ایس ڈی اُو کا انحصار مکمل طور پر اس لڑکے پر تھا۔ دفتر کا سارا کام اس پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ سرکاری خط و کتابت کرتا۔ اس کی غیر موجودگی میں ایس ڈی او کی طرف سے دستخط کرتا۔ آنے جانے والے خط و کتابت کا ریکارڈ رکھتا۔ مختصر یہ کہ وہ انجن تھا، جو پورے نظام کو چلا رہا تھا۔
بونیر کی تاریخ میں ہمارا پہلا بی اینڈ آر سب ڈویژن تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد، صوبہ دار میجر میاں مصطفی اور ایلئی کے نسوزے صوبہ دار نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا، تو انھیں سبک دوش کر دیا گیا۔ نئے سیٹ اَپ میں تین صوبہ داروں کو روڈ انسپکٹر بنایا گیا اور سابق ریاستی روڈز اسٹیبلشمنٹ کے تقریباً چھے سو نچلے رینکر کو ریٹائر کر دیا گیا۔ سڑکوں کی دیکھ بھال کے لیے قریبی دیہاتوں سے کچھ نئے لوگ بھرتی کیے گئے۔ انضمام کے وقت بونیر میں زیادہ تر سڑکیں کچی تھیں۔ پاچا کلے سے ڈگر بہ راستہ سلطان وَس غازی خان تک سڑک تکمیل کے قریب تھی۔
ڈگر میں بوائز کالج، اس کا ہاسٹل اور سٹاف کے لیے دس بنگلے تقریباً مکمل ہو چکے تھے۔ ریاستِ سوات کے سابقہ حکم ران کی طرف سے کالج کے لیے 40 ہزارگیلن گنجایش کے ذخائر کے ساتھ 325 فٹ گہرا ٹیوب ویل بھی مکمل کیا گیا تھا۔
اَب بونیر کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بہتری پر پوری توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ کچی سڑکیں بُدال سے آگے چغرزئی کے علاوہ تمام علاقوں کو ڈگر سے جوڑتی تھیں۔ اس لیے تیز رفتار منصوبہ بندی کی اشد ضرورت تھی۔ بدقسمتی سے سیاسی عدم استحکام نے مطلوبہ نتائج کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا۔
ہمیں جس مشکل کا سامنا کرنا پڑا، وہ مناسب رہایش تھی۔ ہم دو اوورسیرز، تین ڈرائیور دفتر کے دو کمروں میں رہتے تھے، بغیر غسل خانے اور مناسب کچن کے۔ بونیر کے تمام علاقے میں بجلی نہیں تھی۔ اخبار کے لیے، ڈگر سے تقریباً چھبیس کلومیٹر کے فاصلے پر، ہمیں پیر بابا بازار جانا پڑتا، زیادہ تر اپنے ٹرک میں۔ اُس وقت پیٹرول آدھا روپے یا 50 پیسے فی لیٹر تھا۔
ایک اور مسئلہ جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا، وہ اس حیرت انگیز جونیئر کلرک کا سیدو شریف کو تبادلہ تھا۔ اب مجھے نہ صرف خطوط کا مسودہ تیار کرنا تھا، بل کہ پرانے ٹائپ رائٹر پر ٹائپ بھی کرنا تھا۔ ایس ڈی اُو بھی کسی نہ کسی بہانے غیر حاضر رہتا۔ اس لیے مجھے دفتر اور فیلڈ سٹاف کا انتظام بھی کرنا پڑتا۔ خوش قسمتی سے ہماری مشکلات اُس وقت دور ہوگئیں، جب ہمیں کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر دانشمند خان نے سواڑئی کی کالج کالونی میں دو کشادہ بنگلے الاٹ کر دیے۔ بنگلہ نمبر 1 ہمارے S.D.O کو اور بنگلہ نمبر 10 اوورسیرز کو دیا گیا۔
یہ رہایش گاہیں جزوی طور پر بجلی جیسی سہولیات سے محروم تھیں، لیکن یہ صرف ہمیں نہیں، بل کہ بونیر کی تمام آبادی کو درپیش ایک مسئلہ تھا۔ کالج کے ٹیوب ویل کی ٹربائن ڈیزل پر چل رہی تھی، جو ہمارے دفتر نے فراہم کی تھی۔ ہمارے پاس اب نئے شروع ہونے والے کالج کے مہذب، تعلیم یافتہ تدریسی عملے کا ساتھ تھا۔ تمام تدریسی عملے کا تعلق سوات سے تھا، سوائے حمید الرحمان کے، جو بونیر کے کلپنائی گاؤں سے تھے۔ وہ کالج میں پولی ٹیکل سائنس پڑھاتے تھے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔