار یا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا شخص آتا ہے، تو وہ مذکورہ افسران کے لیے تاج کی مانند ہوتا ہے…… جب کہ عام لوگ افسران کے دفاتر کے باہر دھکے کھاتے رہتے ہیں۔
جب بھی جائیں، کبھی متعلقہ افسر ناشتا کر رہا ہوتا ہے، کبھی لنچ، یا کبھی کہا جاتا ہے کہ ضروری مہمان آئے ہوئے ہیں۔ یوں ملاقات نہیں ہو پاتی۔ دور دراز سے آئے یہ غریب لوگ دفاتر کے باہر سڑتے رہتے ہیں، جن کے پاس درخواست لکھوانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ ہاں! ان کے مسائل معمولی ہوتے ہیں، لیکن انھیں بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اس طرح جو لوگ رشوت دیتے ہیں یا سیاسی اثر رکھتے ہیں، اُن کا کام ایک فون کال پر ہو جاتا ہے۔ ملاقات کے لیے انتظار کرنا وہ اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔
یہ سب آخر کیوں ہو رہا ہے؟
کیوں کہ ہم نے خود اپنے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ رشوت دینے والوں نے ہی یہ نظام خراب کیا ہوا ہے۔ ان خرابیوں کا حساب صرف رشوت لینے والوں سے نہیں ہوگا، بل کہ دینے والوں سے بھی ہوگا۔ جو غریب رشوت نہ دینے کی وجہ سے اپنے حق سے محروم ہوتا ہے، اُس کا حساب رشوت دینے والوں سے بھی لیا جائے گا۔
بدعنوانی کی ایک بڑی وجہ ناقص قانون سازی ہے۔ بدقسمتی سے، وہ تمام ادارے جو مالی بدعنوانی کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں، جیسے اینٹی کرپشن، وفاقی محتسب اور نیب، موجودہ کرپشن کے نظام کا موثر مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ ادارے خود مفلوج ہیں، اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان پر سیاسی اثر و رسوخ کا غالب ہونا ہے۔
یہ ادارے اکثر اُس کرپشن کے نیٹ ورک کا حصہ بن جاتے ہیں، جو نچلی سطح سے، یعنی چپڑاسیوں سے شروع ہو کر اعلا سیاسی قیادت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نیٹ ورک نہ صرف سیاسی قیادت، بل کہ سول انتظامیہ تک بھی جڑیں پھیلا چکا ہے۔
مزید یہ کہ یہ نیٹ ورک دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں، جیسے محکمۂ پولیس، تک بھی رسائی رکھتا ہے۔ یوں یہ ایک مکمل کرپشن کا نظام تشکیل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کے اہل کاروں کو کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ قانون کا ڈر۔
ان اداروں میں کھلے عام رشوت کے معاملات ہوتے ہیں اور ان کی بڑی وجہ ناقص قانون سازی ہے۔ موجودہ قوانین نہ تو حالات کے مطابق ہیں اور نہ اتنے موثر کہ کسی کو سزا دے سکیں۔ بڑی سے بڑی بدعنوانی میں ملوث افسر بھی آسانی سے چھوٹ جاتا ہے۔ اس کو ضمانت مل جاتی ہے اور وہ دوبارہ اپنی پوسٹ پر تعینات ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات تو ایسے افسر کو ترقی بھی دی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ سزا کے طور پر اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے، لیکن تبادلے سے اس کی ذہنیت نہیں بدلتی۔
ایسے کرپٹ افسران جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں کے کرپشن نیٹ ورک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے، کرپشن بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ایمان دار افسر بھی اس نظام میں بے بس ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے ماتحت لوگ رشوت کا کاروبار اور دھندا جاری رکھتے ہیں۔ ایک چھوٹے اہل کار، جیسے پٹواری، کی رشوت خوری بڑے سے بڑے ایمان دار افسر پر بھی غالب آ جاتی ہے۔
عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے سرکاری عملہ اکثر رشوت وصول کرتا ہے، اور وہ سنجیدگی تبھی دکھاتے ہیں جب ان کو مالی فائدہ ملے۔
دوسری جانب، کرپشن روکنے کے لیے قائم کیے گئے ادارے یا تو تماشائی بنے رہتے ہیں، یا اگر کسی اہل کار کو پکڑ بھی لیں، تو پیسوں کے عوض معاملہ ختم کر دیتے ہیں۔ انکوائریاں شفاف طریقے سے نہیں ہوتیں، اور اگر کسی پر مقدمہ درج ہو بھی جائے، تو اسے سزا ملنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر، سوات میں صرف ایک اینٹی کرپشن جج ہے جو ہر تین ماہ بعد آتا ہے۔ اس کے زیرِ سماعت تمام کیسوں کے ملزمان اب بھی اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور لوٹ مار میں ملوث ہیں۔
یہ نظام کرپشن کو پروان چڑھا رہا ہے۔ کیوں کہ قانون میں اتنی سکت نہیں کہ کسی کو ڈرا سکے۔ سرکاری اہل کار قانون سے نہیں ڈرتے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ قانون محض ایک رسمی کارروائی ہے، جس کا مقصد عوام کو دھوکا دینا ہے۔
اس طرح ہمارے منتخب نمایندے بھی قانون سازی میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ کیوں کہ یہ نظام رشوت کے بل بوتے پر چلتا ہے۔ اگر رشوت ختم ہوجائے، تو سیاسی مہمات اور جلسے جلوس کیسے چلیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ کرپٹ افسران کو اپنے حلقوں میں تعینات کروایا جاتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ جلسوں کے اخراجات عوام کو لوٹ کر پورے کیے جاتے ہیں اور افسران کے ذاتی اخراجات بھی رشوت کے پیسوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔
اگر اس نظام سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے، تو یہ لوگ اپنے اوقات پر آ جائیں گے، لیکن اس نظام میں ایسا ممکن نہیں۔ یہ وقت کے ساتھ اس حد تک مضبوط ہوچکا ہے کہ بدعنوانی اس ملک کی جڑوں میں سرایت کر گئی ہے۔ جب تک ہم بہ حیثیت قوم اجتماعی طور پر اس بدعنوانی کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے اور اس گناہ سے توبہ نہیں کریں گے، ہمارے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، ورنہ ذلت ہمارا مقدر رہے گی۔
جاتے جاتے اس حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مصداق فیاض ظفر کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، جس نے سب رجسٹرار کے ’’ماموں‘‘ کا کردار عوام کے سامنے لاکر اس کھوکھلے نظام کی پول کھول دی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔