(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ریاستِ سوات کے قیام کے فوری بعد، حکومت کے مختلف اداروں کے لیے کوئی واضح نظام موجود نہیں تھا، مگر اس کے باوجود ریاستی اتھارٹی کی مضبوطی اور عدالتوں، محصولات، دفاع، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے قیام کا عمل قدرتی طور پر ترقی کرتا رہا۔
ولی عہد میانگل جہانزیب کو مزید اختیارات دیے جانے پر، نسبتاً باقاعدہ اور واضح تنظیمی نظام کا عمل تیز ہوا۔ 1950ء کی دہائی کے وسط میں، زیادہ تر محکمے باضابطہ طور پر کام کرنا شروع کرچکے تھے۔ صحت اور تعلیم کی ڈائریکٹوریٹس کو باصلاحیت سربراہوں کے تحت قائم کیا گیا۔ اس عمل نے ترقی کی رفتار کو زیادہ معیاری اور تیز تر بنا دیا۔ ریاست کے قیام کے ابتدائی دنوں ہی سے تمام تحصیلوں میں شرعی عدالتیں کام کر رہی تھیں۔ رواج نامہ اور شاہی احکامات کے تحت چلنے والی سول عدالتیں ریاست کے معاملات کو چلانے میں اپنا مخصوص کردار ادا کر رہی تھیں۔ صحت کے پہلے ڈائریکٹر پیشہ ورانہ ذہن کے مالک اور سوات کے حقیقی عاشق، ڈاکٹر نجیب اللہ تھے۔ ان کی زیرِ نگرانی ریاست کے ہر موزوں مقام پر معتد بہ تعداد میں ڈسپنسریاں اور ہسپتال قائم کیے گئے۔
اسی طرح، تعلیم کی ڈائریکٹوریٹ قائم کی گئی جس کی قیادت ایک مخلص تعلیم دان، سید یوسف علی شاہ نے کی۔ انھوں نے بھی ریاست کے کونے کونے میں سکولوں کا جال پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ریاستی افواج کے درست ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک علاحدہ دفتر فہم جان کپتان کے تحت کام کر رہا تھا، جس میں ان کو مرزا محمد عظیم (مولف ’’فضل رازق شہابؔ‘‘ کے والدِ محترم) کا تعاون حاصل تھا۔ علاوہ ازیں ہر کپتان کے ساتھ کلرکوں کی اچھی خاصی تعداد منسلک تھی۔
اسی طرح، ریاستی ’’پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ‘‘ تقریباً ’’صفر‘‘ سے قائم کیا گیا۔ پہلے زیادہ تر تعمیراتی کام ریاستی افواج کے ذریعے انجام دیے جاتے تھے، جن کی نگرانی ’’دستخط مستری‘‘ اور ’’ناخود کپتان‘‘ کرتے تھے۔ ریاست کے اس شعبے کا کام بہ تدریج ترقی کرتا رہا اور ایک علاحدہ دفتر، جو سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کہلایا، قائم کیا گیا۔ تعمیراتی شعبے کا پہلا حقیقی سربراہ محمد کریم تھا، جسے سینئر ایس ڈی اُو کے طور پر نام زد کیا گیا، اور سڑکوں کے شعبے کی قیادت انجینئر حبیب اللہ کر رہے تھے۔
اب تعمیراتی کاموں کی منظوری شخصی نام زدگی پر نہیں دی جاتی تھی، بل کہ مناسب تقابلی ٹینڈرز کا انعقاد کیا جاتا تھا اور سب سے کم بولی لگانے والوں کو معاہدے کے بعد ٹھیکا دیا جاتا تھا۔ محصولات کی وصولی اور درآمدی/ برآمدی ڈیوٹی کی نگرانی وزیرِ مال اور مشیرِ مال کرتے تھے۔ مختلف ایجنسیوں سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی نقدی کی صورت میں ہوتی تھی اور اسے ریاستی خزانے میں جمع کیا جاتا تھا، جو مہتممِ ریاستِ سوات کے زیرِ نگرانی تھا۔ وہ نقد حسابات کو مینٹین رکھتا تھا اور والی صاحب ہر صبح روزانہ کی بنیاد پر ان حسابات کی جانچ اور دستخط کرتے تھے۔ جب ریاست 1969ء میں پاکستان میں ضم ہوئی، تو 16 ملین روپے کی نقد رقم پاکستانی حکام کے حوالے کی گئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔