قارئین! پانچ سال بعد ایک بار پھر امریکہ روانگی کے اسباب پیدا ہوئے۔ اس بار ریاست فلوریڈا کے ساحلی شہر میامی میں کمپیوٹری لسانیات سے متعلق ایک کانفرنس میں بہ طور شریک مصنف شرکت کی۔ مقالے کا عنوان تھا "Developing Language Technology and NLP Tools for Endangered Languages.”
مذکورہ مقالے کے مرکزی مصنف برخوردار نعیم الدین ہیں، جو اس وقت چارلز یونیورسٹی (چیک ریپبلک) میں کمپیوٹری لسانیات کے طالب علم ہیں۔ چوں کہ اُنھیں ویزہ نہ مل سکا، حالاں کہ اُنھیں کانفرنس کی طرف سے سفر خرچ اور کانفرنس کے دوران میں قیام و طعام کے اخراجات کی منظوری بھی ملی تھی، اس لیے بہ طورِ شریک مصنف اب وہی سہولیات مجھے میسر تھیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ گذشتہ جون سے میرے پاس پہلے سے ویزہ موجود تھا۔
چھے دن کی کانفرنس کے بعد ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا جانے کا ارادہ بھی تھا، جہاں میرے دیرینہ ساتھی اور مدین سوات سے تعلق رکھنے والے حافظ عنایت اللہ میرے میزبان تھے۔ مجھے اُمید تھی کہ انھی کی معیت میں ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن بھی جانا پڑے، جہاں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) کا ایک بڑا پروگرام طے تھا۔
رات کے سوا دو بجے کراچی ایئرپورٹ پر اپنی پرواز کے انتظار میں تھا۔ پہلی پرواز تین گھنٹے کی تھی، جو دوہا (قطر) تک تھی۔ تین گھنٹے بعد وہاں سے آگے میامی کی 16 گھنٹے سے زیادہ کی پرواز تھی۔ کل ملا کر یہ 22 گھنٹے کا سفر بنتا تھا۔
٭ ایک طویل فضائی سفر:۔ الحمدللہ، ایک طویل اور صبر آزما فضائی سفر کے بعد اپنی منزلِ مقصود تک بہ حفاظت پہنچا۔ صبر آزما اس لیے کہ دوحہ قطر سے اُڑان بھرنے کے بعد میامی فلوریڈا اُترنے تک مسلسل 15 گھنٹے کی پرواز کے دوران میں جہاز نے کہیں بریک نہیں لگائی۔
اس دوران میں رتجگے کی وجہ سے نیند تو بہت آرہی تھی، لیکن یہ احساس سونے کب دیتا تھا کہ آپ 40 ہزار فٹ کی بلندی پر مختلف براعظموں اور سمندروں کے اوپر سے گزر رہے ہیں اور یہ سب آپ اپنی سیٹ کی سکرین پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
تھکاوٹ کی وجہ وہ گھٹن بھی تھا، جو میری ہم نشیں دو بھاری بھرکم نیپالی خواتین نے پیدا کیا تھا، کیوں کہ مَیں کھڑکی کی طرف والی سیٹ پر تھا اور اُنھیں فضائی واش روم جانے کے لیے بار بار اُٹھنے کی زحمت نہیں دینا چاہتا تھا۔
قطر ائیرویز کی فلائٹ میں البتہ دیگر تفریحی مواد کے ساتھ قرآنِ پاک سننے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے اُس سے استفادہ کیا۔ کچھ انڈین فلمیں بھی دیکھنے کی کوشش کی، لیکن پوری طرح دیکھ نہیں پایا۔ کیوں کہ جب فلمیں دیکھنے کی عمر تھی، اُس وقت نہ دیکھ سکا اور اَب کہانی گرفت میں نہیں آتی، اس لیے بور ہوکر چھوڑ دیتا ہوں۔ البتہ اسلحے کے بیوپاریوں کی سازشوں اور جغرافیائی معلومات سے متعلق کچھ دستاویزی فلمیں دیکھیں۔
میامی ایئرپورٹ سے نکلنے میں بہت وقت لگا۔ کیوں کہ امیگریشن کے لیے کھڑے لوگوں کی قطاریں بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔ اس کے بعد باہر نکلنے اور ہوٹل تک پہنچنے کے ذرائع معلوم کیے۔ سب سے سستا ذریعہ دو تین ٹرام اور ریلیں تبدیل کرنے کا تھا۔ اندرونِ شہر یہ سہولت مفت ہے۔ البتہ ریل کے لیے کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کرایہ کسی بھی جگہ نقدی نہیں۔
ہوٹل میں کانفرنس منتظمین نے مہمانوں کے لیے ویلکم پارٹی کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مجھے 19ویں منزل پر اپنے کمرے میں جانے کے لیے "Key Card” دیا گیا کہ پہلے اپنا سامان رکھ کر رجسٹریشن بعد میں کرواؤ۔ کمرا صاف ستھرا اور کھلا ڈھلا تھا، جس میں دو بیڈ تھے۔ معلوم ہوا کہ میرے ساتھ لاطینی امریکہ کے ملک چلی کا ایک لڑکا بھی رہایش پذیر تھا۔
ویلکم پارٹی کے دوران میں ہجوم کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ دراصل کئی کانفرنسوں کا مجموعہ تھا، یعنی بہت سے پروگرام ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اس لیے اسے ’’اجتماع‘‘ کہنا درست ہوگا۔ کیوں کہ اس میں دنیا بھر کے سیکڑوں لوگ شرکت کر رہے تھے۔ یہ دراصل ٹیکنالوجی کمپنیوں سے وابستہ لوگوں کا اجتماع تھا۔
٭ اسلامک سنٹر آف گریٹر میامی:۔ جنوبی کوریا سے آئے ہوئے پاکستانی ڈاکٹر اشتیاق حسین کے ساتھ جنوبی فلوریڈا کی سب سے بڑی جامع مسجد جانے کا پروگرام بنا، جو کہ ’’اسلامک سنٹر آف گریٹر میامی‘‘ بھی کہلاتی ہے۔ کئی دنوں سے مرکزی شہر کی قابلِ رحم مسجد/ مصلیٰ میں نماز پڑھی، جو اندر سے تو کافی کشادہ تھی، لیکن باہر سے بالکل بھی مسجد معلوم نہیں ہوتی تھی، بل کہ ایک ایسی دُکان معلوم ہوتی تھی، جس کا شٹر آدھا کھلا ہوا ہو۔
اس موقع پر گریٹر میامی کی مسجد میں آس پاس کے علاقوں کے مسلمان گھرانوں کی پکنک تھی۔ اس کا اہتمام مقامی مسجد کرتی رہتی ہے، تاکہ وطن سے دور یہ برادری اپنے بال بچوں سمیت ایک ساتھ وقت گزارے۔
یہاں کھانے پینے کی چیزوں اور دوسری اشیائے ضروریہ کے مختلف سٹال لگے ہوئے تھے، جن سے لوگ ارزاں نرخوں پر خریداری کرتے تھے۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگا۔ غریب الوطنی میں کمیونٹی کا مل جل کر رہنا بہت سہارا فراہم کرتا ہے۔ یہاں پاکستانی برادری زیادہ تعداد میں ہے۔ اس لیے ہر طرف اُردو میں باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
٭ ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ کا فنڈ ریزنگ پروگرام:۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں نے ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ (Helping Hand) نامی این جی اُو کا نام ضرور سنا ہوگا۔ بحرین سوات میں 2010ء کے سیلاب میں بہت سے بے گھر افراد کے لیے اُنھوں نے گھر بنا کر دیے تھے۔ اُن میں میرے اپنے بھائی بھی شامل تھے۔
اسی دوران میں احسان بھائی نے وٹس ایپ پر کال کرکے میامی سے 40،ـ50 کلومیٹر کے فاصلے پر "Launderhill” نامی جگہ پر منعقد ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ پروگرام کیا تھا۔ احسان بھائی "ICNA” کے کوئی ذمے دار ساتھی ہیں، جن کو میرا نمبر اٹلانٹا سے بھائی عنایت اللہ نے دیا تھا۔
’’اسلامک سنٹر آف گریٹر میامی‘‘ سے معز صاحب نے بتایا کہ وہ بھی اسی پروگرام میں شرکت کرنے جا رہے ہیں، لہٰذا اُس نے مہربانی کرکے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر صحیح وقت پر وہاں پہنچایا۔ یہ ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ کا فنڈ ریزنگ پروگرام تھا، جو کہ ’’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘‘ کا ایک ذیلی فلاحی ادارہ ہے۔ یہاں زیادہ تر پاکستانی تھے، جن میں خواتین بھی الگ سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ بہت محبت سے ملے۔ خصوصاً براول (دیر) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سلطان اللہ صاحب کو بھائی عنایت اللہ نے میرے بارے میں بتایا تھا۔ اُن کے علاوہ صوابی کے بھی ایک صاحب تھے، جو مجھے پشتو بولتے دیکھ کر بہت خوش تھے۔
یہاں غزہ کے یتیموں کی کفالت کے لیے ’’فنڈ ریزنگ‘‘ ہو رہی تھی، جس میں ڈھیر سارے لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق نقد یا چیک کی صورت میں رقم دی۔ ایک یتیم کی سالانہ کفالت کی رقم 600 ڈالر مقرر تھی۔ کچھ لوگ 10، 20 اور کچھ لوگ اس سے بھی زیادہ کی کفالت کے لیے رقم دے رہے تھے۔
کتنے عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ، جو اللہ کی دی ہوئی فضل سے آنکھیں بند کرکے عطیہ کرتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوگی؟
دوسری طرف مستفید ہونے والے لوگ اس بات سے بے خبر، بل کہ بے پروا ہوتے ہیں کہ یہ کن کی جیبوں سے نکلے پیسوں سے ہمارے لیے گھر بن رہے ہیں، یا کوئی اور رفاہی کام ہوتا ہے۔
پروگرام کے آخر میں جب مَیں نے سلطان اللہ بھائی سے کہا کہ پاکستان میں، مَیں نے ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ کے کام ہوتے دیکھے تھے، لیکن اُن کاموں کے وسائل آج خود اپنی آنکھوں سے جمع ہوتے دیکھے۔ مَیں نے کہا، مَیں خود بھی ہیلپنگ ہینڈ کے بینیفیشریز میں سے ہوں۔
سلطان اللہ بھائی پروگرام کے منتظمین میں شامل تھے۔ اس لیے اُنھوں نے مجھے ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ کے سربراہ جاوید صدیقی صاحب سے ملوایا۔ پروگرام اختتام تک پہنچ چکا تھا، لیکن اُنھوں نے مجھے کہا کہ مَیں اسٹیج پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ مَیں نے ہیلپنگ ہینڈ سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا، جسے اُنھوں نے سراہا۔
مجھے پروگرام میں پاکستانی بھائیوں سے مل کر بڑی خوشی ہو رہی تھی اور اُن کے ساتھ مَیں مزید وقت گزارنا چاہتا تھا، لیکن مجھے ہوٹل جانے کی بھی بڑی فکر ہو رہی تھی۔ کیوں کہ ہوٹل یہاں سے کم سے کم 45 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے کمرے میں ڈاکٹر اشتیاق صاحب کا سامان امانتاً پڑا تھا، جن کی رات کے تیسرے پہر کوریا کی فلائٹ تھی۔ اچھا ہوا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عزیر صاحب میامی جا رہے تھے۔ اُنھوں نے مجھے میرے ہوٹل پر اُتارا۔
٭ اٹلانٹا کا سفر:۔ پروگرام کے مطابق میامی سے بہ ذریعہ ہوائی جہاز دو گھنٹے کی پرواز کے بعد اٹلانٹا (جارجیا) پہنچا، تو رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے، بل کہ سامان کے حصول تک ایک بج ہی چکا تھا۔ بھائی حافظ عنایت اللہ نے ایئرپورٹ کے شمالی ٹرمینل کے گیٹ پر انتظار کرنا تھا، لیکن ایئرپورٹ اتنا بڑا اور پیچیدہ تھا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اصل گیٹ کون سا ہے؟ تھک ہار کر ایک خاتون اہل کار سے باہر کا مطلوبہ راستہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دیکھا حافظ صاحب شلوار قمیص میں ملبوس میری طرف آرہے ہیں۔ اُنھوں نے گاڑی باہر کھڑی کرکے ایئرپورٹ کے اندر آکر مجھے مزید پریشانی سے بچا لیا۔
مدین سوات سے تعلق رکھنے والے حافظ عنایت اللہ بھائی گذشتہ 25 سال سے اٹلانٹا کے قریب ماریاٹا کے علاقے کی ’’الہدایہ مسجد‘‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ شمالی امریکہ کے علاوہ یورپ اور افریقہ کے ممالک میں کانفرنسوں اور سیمیناروں میں لیکچر دینے جاتے ہیں اور اپنے خطے کی مسلم کمیونٹی میں خاصے مقبول ہیں۔ وہ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ ہیں اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے اٹلانٹا ریجن کے ذمے دار رہے ہیں۔ اس وقت اُن کی پوری فیملی سوائے ایک بیٹے کے اسلام آباد میں مقیم ہے۔ اس لیے مسجد کے قریب اُن کا خوب صورت ذاتی مکان میرے لیے میامی کے فور سٹار ہوٹل سے زیادہ باعثِ سکون و اطمینان تھا۔ اب آیندہ کئی دن تک مجھے حافظ صاحب کے مکمل نرغے میں رہنا ہے۔
٭ پاکستانیو، وی پی این حرام ہے:۔ مَیں اُس وقت جس پروگرام میں شرکت کر رہا تھا، اُس میں دنیا بھر سے آئے لوگ وافر تعداد میں شریک تھے۔ وہ نہایت ایڈوانس ٹیکنالوجی سے متعلق متفرق موضوعات پر علمی بحث و مباحثے، گفت گو اور موشگافیوں کا بہت بڑا ایونٹ تھا۔ رجسٹرڈ موجود شرکا کی تعداد 3741 تھی۔ اس میں انڈیا سے سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ وہ اُن پی ایچ ڈیز اور پوسٹ ڈاکٹریٹ سکالرز کے علاوہ تھے، جو کسی امریکی یونیورسٹی کی اسپانسرشپ پر شرکت کر رہے تھے۔ ایسے عالم گیر علمی موقع پر جو چار پانچ پاکستانی دیکھے گئے، وہ بھی کسی دوسرے امریکی شہر کی یونیورسٹی یا کسی ہائی ٹیک ادارے کی نمایندگی کرنے آئے تھے۔ پاکستان سے (میرے اور دیگر پاکستانی دوستوں کے مطابق) کوئی نہیں آیا تھا۔ اگر برخوردار نعیم الدین کو امریکی ویزہ ملتا، تو وہ بھی پراگ سے اپنی یونیورسٹی کی نمایندگی کرتا، پاکستان کی نہیں۔
٭ میامی کا مصلی یا مسجد:۔ سنا ہے میامی میں کئی مساجد ہیں، لیکن یہاں کا ’’ڈاؤن ٹاؤن‘‘ یعنی مرکزی علاقہ چوں کہ نہایت مہنگا ہے، اس لیے یہاں کی مسجد کرائے کی جگہ پر قائم کی گئی ہے۔ پہلی بار مسجد کو اکیلے ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن ناکام ہوکر واپس آیا تھا۔ ایک روز جنوبی کوریا سے آئے ہوئے پاکستانی سکالر ڈاکٹر اشتیاق کو ساتھ لے کر گیا۔ کیوں کہ اُنھوں نے مسجد پہلے سے معلوم کر لی تھی۔ عصر کا وقت تھا، لیکن مسجد میں بیٹھے ایک شخص نے کہا کہ یہ مصلیٰ ہے۔ یہاں جمعہ کے علاوہ صرف فجر اور عشا کی نمازیں باجماعت ہوتی ہیں۔ باقی نمازیں باجماعت نہیں ہوتیں۔
جمعہ پڑھنے گئے، تو 10، 15 لوگوں کو انتظار میں بیٹھا پایا۔ البتہ بعد میں تعداد بڑھ کر ڈیڑھ سو سے زیادہ ہوگئی۔ اتنی بڑی حاضری تو سیدو شریف میں میرے محلے کی مسجد میں بھی نہیں ہوتی۔ ایک بار عشا کی نماز جس امام صاحب نے پڑھائی تھی، وہ شام سے تعلق رکھتے تھے۔ کافی عمر کے تھے، لیکن داڑھی نہیں رکھی تھی۔ قرأت البتہ خوب صورت تھی۔
مَیں نے سوچا جمعہ بھی وہی بغیر داڑھی امام صاحب پڑھائیں گے، لیکن اُن کی جگہ ایک اور صاحب نے منبر پر انگریزی میں خطبہ شروع کیا۔ اُنھوں نے نوٹس بنائے ہوئے تھے اور لگ رہا تھا کہ اُن کے خطبے کا موضوع ’’کام یابی‘‘ (Success) کا اسلامی تصور تھا۔ اُنھوں نے تقریباً آدھے گھنٹے کے خطبے میں قرآن اور احادیث کی روشنی میں بہت اچھے طریقے سے اپنے موضوع کا حق ادا کیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے ہاں کے خطبا حضرات بھی مکمل تیاری کے ساتھ خطبۂ جمعہ دینے آتے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے تمام خطبا حضرات بغیر تیاری کے منبرِ رسول کا استعمال کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ اُن کے سامنے سامعین نہیں گوبھی کے پھول بیٹھے ہوتے ہیں۔
٭ امریکیوں کو انگریزی نہیں آتی:۔ ایک رات کھانا کھانے ایک ہندوستانی ریستوران کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے راستہ بھٹک گیا، جس کی نشان دہی پراگ سے برخوردار نعیم نے کی تھی۔ بھائی عنایت اللہ نے کہا تھا کہ میامی میں وٹس ایپ پر گزارا کرو۔ اٹلانٹا آؤ، تو موبائل فون سم کا بندوبست کریں گے۔ اس لیے میرے پاس گوگل نقشے کی جدید سہولت موجود نہیں تھی۔ مَیں نے کمرے سے نکلتے وقت کاغذ پر نقشہ اور معلومات لکھ لی تھیں، لیکن وہ کچھ کام نہ آئیں۔ ایک جگہ اپنی بائیک کے پاس کھڑے ایک نوجوان سے مطلوبہ جگہ کے بارے میں پوچھا، تو اُسے مدد کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ پایا، لیکن وہ انگریزی بول نہیں پا رہا تھا۔ وہ جتنی انگریزی بولتا اُس سے دگنی اُس میں ہسپانوی زبان ملا رہا تھا۔ اُسے انگریزی ہکلاتے بولتے دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
واپسی پر قریبی ٹرام سٹیشن کے بارے میں دو سیاہ فام خواتین سے انگریزی میں پوچھا، تو اُنھوں نے کہا: ’’اسپینوں، اسپینوں‘‘ یعنی تم ہسپانوی زبان میں بات کرو، تو کچھ سمجھ آ جائے۔
مجھے عجیب لگا کہ ہمارے ہاں عوامی ووٹوں سے منتخب نمایندگان ایوان میں منھ ٹیڑھا کرکے حسبِ توفیق انگریزی بولتے ہیں، تو فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور تو اور، وزیرِاعظم پاکستان، ترکیہ کے صدر سے انگریزی میں بات کرتے ہیں، تو اُس کا ترجمہ مہمان صدر کو ترکش زبان میں کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ میامی میں اکثریتی زبان ہسپانوی ہے۔ انگریزی کا نمبر دوسرا ہے۔ تمام پبلک مقامات جیسے ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن پر اعلانات انگریزی کے ساتھ ساتھ ہسپانوی زبان میں بھی ہوتے ہیں۔
٭ ’’اکنا‘‘ (ICNA) کنونشن میں شرکت:۔ امریکہ میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں ہیں جن میں ’’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘‘(اکنا) ایک نمایاں اور نہایت فعال تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد 50 سال قبل بعض پاکستانی تارکینِ وطن نے رکھی تھی، لیکن اب اس میں افریقائی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس کا مقصد دیارِ غیر میں مسلمان برادری کی مذہبی اور ثقافتی پشت پناہی کرنا اور اُنھیں اس معاشرے میں گم ہونے سے بچانا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کی سرگرمیوں کا دائرۂ کار بھی بڑھ گیا ہے۔ "Helping Hand” اور "ICNA relief” اس کی اہم ذیلی اکائیاں ہیں۔
’’اکنا‘‘ ہر سال مرکزی کنونشن کے علاوہ کئی علاقائی کنونشنیں بھی منعقد کرتی رہتی ہے۔ میرے ’’میزبانِ خصوصی‘‘ حافظ عنایت اللہ بھائی ’’اکنا‘‘ کے پروگراموں میں بہ طور مربی اور مقرر شرکت کرتے ہیں۔ اُنھوں نے میری امریکہ آمد سے پہلے اٹلانٹا سے ہیوسٹن ہوائی ٹکٹ کا بندوبست کیا ہوا تھا، لیکن مَیں نے وہ اُن سے یہ کَہ کر واپس کروایا کہ ہم کار کے ذریعے سفر کریں گے، تاکہ ہم امریکہ کی شاہ راہوں پر سفر کا تجربہ بھی کرسکیں۔
ہم نے حامد رضا قریشی صاحب کے ہم راہ اُن کی مرسڈیز وین میں اٹلانٹا تا ڈیلس سفر کیا، جوکہ پورے 13 گھنٹوں کی مسافت تھی۔ اگلے دن ڈیلاس سے ہیوسٹن کا سفر بھی 5 گھنٹے سے کم نہ تھا۔ اُن کی وین میں قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمہ کے نسخوں کی مختلف شہروں میں ترسیل کی جاتی ہے۔
ہیوسٹن کے سفر میں کُل 5 دن لگے۔ اُن میں 3 دن اکنا کے کنونشن میں گزرے جو کہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ عنایت اللہ بھائی کی وجہ سے ہمیں میریٹ ہوٹل کے ایک شان دار کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ کیوں کہ اسی ہوٹل میں اکنا کا کنونشن ہو رہا تھا۔ یہاں جنوب مغربی امریکہ کی ریاستوں، خصوصاً ٹیکساس، میسسپی اور لوئیزیانا کے لوگوں نے شرکت کی۔
یہ نہایت اچھا تجربہ رہا۔ کیوں کہ مَیں نے اس سے قبل دیارِ غیر میں مسلمانوں کے کسی پروگرام میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس میں تقریباً 2 ہزار ایشیائی اور افریقی سیاہ فام مسلمان شریک تھے۔ مختلف موضوعات پر مقررین کی پُرمغز تقریروں کے علاوہ باجماعت نمازوں کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ کچھ پروگرام الگ کمروں میں متوازی بھی چل رہے ہوتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنے بچوں اور خواتین کے ہم راہ شریک تھے، جن کے کچھ سیشن مشترکہ اور کچھ الگ ہوتے تھے ۔ سنا ہے اکنا کے مرکزی یا نیشنل کنونشن میں 30 ہزار سے زیادہ لوگ شریک ہوتے ہیں۔
٭ امریکہ کے نرالے رنگ ڈھنگ:۔ کلومیٹر کی جگہ میل، لیٹر کی جگہ گیلن، کلوگرام کی جگہ پاؤنڈ، بجلی کا بٹن اوپر کرو تو بتی روشن، نیچے کرو تو بتی گُل۔ دوستوں سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ کہنے لگے، کچھ نہیں……! بس امریکہ اپنے آپ کو باقی دنیا سے مختلف رکھنا چاہتا ہے۔
٭ قرآنِ پاک کے انگریزی مترجم، فاروقِ اعظم ملک صاحب سے ملاقات:۔ اپنی زبان میں ترجمہ قرآنِ پاک کے سلسلے میں پچھلے دو تین سال سے جن انگریزی تراجم سے استفادہ کر رہا ہوں، اُن میں ایک فاروقِ اعظم ملک صاحب کا ترجمۂ قرآنِ پاک بھی ہے، جس کی پی ڈی ایف کاپی مَیں نے نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی تھی، لیکن اُس کے ساتھ عربی متن شامل نہیں تھا۔ اس لیے مجھے ایک ایسے نسخے کی تلاش تھی، جس میں ترجمہ کے ساتھ عربی متن بھی شامل ہو۔ مجھے یہ تو پتا تھا کہ وہ امریکہ میں کہیں رہتے ہیں، لیکن یہ پتا نہ تھا کہ وہ ہیوسٹن (ٹیکساس) میں رہتے ہیں۔
اٹلانٹا تا ڈیلس سفر کے دوران میں بھائی حامد رضا قریشی صاحب سے معلوم ہوا کہ ملک صاحب ہیوسٹن میں رہتے ہیں اور اُن سے ملوانے کا وعدہ بھی کیا۔ قریشی صاحب ’’امریکن اسلامک آؤٹ ریچ‘‘ نامی ایک ادارے سے منسلک ہیں اور قرآنِ پاک کی مفت تقسیم کرتے ہیں۔ وہ جس انگریزی ترجمۂ قرآنِ پاک کی تقسیم کرتے ہیں، وہ فاروقِ اعظم ملک صاحب ہی کا ہے۔ اُنھی کی گاڑی میں ملک صاحب سے ملنے گئے، تو اُن کی مسجد میں کافی طویل اور مفید ملاقات ہوئی۔ اس دوران میں حافظ عنایت اللہ بھائی بھی ہم راہ تھے۔ اُن کے انگریزی ترجمہ کی کاپیاں اب تک 5 لاکھ 70 ہزار کی تعداد میں تقسیم ہوئی ہیں جو کہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اُنھوں نے ترجمۂ قرآنِ پاک کے حوالے سے نہایت مفید مشورے دیے۔ وہ 1970ء سے امریکہ میں رہایش پذیر ہیں اور ہیوسٹن کی 22 بڑی مساجد کی تنظیم "Islamic Society of Greater Houston” کے بانی بھی ہیں۔
فاروق ملک صاحب ہیوسٹن کے نواحی علاقے کی ایک مسجد ’’مسجدِ بلال‘‘ میں ایک جدید سکول بھی چلاتے ہیں، جو بارھویں جماعت تک ہے۔ سکول کے نہایت اعلا معیار کی سہولیات بہت متاثرکن تھیں۔ یہ سکول ہیوسٹن کے تعلیمی بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔
فاروق ملک صاحب سے معلوم ہوا کہ اُنھوں نے دیگر دوستوں کے ساتھ کافی دوڑ دھوپ کے بعد متعلقہ اداروں سے قبرستان کے لیے تین مربع زمین حاصل کی ہے، جو اُن کے مطابق ہیوسٹن کے مسلمانوں کے لیے 50 سال تک کافی رہے گی۔
رخصت ہوتے وقت ملک صاحب نے اپنے ترجمہ کردہ قرآنِ پاک کا ایک نسخہ بھی عنایت کیا۔
٭ امریکی مساجد میں نمازِ فجر کا اہتمام:۔ امریکی مساجد میں لوگوں کی نمازِ فجر میں اہتمام کے ساتھ شرکت دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ حالاں کہ یہاں کی مساجد محلے کی سطح کی مساجد کی طرح نہیں ہوتیں کہ لوگ اپنے گھروں سے چل کر آئیں۔ نمازیوں کو عموماً کئی کلومیٹر کا سفر طے کرکے آنا پڑتا ہے۔ اس لیے مسجد میں جتنے نمازی ہوتے ہیں، اُتنی ہی باہر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ مساجد کے پاس گاڑیاں پارک کرنے کے لیے وافر مقدار میں زمین درکار ہوتی ہے۔
ڈیلس میں نمازِ فجر میں نمازیوں کی تعداد بلا مبالغہ سیکڑوں میں تھی۔ اتنی تعداد ہمارے ہاں صرف رمضان المبارک کے دوران میں ہوتی ہے۔
٭ مسجد میں جسمانی صحت سے متعلق ورک شاپ:۔ الہدایہ مسجد میرئیٹا اٹلانٹا میں ہر منگل کی شب بعد نمازِ عشا ایک کلاس ہوتی ہے، جسے ’’حلقہ‘‘یا "Halaka” کہا جاتا ہے۔ اس میں مختلف موضوعات پر لیکچروں یا ورک شاپوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس بار ایک ورک شاپ جسمانی صحت سے متعلق ہوئی، جن ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی گئی تھی، اُن کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے قرآن اور حدیث کے حوالے دے کر صحت کے بارے میں ایک ایسے موضوع پر بات کی، جس کا نام میرے علم میں نہیں تھا۔ اس کو "Chiropractics” کہا جاتا ہے۔ اس میں پٹھوں، عضلات اور ہڈیوں کے ڈھانچے کی بے ترتیبی کا علاج ایک خاص قسم کی ورزش سے کیا جاتا ہے۔ مجھے کسی ڈاکٹر کا مسجد کے محراب میں کھڑے ہوکر صحت سے متعلق اُمور پر بات کرنا اچھا لگا۔
٭ اٹلانٹا میں سواتی ضیافت:۔ اٹلانٹا میں سوات کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کے لیے ضیافت درشخیلہ سوات کے باشندے زبیر خان اور نیاز علی خان کی طرف سے رکھی گئی تھی۔ یہ اٹلانٹا کا کوئی نواحی علاقہ تھا، جہاں نیاز علی خان نے نئے گھر کی افتتاحی تقریب میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ اس پروگرام میں مجھ سمیت سوات کے کئی علاقوں کی نمایندگی تھی…… یعنی بحرین، مدین، خوازہ خیلہ، درشخیلہ، سنگوٹہ، مینگورہ، کبل، تیندو ڈاگ وغیرہ۔ اس کے علاوہ بنوں، پشاور اور مانسہرہ کے لوگ بھی تھے۔
پروگرام میں بہترین پاکستانی کھانوں کے علاوہ مہمان خانے سے ملحق گھر کے اندر سے آنے والی بچوں اور خواتین کی پشتو آوازوں سے یہ محسوس ہو رہا تھا، جیسے ہم سوات کے کسی علاقے میں کسی گھر میں مدعو ہیں۔
٭ نصیبوں والا مہمان:۔ ایک دن صبح اٹلانٹا کے نواحی شہر ماریاٹا میں میرے میزبان حافظ عنایت اللہ صاحب نے فون پر حکم دیا کہ میں اُوپر والی منزل پر واقع اُن کے کمرے میں آؤں۔ اُوپر گیا، تو میرے قدموں کی چاپ سن کر غسل خانے سے آواز دی کہ اندر آؤ! آپ کی داڑھی اور خط بنانے ہیں۔ مَیں نے کہا، مَیں اپنے ساتھ پاکستان سے کلپر لایا ہوں۔ خود بناؤں گا۔ کہنے لگے، میرا اس میدان میں 25 سالہ تجربہ ہے۔ مَیں اپنے اور اپنے مہمانوں کی داڑھی اور خط شوق سے بناتا ہوں۔ اُن کو بس میرے آگے سر نگوں ہونا پڑتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہندوستان سے آئے مشہور عالمِ دین مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کے بال بھی اُنھوں نے بنائے تھے۔
غسل خانے میں طرح طرح کی قینچیاں، کنگھیاں اور بال بنوانے کی مشینیں پڑی ہوئی تھیں۔ چار و ناچار اُن کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ ایسے میزبان بڑے نصیبوں والوں کو ملتے ہیں۔ لہٰذا مہمان پر علمی، فقہی اور روحانی تجربات ابھی جاری ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
