شاید صبح کے دو یا تین بج رہے تھے۔ پولیس نے گاڑیوں کو روکا۔ قطار میں ہماری گاڑی بھی تھی۔ چہار سو اندھیرے کا راج تھا۔ پولیس چیک پوسٹ پر تلملاتا واحد قُمقُمہ روشنی کا سفیر بنا ہوا تھا۔ مسافر سمجھ رہے تھے کہ یہ معمول کی چیکنگ ہے۔ انتظار مگر طویل ہوتا جا رہا تھا۔ طویل مسافت اور اَب انتظار سے تنگ مسافر بے چین ہونے لگے۔ میرے ساتھی نے آخرِکار پولیس اہل کار سے وجہ پوچھی، تو اہل کار جواباً کہنے لگا: ’’آگے ڈاکو نکل آئے ہیں۔ سڑک کو بند کیا ہوا ہے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ مسافروں کی حفاظت کے لیے گاڑیوں کو اِدھر روکے رکھیں۔‘‘
یہ بات سُن کے مَیں نے اپنے ہم سفر دوست کو تسلی دینے کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ کیوں کہ دس گیارہ گھنٹوں کے سفر کے بعد اگر آپ کو اسی طرح نامعلوم وقت کے لیے انتظار میں کھڑا رہنا پڑے، تو بیش تر لوگوں کی ہمت جواب دے دیتی ہے اور یہی کچھ میرے دوست کے ساتھ بھی ہوا۔
یوں میرے ہم سفر دوست نے پولیس اہل کار سے ایک اور سوال پوچھا:’’جب آپ کو معلوم ہے کہ ڈاکو سڑک پر نکل آئے ہیں، راستہ بند ہے اور لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے، تو آپ کارروائی کیوں نہیں کرتے، یہاں کس لیے کھڑے ہیں؟‘‘
شاید پولیس اہل کار کے لیے اب کی بار ایسا چبھتا سوال بالکل غیر متوقع تھا…… مگر وہ بھی گھاگ پولیس والا تھا۔ نچلا بیٹھنا اسے بھی پسند نہیں تھا۔ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا: ’’وہاں چوری اُن کا کام ہے اور یہاں پہرہ دینا ہمارا کام!‘‘
بس اس جواب میں وہ پوری کہانی چھپی ہوئی ہے، جو کوئی بھی زندگی سے پیار کرنے والا بندہ بول سکتا ہے اور نہ سپردِ قلم ہی کرسکتا ہے۔
صوبے کے جنوبی حصے میں جو کھچڑی پک رہی ہے، یہ اس کی صرف ایک جھلک ہے۔ وگرنہ اس راستے سے روزانہ گزرنے والے جانتے ہیں کہ حالات کیسے ہیں؟ جنوب سے شمال کے لیے یا شمال سے جنوب کے لیے نکلنے والے جس احساس کے ساتھ ان ’’مخصوص علاقوں‘‘ سے گزرتے ہیں، الفاظ اسے بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ خود کو اس صوبے تک محدود رکھا جائے، تو یہ حیران کن ہے۔ کیوں کہ والی، میر منشی اور کوتوال کا تعلق ایک ہی ضلع سے ہے اور اس ضلع سے مسافروں کے لیے گزرنا سب سے مشکل ترین کام بن گیا ہے۔
جہاں ہائی ویز محفوظ نہ ہوں، مسافروں کو لوٹا اور قتل کیا جا رہا ہو، پولیس سرِ شام خود کو بچانے کی تگ ودو میں ہو، وہاں معمولاتِ زندگی کیسے ہوں گے؟
خیر، رات گزر گئی۔ سفرکا اختتام ہوا اور مسافروں کو گھر کا سکون میسر آیا، تو میرے دوست نے رابطہ کرکے اصرار کیا کہ ان حالات پر کچھ لکھا جائے۔ یہ کیا حالت ہوگئی ہے ملک کی کہ اَب یہاں مسافروں کو بھی نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔
قارئین! مَیں نے اس موضوع پر لکھنے سے انکار کردیا، تو دوست نے کہا: ’’تم ڈرپوک ہو!‘‘ مَیں نے جواباً کہا: ’’ہاں، ڈرپوک ہوں! اگر چوکی دار خود چور کا سہولت کار بن جائے، تو عام شہری کو ڈرپوک ہی ہونا چاہیے۔ حق اور سچ کا دامن تھامنے والوں میں کتنے ہی صفحہ ہستی مٹ گئے، کسی کو درست تعداد بھی یاد نہیں۔ امن کے لیے کتنی بار، کتنے علاقوں سے، کتنے لاکھ لوگوں سے گھر بار سب کچھ چھڑوایا گیا، اُنھیں اپنے ہی ملک میں مہاجر بنایا گیا…… مگر امن پھر بھی عنقا ہے، تو ایک عام قلم کار کے لکھنے سے کیا ہوگا؟ کیا والی، میر منشی اورک وتوال کو علم نہیں کہ ان کے آبائی ضلع میں امن کی کیا صورتِ حال ہے؟
بہ ہرحال ان چند سطور کو میری طرف سے گول مول کہانی سمجھیے۔ کیوں کہ مجھے زندگی پیاری ہے۔ یہ بھی نہ لکھتا اگر اس کے بعد ایک اور واقعہ نہ ہوتا……!
واقعہ کچھ یوں ہے کہ کل محلے کی مسجد میں بعد از نمازِ عشا ایک شخص بغیر اجازت کے تقریر کرنا شروع ہوا۔ موصوف کے گیسوئے دارز شانوں کو چھو رہے تھے۔ ’’پکول‘‘ پہنے ہوئے تھا۔ اِس کے ساتھ اُس کی لمبی داڑھی اُسے ایک بالکل الگ تھلگ شخص پیش کر رہی تھی۔ اُس کی آواز مکمل طور پر ہیبت ناک تھی اور لہجہ جنوبی اضلاع کا تھا۔ وہ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا تھا۔ شام اور فلسطین کا ذکر تو کر ہی رہا تھا، ساتھ عافیہ صدیقی کے ساتھ ظلم وب ربریت کا تڑکا بھی لگا رہا تھا۔
مَیں اُس وقت یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس شکل و صورت کے ساتھ یہ بندہ جنوبی اضلاع سے سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے یہاں (ضلع دیر) کیسے پہنچا؟ درمیان میں کوئی سمندری راستہ موجود نہیں۔ سڑکوں پر چیک پوسٹوں اور ناکوں کی بھرمار اور ہوائی سروس صرف ’’خاص‘‘ لوگوں کو دست یاب ہے۔
قارئین! مگر میرے سوچنے سے کیا ہوگا۔ وہ اتنا فاصلہ طے کرکے آیا تھا اور جہاد کی فضلیت میں قرآن اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سہارا لے رہا تھا۔ اب ہم عامی اس میں کیا کَہ سکتے ہیں؟ ریاست کہتی ہے کہ مذکورہ شخص جیسے لوگ ’’فتنۃ الخوارج‘‘ ہیں۔ جب کہ اس شخصِ مخصوص کا فرمانا ہے کہ ’’ہم مجاہد ہیں!‘‘
محلے کی مسجد سے 70 میٹر کے فاصلے پر پولیس اسٹیشن یعنی ریاستی عمل داری کا مرکز ہے۔ اگر وہ یہ تقریر سن کے خاموش تھے، تو مجھے بھی اس سے آگے ایک لفظ تحریر نہیں کرنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔