اپنی پہچان اور شناخت الگ سے بنانا ایک مشکل کام ہے…… اتنا مشکل کہ ایک عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
قارئین! بچپن سے مجھے یاد ہے کہ میں گم شدہ سی شناخت رکھتا تھا۔ سچ پوچھیں، تو ہر جگہ اپنے والد، دادا، چچا اور کئی بار ماموں کی تعریف نے مجھے اذیت میں مبتلا رکھا۔ کہیں یہ خیال کہ بچہ باپ کا نام بدنام نہ کردے۔ کہیں والدین کی تاکید کہ ہماری عزت کا جنازہ نہ نکل جائے۔ زندگی بھر یہی باتیں میرا پیچھا کرتی رہیں۔
بچپن ہی سے مجھے زندگی اپنے اُصولوں اور قاعدوں پر چلانے کی خواہش تھی، مگر یہ خواہش جب بھی حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب ہوتی، شدید مزاحمت کا سامنا ہوتا ۔ ذرا سی میری یادداشت دھندلاہٹ سے نکلتی ہے، تو مجھے اپنا آپ پانچ وقت مسجد اور نماز کے حوالے سے یاد آتا ہے۔ فجر کی نماز میں سجدے سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ کیوں کہ کئی دفعہ مَیں سجدے میں سویا ہوا پایا گیا۔ سلام پھیر کر مولانا صاحب فلک شگاف قہقہہ بلند کرتے، جیسے نماز قبول ہوگئی ہو…… مگر ایسا نہ تھا، مجھے مار پڑتی اور دوبارہ وضو کرکے نماز پڑھنا پڑتی۔ بہ الفاظِ دیگر عذابِ قبر مَیں جیتے جی سہ رہا تھا۔ بس کانوں میں اذان کی آواز کی بے قراری ہوتی اور اس کے بعد مسجد دوڑ لگاتا۔
اوائلِ عمری میں قرآنِ مجید کے ساتھ خلاصہ، منیا، کنز، کتاب المفسدین وغیرہ پڑھائے گئے۔ الغرض، جو بھی پڑھایا گیا، مَیں نے رٹ لیا۔ ساتھ حیران بھی تھا کہ ایسی باتیں مَیں کیوں رٹ رہا ہوں؟
فجر کے فوراً بعد والد صاحب پڑھانے بیٹھ جاتے۔ میری بہن، جو مجھ سے دو سال آگے تھیں، کی کتابیں پڑھتا اور دل ہی دل میں اتنی دقیق کتابوں کا اُن کے ذہن پر بوجھ کا افسوس کرتا۔ اس تعلیم میں زیادہ تر وقت میرا غنودگی میں گزرتا اور نیند کے ہلکورے لیتا۔ مَیں ایسا بچہ تھا جس کی شرارتوں پر پابندی تھی۔
یہاں سے فارغ ہوکر جیسے تیسے وردی پہنتا اور سکول روانہ ہوجاتا۔ میرے بڑوں کا خیال تھا کہ کوئی علم کا ٹیکا مل جائے، تو مجھے لگا دیں۔ اس جستجو میں میٹرک تک میرے تین سکول بدل دیے گئے۔ ’’سنگوٹہ سنگوٹہ‘‘ (سنگوٹہ پبلک سکول) کے بار بار ذکر کے ساتھ حاجی بابا سکول پہنچا دیا گیا،جہاں سے ادنا پاس کیا، تو میرے گھر والوں کو مزا نہ آیا۔ ’’سنگوٹہ سنگوٹہ‘‘ کی ورد پھر شروع ہوئی، مگر کسی نے مڈل سکول ملا بابا کی رائے دی۔ پرائمری سکول میں ملا بابا کی عین سڑک کنارے عمارت جس کے آگے یوسف ٹریول اور جمال ٹریولز گزرتے، مجھے مضافات کے حاجی بابا سکول سے اچھی لگتی تھی۔ چھٹی جماعت تک پہنچا اور مقابلے کا امتحان دیا، جو پانچویں جماعت کا لیا جاتا تھا۔ پورے ملاکنڈڈویژن میں ایک بچہ پاس ہوا اور وہ مَیں تھا۔ 120 روپے سالانہ وظیفہ مقرر کیا گیا، جو تین سال تک ملنا تھا۔
واحد شخصیت جنھوں نے اُس کے بعد میری باقاعدہ عزت شروع کی، وہ (مرحوم) ضمیر ہیڈ ماسٹر صاحب تھے۔ وہ مجھے دوستوں کی طرح بلاتے۔ پڑھائی اور ہوم ورک کا پوچھتے۔ اگر سچ پوچھیں اور احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، تو مجھے ہیڈ ماسٹر صاحب ناسمجھ اور بھولے قسم کے لگتے تھے۔ گو کہ میں اُس وقت اُن کی شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ اُن کا بولنے کے انداز، سمجھانے، غصہ کرنے اور نشست و برخاست میں ایک رُعب اور جلال سا تھا۔ وہ شایستہ اور کم گو انسان تھے اور صرف مطلب کی بات ہی کرتے۔
اُس دور کی دو چیزیں مجھے یاد ہیں:
پہلی چیز، دو روپے کا نوٹ جو کسی کسی کے پاس ہوتا تھا۔
دوسری، ہمارے سکول کا ہائی ہونا۔
ہمارے ڈرائنگ ماسٹر نے لمبی سیڑھی منگوائی اور گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 4لکھ دیا۔ بچوں کے سمجھنے کے لیے بات آسان بناتے ہوئے کہا گیا کہ اب پانچویں جماعت پرائمری سکول میں پڑھائی جائے گی۔ اس سے پہلے پرائمری اسکول والے چوتھی کلاس تک رکھے جاتے تھے۔ مڈل سکول والے چھٹی کے وقت قطار بنانے کے پابند نہ تھے۔
آٹھویں جماعت میں میرے لیے ایک ٹیوٹر اکرم استاد صاحب کا اہتمام کیا گیا۔ مجھے (مرحوم) عبد الواحد طوطا اپنے بیٹے اور میرے دوست جہان عالم کے ساتھ لے گئے اور ہمارے مستقبل کے ہر اچھے برے کا اختیاراکرم استاد صاحب کو سونپ آئے۔
اکرم استاد صاحب ایک لائق و فائق آدمی تھے۔ زیادہ تر سنجیدہ رہتے۔کم کم ہنستے، مگر اُن کے ہنسنے کا وقت دنیا کا سب سے خوب صورت وقت ہوتا۔
پورے ایک سال ’’تحصیل دار صاحب کا بیٹا‘‘ کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ استاد صاحب جن کا حافظہ کمال کا تھا، مگر میرے کیس میں کوئی کمال نہ کرسکے۔
قارئین! جیسے ہی مَیں نے مڈل کا بورڈ امتحان دیا، مجھے تعلیم جاری رکھنے کے لیے ہائی اسکول نمبر 1 بنڑ لے جایا گیا۔ گل کدہ نمبر 2 میں ہمارا گھر تھا۔ روزانہ بنڑ سکول جانا، اس دوران میں مجھے راستوں سے نفرت سی ہوگئی۔
گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 بنڑ میں محتاج صاحب ہیڈ ماسٹر تھے۔ انتہائی پُرخلوص اور ملنگ آدمی تھے۔ ہمیں ساتھ فزکس اور ریاضی سکھاتے تھے۔ خصوصی طور پر مجھے اُٹھا کر پڑھے ہوئے سبق پر رائے طلب کرتے اور مَیں دو سال اسی بات پر حیران رہا کہ اتنا عظیم انسان فزکس اور ریاضی جیسے خشک مضامین کی غلامی میں کیوں ہے؟ اُن کو یہ کیوں شوق ہے کہ سب کو ’’ولاسٹی‘‘ ہی کا پتا ہو۔
اَب میرا معمول یہ تھا کہ صبح فجر کے بعد والد صاحب انگریزی اَدب پڑھاتے۔ پھر مَیں چائے زہر مار کرکے گل کدہ سے بنڑ سکول جاتا۔ میرا کوئی سکول فیلو قریب قریب میں ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مَیں لمبے لمبے ڈگ بھرتے گل کدہ نمبر 1 میں سرکٹ ہاؤس کے پاس پہنچتا۔ وہاں سے لے کر ’’ہالی ڈے ہوٹل‘‘ تک کھیت ہی کھیت تھے۔ اُن کے درمیان پگڈنڈی سی تھی۔ کلمے اور دعائیں مجھے سبھی یاد تھیں۔ مَیں اُس سنسان پگڈنڈی پر صبح صبح قدم رکھتا اور تقریباً چیختے ہوئے ورد کرتا، تاکہ متوقع تمام بلاؤں اور ہتھوڑا گروپوں پر واضح ہو کہ مَیں ایک ’’برگزیدہ بچہ‘‘ ہوں۔
دارالعلوم کے پاس قبرستان میں، یا ہالی ڈے ہوٹل کے پاس نکلتا، تو ایک احساسِ فخر لے کر نکلتا۔ آگے ملابابا سکول جانے والے بچے شروع ہوجاتے۔ مَیں رشک سے اُن کو دیکھتا اور کبھی یہی سکول منزل تھا۔ نشاط چوک، ڈنڈ، ملاکانان، فتح خان خیل سے ہوتا ہوا ایک جرنیلی گلی میں گرین چوک میں وارد ہوتا۔ وہاں نمبر 1 سکول کے بچے ملتے اور وہی پرانا سوال روز پوچھتے کہ مَیں حاجی بابا سکول میں کیوں نہیں پڑھتا؟
تھکا ہارا سکول پہنچتا، تو بیش تر دفعہ گیٹ بند ہوچکا ہوتا اور مَیں دیر سے گھر سے نکلنے اور لیٹ پہنچنے کی پاداش میں دو گرم گرم ڈنڈے کھاتا۔ اُستاد اور ایک لمبا ’’ڈانگ‘‘ لازم و ملزوم تھے۔ استاد ہاتھ اور زبان کا استعمال کرنے میں آزاد تھے۔
ایک روز کلاس پہنچا، تو میرے دوست مجھے یوں دیکھتے، جیسے مَیں مریخ سے اُتر آیا ہوں۔ ستم یہ ہے کہ ضمیر ہیڈ ماسٹر صاحب نے فیصلہ صادر فرمایا کہ سکول لگنے سے پہلے ایک خصوصی کلاس ہوگی اور سردیوں کی چھٹیاں سکول کی چھت پر دھوپ میں کلاسیں لینے کا پروگرام رکھتے ہیں۔
سکول سے چھٹی کے بعد (مرحوم) امان اللہ المعروف کاکا اُستاد صاحب سے حساب پڑھتا۔ اُس کے بعد (مرحوم) محمد رحیم ٹھیکے دار کی مسجد میں عربی اور دیگر کتب پڑھتا۔ مغرب کی نماز میں حاضری لکھا کر ہی نکلتا۔ اُس کے بعد مکان باغ پہنچتا، جہاں میرے سابقہ دوست سجاد دلیل خان اور اختر علی گرم جوشی سے استقبال کرتے۔ میری حالت پر توبہ کرتے اور مکان باغ چوک تک چھوڑ آتے۔ وہاں سے شوکتی، اختر، واجد ، مراد وغیرہ دوسرے کلاس فیلوز، موجودہ سروش اکیڈمی تک چھوڑنے جاتے۔ یہ اُس وقت جنگلات کا دفتر تھا۔ وہاں سے وہ مجھے رخصت کرتے۔ مَیں عجائب گھر اور پھر ایک لمبے اور سیدھے راستے پر گھر کی اُور چل پڑتا۔ شام کے ملگجے اندھیرے میں دور ہی سے ہمارا گھر نظر آتا، جو اُس وقت اکلوتی آبادی تھا۔ شاید ہمارے ہی گھر بجلی تھی اُس وقت اور وہ بھی پورے ’’برہ بت کڑہ‘‘ (گل کدہ نمبر 2) میں۔
صحن سے چھن چھن کر آسمان کو روشنی کی لکیریں بنتیں۔ مَیں اجڑ حاجی صاحب کے آسیب زدہ باغیچہ کراس کرکے دیکھتا۔
قارئین! میرے گھر والوں کا مصمم ارادہ تھا کہ مجھے ڈاکٹر بنائیں۔ دوسری طرف مَیں تھا جسے ڈاکٹر کے پہلے ہی حرف ’’ڈال‘‘ سی بھی وحشت ہوتی تھی۔ اُس وقت میں دو ہی ڈاکٹروں کو جانتا تھا۔ ایک تھے ڈاکٹر عبدالوہاب (مرحوم) جو بہت مہربان اور پیارے ڈاکٹر تھے۔ جب ہم بیمار ہوتے اور ہومیو پیتھک علاج سے اِفاقہ نہ ہوتا، تو ڈاکٹر عبدالوہاب صاحب کے کلینک جاتے۔ پہلے سیدو روڑ چینہ روڑ کے سامنے، پھر امان اللہ خان صاحب کی گلی میں، یا پھر اُن کے آخری کلینک پر۔
میرا زیادہ تک گلہ خراب رہتا۔ وہ منھ کھولنے کا کہتے ہوئے اپنا منھ کھولتے۔ جواب میں، مَیں اپنا منھ کھولتا، مگر وہ جھانکنے کی زحمت نہ فرماتے۔ میرے منھ کھولنے سے پہلے ہی ’’سیپٹران سیرپ‘‘ یا گولی لکھنا شروع ہوجاتے۔ پھر مَیں عادی ہوگیا، جیسے ہی وہ منھ کھولنے کا کہتے، مَیں نہ کھولتا اور وہ سر نیچے کرکے شاباش کَہ دیتے۔ میری بہن ساتھ ہوتیں۔ گھر جاکر میری اس بدتہذیبی پر خوب مرچ مسالا لگا کر شکایت کرتیں۔ میری والدہ مجھے ’’جوکر‘‘ اور دادی منھ ٹیڑھا ہونے یا گونگا ہونے کی ممکنہ سزا بتاتیں۔
میرے پاس ہمت تھی، نہ الفاظ کہ مَیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب منھ یوں شوق میں کھلواتے ہیں۔ اندر کیا ہے؟ اُس میں دل چسپی نہیں رکھتے۔
اپنی بہن کو مَیں نے کئی دفعہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ منھ کھولنے نہ کھولنے میں کوئی گناہ نہیں۔ وہ کہتیں: ’’اُن کو اللہ نے ڈاکٹر بنایا ہے۔ ویسے منھ کھلوانے میں ان کا کیا فائدہ ہے؟ بس اللہ تعالیٰ برکت ڈالتے ہیں۔‘‘
اس ساری گفت گو کا مطلب ہوتا ’’شٹ اَپ‘‘…… اور مَیں عمل کرتا۔
دوسرے ڈاکٹر، ڈاکٹر رشید صاحب تھے۔ گو کہ مَیں کبھی اتنا زیادہ بیمار نہیں ہوا کہ اُن سے علاج کراتا، مگر ڈھیر سارے رشتے دار آکر علاج کراتے۔ مجھے بہت اشتیاق تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو دیکھتا رہوں۔ لمبے عرصے تک جب بھی موقع ملتا، مَیں وہاں سے گزرتا اور کلینک کے اندر جھانکتا۔ روئی اور کھولتے پانی میں گلاس کے سیرنج پڑے ہوتے اور وہاں سوئی بدل بدل کر لوگوں کو ٹھونسے جاتے۔ مَیں جب بھی یہ صورتِ حال دیکھتا، ڈاکٹر صاحب کے مریضوں، اپنے رشتے داروں کو یاد کرتا اور اُن کے درد کو محسوس کرتا۔
ڈاکٹر صاحب اپنے کلینک میں ہوں یا بازار میں گارمنٹس کی دُکان کے آگے کرسی پر بیٹھے ہوں، مَیں بار بار اُن کے سامنے سے گزرتا۔ وہ بھی کئی دفعہ نوٹ کرتے اور جب بھی پاس بلا نے کی کوشش کرتے، مَیں بھاگ جاتا یا آہستہ سے کھسک جاتا۔
مذکورہ دونوں ڈاکٹر بہت اچھی شہرت رکھتے تھے۔ میرے دل میں اُن کے لیے بہت احترام تھا، مگر نہ جانے کیوں مجھے یہ گمان ہوگیا تھا کہ اُن کو سازش کرکے اُن کی مرضی کے خلاف ڈاکٹر بنایا گیا ہے۔ ورنہ وہ یوں ظالم نہ ہوتے اور ہر بیماری میں ’’سزا‘‘ (انجکشن لگانا) نہ دیتے۔ یہ وہ سرد جنگ تھی جو ڈاکٹری کے خلاف میرے اندر جاری تھی۔
میرے ایک انکل انجینئر صدیق اکبر نے مجھے یوکرائن، ماسکو یا کابل جانے کے لیے بھی کہا اور کوشش بھی کی، مگر اس سازش کی بھنک پڑی، تو مَیں نو دو گیارہ ہوا اور تب اُن کو ملا جب اُن کو یقین ہوگیا کہ بندہ ڈاکٹری کا لائق نہیں۔
میرے دادا ’’خکلے طوطا‘‘ صلح جو اور نرم طبیعت کے مالک تھے۔ وہ مجھے فارسی سکھاتے تھے۔ حافظ شیرازی اور مولانائے روم اُن کو بہت پسند تھے۔ مثنوی مولانائے روم کافی حد تک ان کو زبانی یاد تھی۔ حکایاتِ شیخ سعدی سے اُن کو پیار تھا۔ اُن کا حافظہ کمال کا تھا۔ اخبار پڑھنے کا جنون تھا۔ اخبار کا ایک ایک لفظ پڑھتے۔ اُن کو تاریخِ عالم کا پتا تھا۔ جنگِ عظیم اول و دوم کے کئی واقعات اُنھیں ازبر تھے۔’’روزنامہ جنگ‘‘ کے علاوہ روزنامہ نوائے وقت، اُردو ڈائجسٹ اور سب رنگ ڈائجسٹ اہتمام سے پڑھتے تھے۔ وہ تعلیم کے حوالے سے ہمارے خاندانی جبر کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ علم کا پیشے سے کوئی تعلق نہیں۔
دوسری طرف میرے چچا میری جبری نمازوں کے بہت خلاف تھے۔ کہتے کہ بچوں کو مسجد سے دور رہنے کا حکم ہے، تا وقت یہ کہ ان کی عبادت کا اصل وقت نہ آئے، مگر ان دونوں کی رائے خفیہ بیانیے کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ اُنھوں نے کبھی باقاعدہ اس بارے قدم نہیں اٹھایا۔ بس میرے والد صاحب کی غیر موجودگی میں ایک عالمانہ گفت گو کرتے، باہم مربوط ہوتے، اتفاق کرتے اور کسی اور دن کی بحث تک چپ کا روزہ رکھ لیتے۔
میری والدہ عادی تھیں اور میری دادی بے زار۔ دونوں کوشش کرتیں کہ شام کی چائے پیش کی جائے اور مباحثے کو مختصر کیا جائے، تاکہ غیر ضروری ’’ہوں ہاں‘‘ اور تائید سے بچ جائیں۔
مَیں کالج گیا، تو پہلے دن مجھے لگا کہ یہ سکول کس نے شروع کرائے ہیں؟ کاش! ڈائرکٹ کالج جانا ہوتا۔ کالج میں میرا اعتماد بڑھ گیا۔ چھوٹا سا تھا کہ ضیاء الحق مرگیا اور دفن بھی ہوگیا۔ اسی دوران میں میرے ایک دوست نے ایک دن مجھے ’’سٹیٹ لائف‘‘ کے بارے میں بتایا اور اپنی دانست میں خوب سمجھایا ۔ مَیں اتنا جذباتی ہوا کہ اُسی وقت مجھے شکار نظر آگیا۔ کالج بالکونی کے نیچے قادر خان صاحب سنیئر طلبہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ مَیں تیر کی سی تیزی کے ساتھ اُن کی طرف گیا۔ اُنھوں نے نوٹ کیا اور پوچھا کوئی کام……؟ مَیں تو کھل جا سم سم بتانے لگا تھا اور یقین تھا کہ میری سمجھی ہوئی عقل اُن کو حیران کر دے گی۔ مَیں نے تھوڑے سائڈ میں اُن کو پورا منصوبہ سمجھایا اور اُن کی موت اور معذوری پر ایک عزیم الشان لیکچر دی۔ وہ جواباً اتنا زور سے ہنسے کہ مجھے شک ہوا کہ کہیں جذبات کی رو میں بہہ نہ گئے ہوں۔ اُنھوں نے اشارے سے سمجھایا کہ راز کو راز ہی رکھو۔ مَیں انجان بن گیا اور سینئرز پر افسوس کرنے لگا کہ کتنی بقراطی جھاڑ رہے ہیں، مگر ان کو ہیلتھ انشورنس کا پتا ہی نہیں۔
جب پروفیسر صاحب فارغ ہوگئے، تو مجھے اپنے آفس لے گئے۔ وہاں زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ مَیں ڈر گیا کہ پروفیسر صاحب کو شاید کچھ ہوگیا ہے۔ ہنسنے کے بعد جب تھوڑے نارمل ہوئے، تو اُنھوں نے پوچھا: ’’مَیں ہر سال پیسے دوں گا۔ اس دوران میں اگر مَیں معزور ہوا، تو کیا مجھے پیسے ملیں گے یا میں مرگیا، تو کیا مجھے کئی گنا پیسے ملیں گے، یا پھر 20 سال بعد مجھے پیسے ملیں گے؟‘‘ پھر خود ہی جواب دینے لگے: ’’اول مرنے کے بعد پیسے اگر مجھے دے بھی دیے جائیں، تو میں ان کا کیا کروں گا؟ اپاہج ہوکر مَیں بھیک مانگنا زیادہ پسند کروں گا، کیوں کہ مَیں کوالیفائی کر رہا ہوں گا۔ اس طرح 20 سال بعد اگر رقم ملے، تو مجھے کوئی دل چسپی نہیں ہوگی۔ مَیں آج کا کمایا ہوا، آج کھانا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘
پرفیسر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’تمھاری طرح ایک سٹوڈنٹ نے میرا بیمہ کرایا ہے۔ ہر سال مجھ سے پیسے چھین کر لے جاتا ہے۔ جب وہ آنا بند کردے گا، تو مَیں پیسے جمع کرانا بند کر دوں گا۔ تم ابھی انشورنس کا نہ سوچو۔ زندگی پر دھیان دو۔ مرنا بدصورت عمل ہے۔ مَیں نے سب کے سامنے اس لیے کچھ نہ کہا، تاکہ تمھیں برا نہ لگے۔‘‘
پروفیسر ممتاز علی شاہ اور دوسرے پروفیسروں کی قربت نے مجھے احساس دلایا کہ ڈاکٹر بننا سراسر حماقت ہے۔
ایک بار ’’پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ (پی ایس ایف) نے پلوشہ سنیما بُک کرایا اور فلم بینی کی دعوتِ عام دی۔ مَیں کئی دفعہ پلوشہ سنیما کے آگے سے گزرا تھا، مگر اندر جانا تو دور، کہیں کوئی دیکھ نہ لے، سڑک کے دوسرے کنارے سنیما کے سامنے سے گزرتا۔
اُس روز میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ تین گھنٹے عیش کرنے بعد نکلا، تو گھر یاد آگیا۔ والد صاحب یاد آئے۔ مَیں گھر پہنچا، تو ہماری گلی تک ہماری شہرت پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ چوں کہ اُس دن اسلامی جمعیت طلبہ نے قرآن خوانی کا پروگرام بھی رکھا تھا، جس میں شاید جمعیت کے لوگوں نے شرکت کی ہوگی۔ والد صاحب کے استفسار پر مَیں نے جمعیت کے روح پرور پروگرام میں شرکت اور فیض یاب ہونے کا ذکر بڑی شد و مد سے کیا۔ والد صاحب تحمل سے سن رہے تھے۔ جب وہ ڈنڈے برسانا شروع ہوگئے، تو مَیں سمجھ گیا کہ میں سائیکلون آئی میں پہنچ گیا تھا اور یہ تحمل ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا۔ میرے انگ انگ سے سنیما کی لذتیں نکل گئیں…… مگر مجھے سنیما اچھا لگنے لگا۔ مَیں نے چھپ کر اپنے بھائی بہنوں کو سنیما کے بارے بڑھا چڑھا کے بیان کیا۔ میری چھوٹی بہن نے تمام داستان سے اولاً لذتیں لیں اور ثانیاً جاکر امی کو اپنے الفاظ میں میری وہ کردار کشی کی کہ امی چپل اٹھانے پر مجبور ہوئی۔ رہی سہی کسر امی نے پوری کردی۔ چپل واپس رکھتے ہوئے کہا کہ اَب سنیما کی باتیں اس گھر میں نہیں ہوں گی۔ چھت گرانا چاہتا ہے تو سب پر۔
اس جرمِ عظیم کی پاداش میں ہم نے اپنی چھوٹی بہن کا نام ’’بی بی سی‘‘ رکھا۔ اس کی شادی تک اسی نام سے انھیں چڑ رہی۔
کالج سے پہلے نویں جماعت ہی میں مجھے ’’پاکستان نیشنل سنٹر‘‘ کے بارے میں پتا چلا۔ مَیں نے جاکر کتابیں دیکھیں اور فوراً کتابوں تک رسائی کا راستہ پوچھا۔ بے زار لائبریرین نے کہا کہ یا تو دو روپے جمع کراؤ زرِ ضمانت یا ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل سے سرٹیفکیٹ لے آو!
پیسے کیا دیتے ایک درد مندانہ درخواست محتاج ہیڈ ماسٹر صاحب کے نام لکھا۔ کئی دن موقع کی تلاش میں رہا اور ایک دن جاکر درخواست ان کے حضور پیش کی۔ میرے پسینے دیکھ کر پوچھا کیا بات ہے؟ روہانسی آواز میں پاکستان نیشنل سنٹر کا ذکر کیا۔ نیز علم اور اپنے درمیان صرف اُن کے دستخط کی کمی کا کہا۔ اُنھوں نے درخواست بغیر پڑھے دستخط کیے۔ میرے ساتھ ایک دوسرا لڑکا امجد تھا، اُس کی درخواست پھاڑ دی۔
اس کے بعد مَیں خراماں خراماں نیشنل سنٹر جانا شروع ہوا۔ وہ دو تین کتابوں سے زیادہ نہیں دیتے تھے، اور جلدی واپس کرنے پر غصہ ہوتے تھے۔ مَیں نے کچھ ہی عرصے میں ڈھیر ساری کتابوں کو پڑھ ڈالا۔ میری آخری کتاب ایک ناول ’’گل بانو‘‘تھی۔
میرے چچا ہدایت اللہ وکیل صاحب کا بھی نیشنل سنٹر جانا تھا۔ کہیں کسی بے زار ملازم نے ذکر کیا کہ ایک لڑکا کئی کتابیں لے کر جاتا ہے اور انھیں پڑھتا رہتا ہے۔ بالکل فارغ ہے۔ سب کی دل چسپی بڑھی کہ کون ہے یہ لڑکا؟ رجسٹر نکالا، تو میرے چچا نے دیکھا کہ رومانوی ناولوں سے لے کر سائنسی فکشن تک سبھی کتابیں ان کا بھتیجا پڑھ چکا تھا۔ چچا عدم تشدد کے قائل تھے، مگر اُس دن اُنھوں نے اُصول توڑ دیے اور ہاتھ کی وہ صافی دِکھائی کہ جس کی مجھے اُن سے بالکل توقع نہیں تھی۔
پاکستان نیشنل سنٹر کی کتاب اُنھوں نے واپس کی اور کارڈ ضائع کر دیا اور میرے ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھنے میں پھر مگن ہوگئے۔ اس کے بعد مجھے پبلک لائبریری کا پتا چلا۔ جگاڑ سے کام لیا اور وہاں پہنچ گیا۔
اس طرح جب کالج گیا، تو مفت کے کئی اخبارات اور ڈھیر ساری کتابیں منتظر تھیں۔ کالج کے پہلے سال کے آخر میں میری ملاقات بائیں بازوں کے لوگوں سے ہوئی۔ مجھ جیسا تصور پسند آدمی کھنچتا چلا گیا۔ مَیں نے سبطِ حسن کو پڑھا۔ سی آر اسلم، عبداللہ ملک، انجمنِ ترقیِ پسند مصنفین سے تو پہلے ہی سے سرِراہ ملاقات تھی، وہاں کی تحریروں کو ایک اور نظر سے پڑھنا شروع کیا۔ ’’ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ بہت سخت وقت تھا۔ کئی پابندیاں تھیں۔ سی پی کے لوگ پیپلز پارٹی، اے این پی، مزدور کسان پارٹی میں چھپے ہوئے تھے۔ لٹریچر افغانستان سے آتا تھا۔ شمس بونیری، فانوس گجر، شیر محمد وکیل صاحب، نعیم ایڈوکیٹ، مختار باچا، لطیف آفریدی، افراسیاب خٹک وغیرہ فرنٹ سے لیڈ بھی کر رہے تھے اور حوصلہ افزائی بھی کر رہے تھے۔ گورباچوف کے ’’گلاس ناسٹ‘‘ اور ’’پرسٹرائیکا‘‘ کے فلسفوں نے بائیں بازو اور خصوصاً نوجوانوں میں شدید مایوسی پیدا کی۔
سوویت یونین کے خاتمے نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ڈھیر سارے ساتھی انڈر گراؤنڈ چلے گئے۔ پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل ٹو کے کمرے میں چند نوجوان جمع ہوئے۔ انتہائی خفیہ میٹنگ تھی۔ میری اور میرے ایک دوست کی ذمے داری لگائی گئی۔ ایک خط سی پی چائینہ کے نام لکھا گیا تھا۔ ہم سے کہا گیا کہ ہم چینی سفارت خانے جاکر سفیر تک رسائی حاصل کریں اور یہ خط دے آئیں۔
خط کا مضمون تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا ’’یونی پولر‘‘ ہونے جارہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے محنت کشوں کی نظر چائینہ پر ہے۔ چائینہ کے سی پی سے درخواست ہے کہ وہ دنیا بھر کے محنت کشوں کی پشت پناہی کرے اور پاکستان میں طلبہ تنظیم اور ٹریڈ یونین کی ہر ممکن مدد کرے۔
ہم یہ کام کرنے جارہے تھے کہ یہ خبر آئی کہ ماؤ چین اپنی سمت تبدیل کر رہا ہے اور اگر چینی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا، تو وہ خود اس کی اطلاع خفیہ ایجنسیوں کو دے دیں گے۔ چین پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور وہ ایسی کسی کوشش کی مدد میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ عین موقع پر ہم نے رسک لینے سے انکار کیا۔ قومی انقلابی پارٹی اور پھر پختونخوا قومی پارٹی بنی۔ فانوس گجر نے راستے الگ کیے۔
نتیجتاً بائیں بازو کی سیاست اور جد و جہد شدید بحران کا شکار ہوئی۔
1992ء میں، مَیں کراچی چلا گیا اور ’’نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ (این ایس ایف) کے لیڈروں سے رابطہ کیا۔ جامعہ کراچی میں جمعیت اور ’’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ (اے پی ایم ایس اُو) نے کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔ جامعہ، رینجرز کی تحویل میں تھی۔ ’’اُردو کالج‘‘ اور ’’ڈاؤ یونیورسٹی‘‘ میں بھی ’’این ایس ایف‘‘ انحطاط کا شکار تھی۔ لوگ پیپلز پارٹی میں جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔ خود جام ساقی کا قبلہ بدل رہا تھا۔ سندھی، قوم پرستی کو زیادہ اہم سمجھ رہے تھے۔ حیدر آباد میں ’’جئے سندھ‘‘ ترقی پسند نظریات سے عاری بن رہی تھی۔ ’’بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ (بی ایس اُو) تقسم در تقسیم کا شکار تھی۔ پنجاب میں بانجھ پن عروج پر تھا۔ سیاسی پارٹیاں طویل مارشل لا کے بعد سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تسلط میں تھیں۔ انتہائی بے یقینی اور مایوسی کے عالم میں بیش تر دوستوں نے بیرونِ ملک سیاسی پناہ کی کوششیں شروع کیں اور کئی کام یاب بھی ہوئے۔
افغانستان میں ڈاکٹر نجیب کے خلاف بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دوران میں طالبان نے آکر سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ خلق اور پرچم کے نام نہیں رہے۔ افغانستان سے کئی ایک دوست اور نظریاتی ساتھی پاکستان آگئے اور گم نامی کی زندگی بسر کرنا شروع کی۔ بعد میں بیش تر ناروے، ڈنمارک اور جرمنی شفٹ ہوگئے۔ سرکاری نوکری میں بلیک لسٹ اور واچ لسٹ میں ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ پرائیویٹ سیکٹر اور این جی اُوز میں چلے گئے۔ ہم نے بھی ایک کچی پکی نوکری پکڑ لی۔ نظریاتی اساس نے اتنا بزدل کر دیا کہ ہر استحصال پر دل خون کے آنسو روتا۔
1992ء میں باقاعدہ مزدوری شروع کی۔ 1996ء میں ترقی ملی اور ملاکنڈ ڈویژن اور مردان ڈویژن کی ذمے داری ملی۔
2000ء تک مکمل خیبر پختونخوا اور گجرات تک کا علاقہ ذمے داری میں آیا۔
2004ء میں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور خیبر پختونخوا کی ذمے داری ملی۔
2009ء میں شدید ملکی خراب حالات میں کراچی سے پورے پاکستان کی ذمے داری ملی، جو 2018ء تک مختلف پوزیشنوں پر قائم رہی۔
2016ء میں کمر میں تکلیف شروع ہوئی اور 2 سال انتہائی تکلیف میں گزارنے کے بعد مارچ 2018ء میں ایک کام یاب کیرئیر کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹروں نے لائف سٹائل تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ نیز سفر سے مکمل منع کیا۔ ماہِ دسمبر 2017ء سے فروری 2018ء تک بستر پر پڑا رہا۔ بس ایک ہی خواہش تھی کہ اتنی طاقت ہو کہ مَیں واش روم تک بغیر سہارے اور سہولت کے جاسکوں۔
15 فروری 2018ء کو ایک تکلیف دِہ وقفے کے بعد مَیں دوبارہ اپنے پاؤں پر چل کر شہر میں واک کرنے کے قابل ہوا۔ اُسی دن مَیں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی لائن تبدیل کرنی ہے۔ گھر واپس پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ ایک مہینے کا نوٹس دیا اور ایک نئی پہچان کے ساتھ خود کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔
ملازمت کے دور میں ہیڈ آفس میں کئی دفعہ آڈٹ شروع ہوجاتا۔ ’’آڈٹ‘‘ کا نام چوں کہ خطرناک ہے، اس لیے سب سہم جاتے، مگر ایک بے عزتی اور تشویش کی بات یہ تھی کہ ہر دفعہ رینڈم کیسوں میں میرا نام آجاتا۔ میری فائل چیک ہوتی۔ میرے اخراجات اور معاملات پیش ہوتے۔ ایک دفعہ مجھے بہت غصہ آیا۔ ایچ آر اور مارکیٹنگ سروسز میں گلہ کیا کہ صرف ہم پر ہی کیوں ہر دفعہ شک ہوتا ہے؟ میری بات کا کسی نے جواب نہیں دیا، نہ کسی نے نوٹس ہی لیا۔ مَیں خود اپنی آنکھوں میں مشکوک ہوا۔ اُسی رات مجھے ایک فون آیا اور اُسی ڈیپارٹمنٹ کے ایک خاص بندے نے ملنے کا کہا۔ مَیں غصے اور مایوسی میں تو تھا ہی، جیسے ہی ملا، تو وہ گویا ہوا کہ ’’جناب! جب بھی کمپنی میں آڈٹ ہوتا ہے اور اس کو کئی دفعہ آؤٹ سورس کیا جاتا ہے، تو وہ سب کو دیکھتے ہیں۔ آج آپ آئے تھے، لیکن کوئی نہیں بولا۔ آج سے آپ آیندہ ایسی شکایت لے کر نہ آئیں۔ سب کے لیے برا ہوگا۔‘‘
مَیں نے پوچھا کہ کیا اس کو مَیں دباؤ اور دھمکی سمجھوں؟
اُس بھلے مانس نے کہا: ’’دھمکی تو نہیں، دباؤ سمجھیں…… لیکن ہم پر چوں کہ روز ان چیزوں کو ہم نے دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے آپ پر اعتراض چاہے نہ بھی آئے، تو بھی ہم کام سے جائیں گے۔‘‘
مَیں نے مطلب پوچھا، توکہنے لگے کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ ساجد امان صاحب کے حسابات ٹھیک ہوتے ہیں۔ ہم ہر دفعہ یہی آگے کر دیتے ہیں۔ آپ کا تو کچھ نہیں ہوتا، ہمیں شاباش ملتی ہے کہ ہم نے چیک بڑا مضبوط رکھا ہوا ہے۔‘‘
جب مَیں ملا بابا مینگورہ نمبر 4 سکول میں تھا، تو وہاں اُستاد اور شاگرد کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ سکول میں خاص ڈسپلن والا ماحول تھا۔ استاد کا خوف قائم تھا۔ ہم سے کافی سینئر ایک کلاس جس میں مٹے میاگانو چم اور امین مکان باغ تھے۔ وہ 14 اگست میں کلاس کو سجانے کی روایت اور مقابلے میں حد سے گزر گئے۔ وہ مٹی کا ایک دِیا لائے اور اس کا دھواں بہ طورِ قلم استعمال کیا۔ کلاس کی چھت پر دھویں کی مدد سے اپنے نام لکھے۔ آزادی کے اُس دن جو جشن ہوا، اُن کو تو یاد ہوگا ہی، مگر باقی ماندہ لوگوں کے ذہنوں پر بھی وہ دن نقش کر دیا۔ اس کے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کوئی ’’کریٹوغلطی‘‘ کا سوچ بھی سکے۔
بنڑ سکول میں جاکر ماحول کو کافی ڈھیلا ڈھالا پایا۔ ایک تو قدرے مضافاتی علاقوں کے لوگ تھے، یا اینگروڈھیرئی کے مڈل سکول سے آئے ہوئے طلبہ تھے۔ نان مسلم سواتی تھے، یا قدیم اور مستقل رہایشی لوگ تھے۔ بنڑ گویا ایک ’’ملٹی کلچرڈ‘‘ سکول تھا۔ میرے ساتھ ڈسک پر ’’کیول رام‘‘ بیٹھے ہوتے۔ مجھ سے آگے جان عالم اور جہانزیب (اینگرو ڈھیرئی) بیٹھے ہوتے۔ پیچھے ’’کندن‘‘ اور ’’امرجیت‘‘ اور اُن سے پیچھے ’’گور بخش لال‘‘ اور دیگر۔ گویا ہماری لائن ’’ایلینز‘‘ کی تھی۔ ساتھ والی لائن میں یوسف مسلم، سجاد، خان سردار، رحمت علی، امین، چھوٹا امجد، زکریا، نواب اور فتح خان خیل عیسیٰ خیل کے کئی لڑکے تھے۔ نویں کلاس دو جماعتوں سائنس اور آرٹس پر مشتمل تھی۔ بھٹو بھی ہمارے ہی سیشن میں تھا۔
سکول کے مقابلوں میں ایک دن ہمارا سکول ہاکی کا میچ حاجی بابا سکول سے ہار گیا، تو ہمارے لڑکوں نے احتجاجاً گراؤنڈ میں جو جلانے لائق تھا، سب راکھ میں بدل دیا۔ گراؤنڈ میں الاؤ روشن تھا اور بھٹو اس کے گرد ناچ رہا تھا۔ اس ناگن ناچ کی قیمت اُس نے بہت سخت ادا کی بعد میں۔
ملا بابا میں کرکٹ، باسکٹ بال اور سکاوٹ کی باتیں ہوتی تھیں۔ بنڑ سکول میں ان کھیلوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، بل کہ ان کو ایک حد تک نسوانی کھیل سمجھا جاتا تھا۔ ہاکی بنڑ سکول میں ایک جذباتی کھیل اور متفقہ بیانیہ تھا۔ یہاں آکر پتا چلا کہ ہمارے کئی کلاس فیلو ہیں، جن کے صرف نام رجسٹر میں درج ہیں۔ وہ سکول نہیں آتے، بس ہاکی پریکٹس میں دیکھے جاتے ہیں۔ کون تھے وہ…… مَیں نے کبھی اُن کو نہیں دیکھا، مگر کبھی حاضری لیتے ہوئے اجنبی نام پکارا جاتا، تو لبیک کے لیے بے قرار طلبہ اونچی آواز سے پکار اُٹھتے: ’’ہاکی والا۔‘‘
جن کاموں کا ملابابا میں تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، وہ سب یہاں عام تھے۔ نسوار کا استعمال عام تھا۔ لڑکے اور استاد بھی بغیر تکلف کے کلاس میں چھوٹا گولا (چونڈے) بنا لیتے اور دبا کے منھ میں رکھ لیتے۔ بریک میں کچھ لڑکے سکول کے ساتھ ملحقہ طویل کھیتوں کے سلسلوں میں سگریٹ پیتے اور کُلی کرکے واپس سکول آجاتے۔
سکول میں کلرک یوسف شاہ میرے چچا تھے۔ اُن کی ذمے داری اور نگرانی میں رکھنے کی خاطر میں اس سکول میں لایا گیا تھا۔ یہاں میری پہچان بابو صاحب کے بھتیجے کے طور پر تھی۔
سکول میں ضمیر ہیڈ ماسٹر صاحب، امین استاد صاحب اور دیگر اساتذہ کا بڑا نام تھا۔ وہ بہت لائق بھی تھے۔ سکول میں اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم کافی ایکٹیو تھی۔ اس کے لیڈر کئی دفعہ چھت پر چڑھ کر جذباتی تقریر جھاڑ دیتے، جس میں مشرقی پاکستان، الشمس، جہاد وغیرہ کا ذکر شد و مد سے ہوتا۔ اس عمل کو سکول کے سامنے والی جامع مسجد کے مولانا سبحانی صاحب، امین استاد صاحب اور دیگر کی حمایت کی وجہ سے لوگ نظر انداز کردیتے، مگر نجی محافل میں گفت گو میں لوگ طنزاً کہتے ’’مغدودیان۔‘‘ یہ وہ لفظ تھا، جس کے معنی یا تاریخی وجہ کسی کو معلوم نہیں تھی، مگر مطلب یہ تھا کہ ’’یہ اچھے لوگ نہیں، ان سے دور رہیں۔‘‘ پورے سکول کے طلبہ میں یہ بات عام تھی۔ تقریر کے بعد لوگ اُن طلبہ کو ہم دردی سے دیکھتے کہ کاش! یہ ’’مغدودیان‘‘ (مودودی) نہ ہوتے۔
ہمارے آبائی مشترکہ گھر میر خان خیل بوستان خیل میں تھا۔ کہتے ہیں کہ پہلے یہ کھلا میدان تھا۔باچا صاحب کے حکم پر اس مکان کی تعمیر ہوئی تھی۔ چوڑی دیواروں میں کوئی ہم وار پتھر استعمال نہیں ہوا تھا، بل کہ جب اس مکان کی تعمیر شروع ہوئی، تو ہر خیل نے ’’اَشر‘‘ کیا اور دریائے سوات سے فرداً فرداً دریا کے گول پتھر لاتے گئے۔ ڈاگ یا میدان میں یہ پہلا گھر تھا، اس لیے قاضی صاحب کا نام ’’ڈاگ قاضی‘‘ پڑا۔ یہ اس علاقے کا پہلا پکا یعنی سیمنٹ سے تعمیر شدہ مکان تھا۔ پکی فرش اور دیواروں پر سیمنٹ کا پلاسٹر ہوا تھا۔ ’’رانزڑہ‘‘ کی لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ اس مکان کی تعمیر سے پہلے عیسیٰ خیل میں گھر اور حجرہ تھا، جس کو باچا صاحب کی ہدایت پر چھوڑ کر یہاں نئے گھر میں سکونت اختیار کی گئی۔
چوں کہ یہ علاقہ میر خان خیل بوستان خیل کا تھا، اس لیے رواج نامہ اور دوسری دستاویز میں ایک حکم شائع کیا گیا کہ ’’ڈاگ قاضی صاحب کی جائیداد ویش اور دوسرے جائیداد کے تنازعوں سے بالا اور مستثنا ہوگی۔‘‘
اس لیے سرکاری طور پر قاضی صاحب کی مینگورہ شہر کی مستقل رہایش کا فیصلہ اور بروقت دست یابی کو یقینی بنایا گیا۔
اپنے بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ہمارے اِرد گرد رہنے والے آپس میں بہت قریبی تعلق رکھتے تھے۔ دریا خان ماما، مرزا صاحب، قلندر ماما، پرویز رورا، منزرے، کالج ٹیلر، ایک بندوق لٹکائے بزرگ شاید محمود صاحب نام تھا اُن کا۔ میرے بارے میں کہا جاتا تھا کہ چھوٹا سا ہے، مگر بڑی گہری اور میٹھی باتیں کرتا ہے۔ نفاست پسند ہے اور منفرد لباس پہنتا ہے۔ آس پاس کے سارے لوگ جیسے ہی ملتے، ایک دل کش مسکراہٹ کے ساتھ فوراً گود میں اُٹھالیتے۔ مَیں ا ب ت ث اور اے بی سی ڈی رَٹ چکا تھا۔’’بابا بلیک شیپ‘‘، ’’ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار‘‘ بھی بغیر سمجھے سر ہلا ہلا کر سناتا۔ اِردگرد کے سارے گھروں میں میری بڑی آؤ بھگت ہوتی۔
اس طرح زندگی پلک جھپکتے میں گزر گئی اور کب اس تحریر تک آپہنچی…… کچھ پتا ہی نہیں چلا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔